Qalamkar Website Header Image

وادی ِ حسینؑ سے اٹھتی صدا

Wadi e Hussainوادی السلام سے وادی حسینؑ، بہشت زینب ؑ تک عجب رونق ہے، شہدا کی قبور، گلابوں کی مہک ، ہوا کے دوش پر لہراتے علم کے پھریریے کی ارتعاش اور لبوں سے آزاد ہوتی کلام پاک اور درود کی صداؤں اور دعاؤں نے ایک بار پھر مجھے یاد دلایا ہے کہ انسان کی جائے پناہ مٹی کی آغوش ہی ہے، لیکن کربلا کی سر زمین میں چھپے نگینے یاد دلاتے ہیں کہ حق اور حریت کا نظریہ ہمیشہ زندہ رہتا ہے، اور جو کوئی حسینؑ کو رہبر مان کر اپنی فکر ، عمل کو اس راہ پر گامزن کر لے تو اس کا مقدر بھی ان درخشاں ستاروں کے صدقے روشن ہوجایا کرتا ہے۔
شب برات ہے اور وادی حسین ؑ میں یہ گام گام شہدا کی قبریں اور ان پر سجا گلوں کا انبار اور کربلا کے شہید غازی کا زندہ نشاں، لہراتا ہوا علم ان کی فتح کا اعلان ہے، خدا کی وحدانیت کی گواہی دیتے ہوئے یہ مسجد حیدری کے شہدا ، یہ امام بارگا علی رضا کے شہدا ہیں جن کی جبنیں سجدے میں جھکی رہ گئیں، ان سے ذرا، آگے یہ عزاداران نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وآل وسلم کی منزلیں جو روز عاشور ایک پیاسے قتل کئے جانے والے امام حقؑ کے کو خراج عقیدت پیش کررہے تھے، اس کی مظلومیت پر آنسو بہاتے اور سینہ کوبی کرتے جارہے تھے، اس کے انصار، اقربا اور معصوم بچوں کی قربانیوں کا تذکرہ کر رہے تھے جو ایک فاسق اور ظالم اور جابر کے کثیر لشکر کے سامنے جرات سے ڈٹ گئے تھے، جو گنتی میں تو بہتر تھے لیکن لاکھوں کے لشکر پر یوں چھا گئے کہ آج زمانوں کا سفر طے کرنے کے بعد بھی ’’ہل من ناصر ینصرنا‘‘ کی آواز استغاثہ پر لبیک کہنے کا سلسلہ رک نہ سکا۔ لیکن ان کی محبت اور ظالم یزید کیخلاف احتجاج اس کے پیرو کاروں کو نہ بھایا تو ان کو خاک و خون میں نہلا دیا گیا۔
اور اس سے کچھ ہی فاصلے پر یہ وہ نوجوان و کمسن شہدا ہیں جو اربعین ِ امام حسینؑ پر عزاداری شہدالئے عازم سفر تھے کہ ان کی بس کو بارود سے تباہ کردیا گیا، یہ جو قبریں ہیں نہ ہر تھوڑے فاصلے پر جن پر پھولوں کے سہرے سجے ہیں یہ وہ نوجوان ہیں جو نوکری سے آتے، کالج کو جاتے ہوئے نہ معلوم وجوہات کی بنا پر قتل کر دئیے گئے، شاید ان کے نام کے آخر میں لگا حسینی، رضوی، نقوی، سید ، زیدی کسی دشمن رسول صلی اللہ علیہ وآل وسلم سے برداشت نہ ہوسکا اس لئے ان کو قتل کر کے اس نے اپنے بغض رسول صلی اللہ علیہ وآل وسلم کو تسکین پہنچانے کی کوشش کی۔
یہ استاد سبط جعفر شہید ہیں جن کی قبر پر نوجوانوں خراج محبت میں گلدستہ پیش کر رہے ہیں، ایک شفیق ا2-wadi-e-hussainستاد، خوش لحن آواز میں جب نعت رسول صلی اللہ علیہ وآل وسلم اور بارگاہ اہلیبیتؑ میں قصیدہ پڑھا کرتے تھے تو عاشق رسول عقیدت سے جھوم جاتے تھے۔ محبتوں، عقیدتوں اور علم کے روشنی پھیلتے دیکھ کر کسی ابو جہل نے اس استاد کو درسگاہ کے قریب ہی فائرنگ کر کے قتل کر دیا اور نادان سمجھا کہ اب یہ باب بند ہوگیا ،لیکن بد عقل یہ تو غور کرتا کہ کربلا کے چودہ سو سال گزرنے کے بعد بھی کیا فلسفہ حسینؑ ختم ہوسکا ہے؟ یہ منتقل ہوتا چلا جاتا ہے۔
یہ خرم زکی شہید جو وادی حسین ؑ میں محو استراحت ہیں، ابھی پندرہ روز پہلے ہی وادی حسینؑ کے مکین ہوئے، ان کی زبان اور قلم سے دشمن خوف کھاتا تھا، ظالم اور دہشتگرد ٹولہ کی ہر سرگرمی پر نظر اور وطن سے نا انصافی، ظلم اور دہشتگردوں کا صفایا ان کا نظریہ آج بھی ختم نہیں ہوسکا، یہ وہ آفاقی نظریہ ہے جو کبھی مٹ نہین سکتا ، یہ بھول ہے کہ کوئی اس صدائے حق کو خاموش کراسکتا ہے، جب جب ظلم، قتل، نا انصافی، اور حق سے محروم کیا جائے گا، جب جب خرم زکی کی مانند کوئی بھی حق کا پیرو کار اٹھے گا اور نعرہ حریت بلند کرے گا۔
یہ تو ایک وادی حسینؑ، بہشت زینب کیا پورا ملک ہی ان قاتل،ظالموں نے قبرستان میں تبدیل کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی، ستر ہزار بے گناہ پاکستانی اس موذی طبقہ فکر اور انتہا پسندی کی بھینٹ چڑھ گئے، کیا شعیہ، کیا سنی ، کیا عیسائی اور ہندو انہوں نے تو معصوم بچوں کو بھی نہ بخشا، پشاور اسکول ہو یا لاہور کا گلشن راوی پارک ان کے ظلم کا گواہ ہے، لیکن سوال اس نمائندہ اور جمہوری حکومت سے یہ ہے کہ ان کیخلاف کارروائی کون کرے گا؟ یہ ریاست کی حدود میں ریاستی قوانین کو چیلنج کیسے کرتے ہیں؟ کیا ان ٹولوں کو کالعدم قرار دینے سے ریاست بری الذمہ ہوجاتی ہے؟ کہ اس کے بعد یہ جس طرح چاہیں اپنی شر انگیزیاں پھیلائے ، کانفرنس کے نام پر یہ کالعدم تنظیمیں منافرت کا بازار سجائے، نامزد قاتل مہمان خصوصی کا تاج سجائیں؟ اس کا جواب تو ریاست کو دینا پڑے گا۔ ایک ایک بے گناہ پاکستانی کا خون ، ان کی قبور یاد دلاتی ہیں کہ ان کے خون کا بدلہ باقی ہے اور جب تک ان کے قاتل موت کے تختے پر نہیں جھولتے ، ریاست سے سوال کیا جاتا رہے گا۔

حالیہ بلاگ پوسٹس