آج سے تقریباً بیس سال پہلے کی بات ہے مجھے فلسفہ پڑھنے کا بھوت سوار ہوا پھر مطالعہ گردی کی خاطر بازار نوردی کے بعد فلسفے کی کتابیں خریدیں۔ دماغ کی گتھیاں سلجھانے فلسفہ ڈیپارٹمنٹ کے جاوید امیری کے پاس پہنچی، پر لطف گفتگو رہی مگر طبیعت اور موضوعات کے الجھاؤ نے نچلا نہیں بیٹھنے دیا۔ دبئی میں سلیم جعفری سے اکثر کتابوں کا تبادلہ ہوتا جس میں کتابوں سے زیادہ خیالات کا تبادلہ ہوتا جو اس لین دین کا ثمرہ ہوتا وہ میری کتاب جب کبھی ادھر ادھر کر دیتے اور میں تقاضہ کرتی تو جوابا وہ کہتے کہ پاکستانی روپوں کے بجائے درہم لے لو اور جان چھوڑو اور میرا اصرار ہوتا کہ سلیم کتاب اس لئے انمول ہو چکی تھی کہ اس کی سطور سرخ روشنائی سے نمایاں کی گئی تھیں اور حاشیہ پر اٹھنے والے سوالات تو بہت ہی مہنگے تھے !!اور پھر وہ مسکرا کر مجھے کتاب واپس کر دیتے اکثر سوال کے جواب میں سوال ہی ہوتے سلیم کی بیوی شاہدہ نے ایک مرتبہ ہمیں الجھتے دیکھا تو کہا ارے تسنیم کیا سودا سوار ہوا ہے فلسفہ ، نفسیات ،مذاہب عالم یہ سب پڑھ کر تم لوگ پاگل ہو گے کیا ؟ میرے جواب دینے سے پہلے سلیم نے کہا شاہدہ پڑھ کر پاگل ہونے والا جاہل پاگل سے بہتر ہوتا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔
اب چند ہفتوں سے لفظ پاگل کو سمجھنے کی کوشش میں پاگل ہو رہی ہوں ۔۔۔ نفسیات بھی کیسا پر لطف پیچیدہ اور پر اسرار مضمون ہے ۔۔۔۔شایدپاگل پن کوئی مخصوص طبی بیماری نہیں یہ ایک سے زیادہ نفسیاتی امراض کا مجموعہ بھی ہو سکتا ہےپاگل پن مجھے تو ایسا لگا کہ ایک کیفیت کا نام ہے قانون کی زبان میں ایسی کیفیت کہ جس کے باعث کوئی شخص کسی بھی جرم کی مجرمانہ جوابدہی سے مستثنی قرار دیا جاسکتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔اب جب اس تعریف پر غور کیا تو ایسا لگا کہ ساری دنیا ایک پاگل خانہ ہے افراط و تفر یط کی کیفیت میں مبتلا افراد جب اجتماعی شکل اختیار کر لیں تو پھر بہت خطرناک صورت حال سامنے آتی ہے۔ کبھی تو ہم سب شیزوفرینیا کے شکار لگتے ہیں جہاں hallucinations and delusions کی نمایاں علامات میں ہمارا انسانی سماج مبتلا نظر آتاہے کبھی اکثریت مسیحا مختلط (Messiah complex)یا آسان الفاظ میں خود کو ( savior )تصور کرنے لگتی ہے نجات دہندہ ایسی خود فریبی میں مبتلا ہوتا ہے کہ ساری دنیا کے لئے ایک مصیبت بن جاتا ہے اگر اسی پاگل پن میںBipolar disorder بھی ہو تو بس پھر تو یوں سمجھ لیں کہ مخاطبین یا سامعین یا اج کے دور میں تو ناظرین کہیے کہ سارا معاشرہ الکٹرونک میڈیا یا سوشل میڈیا کی وجہ سے اس وبا کی لپیٹ میں ارہا ہے کبھی خبط عظمت کی خود فریبی ،توکبھی لوگوں کے عائلی معاملات کو نجات دہندہ کی طرح لاکھوں لوگوں کے سامنے حل کرنے کی خوش فہمی ، کبھی پاکیئ داماں کی حکایت میں بند قبا کی فراموشی ۔۔۔۔۔۔۔بھئی مذہب اور حب الوطنی کے مریضوں نے تو ایسا دو قومی نظریہ پیش کیا ہے جس میں ایک استحصالی طبقہ ہےاور دوسرا طبقہ اشرافیہ اللہ اللہ خیر صلی اس نظریہ میں روزانہ پیوند کاری کا کام جاری رہتا ہے ۔۔۔۔۔اب مجھے اس پاگل خانے میں نئے مذہبی جنونیوں کے منتخب ہونے پر بھی حیرت نہیں ۔۔چاہے وہ امریکا کے ٹرمپ ہوں یا یوپی کے شدت پسند وزیر اعلی یوگی ادیا ناتھ ہو ، یابنوں کے خاکروبوں کے ٹینڈر کو ارسال کرنے والا کوئی تنگ نظر ہو یا پھر کوئی عدالت کا محفوظ فیصلہ ہو یا ٹی وی کے اینکر حضرات ہوں جو روزانہ اپنی منتشر شخصیت اور مضطرب کیفیت کی وجہ سے دنیا کے پاگل خانے کو آباد رکھے ہیں بس گلہ ہے تو اتنا کہ اب کسی کے پاگل پن پر حیرت نہیں ہوتی اس پر حیرت ہے
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn