نام : ٹھاکر اجے سنگھ بشٹ عرف یوگی آدتیا ناتھ ، عمر:چوالیس برس ، تعلق : گڑھوال اترا کھنڈ ، تعلیم : سائنس گریجویٹ ہیم وتی بہوگنا یونیورسٹی ،پسندیدہ لباس : گیروا چولا دھوتی مالا تلک ، مذہبی منصب: مہنت ( چیف پریسٹ ) گورکھ ناتھ ٹمپل گورکھپور ، مشاغل : باغبانی ، مذہبی مطالعہ ، بجھن گائیکی، تیرتھ یاترا۔خصوصی مشاغل : یوگا ، گؤ رکھشا ، ذاتی تنظیم : ہندو یوا واہنی ( جس کا مقصد ہندو ثقافت کا تحفظ اور احیا ) ، مقصدِ حیات : بھارت کو ہندو راشٹر بنانا اور اس پر ویدوں کی تعلیمات کی روشنی میں ہندو راج کا نفاذ ۔ نظریاتی و سیاسی تعلق : آر ایس ایس ، بی جے پی ، وشو ہندو پریشد ۔
پولیس مقدمات : اقدامِ قتل ، فرقہ وارانہ نفرت کا ابھار ، مقدس مقامات کی بے حرمتی ، دنگا وغیرہ۔ماضی میں اتر پردیش کے کئی اضلاع کی انتظامیہ یوگی آدتیاناتھ کے داخلے پر فسادِ خلق کے خوف سے پابندی لگا چکی ہے۔دبنگ یوگی آدتیاناتھ کے روزمرہ اور غیر ہندوؤں کے بارے میں خیالات برملا اور گول مول آلودگی سے پاک ہیں۔
جون دو ہزار پندرہ میں یوگا کے عالمی دن کی تقریبات میں تمام سرکاری ملازموں کی لازمی شرکت کے خلاف ہونے والے احتجاجی مظاہروں کی نندا (مذمت ) کرتے ہوئے یوگی جی نے فرمایا کہ یوگا شنکر بھگوان نے ایجاد کی۔ شنکر مہادیو اس دھرتی کے ذرے ذرے میں بستے ہیں۔ یوگا اور شنکر کو پسند نہ کرنے والے ہندوستان سے جا سکتے ہیں۔ اور جو سوریا نمسکار ( یوگا کا ایک آسن ) کے مخالف ہیں وہ خود کو سمندر میں ڈبو لیں۔
اگست دو ہزار پندرہ میں یوگی جی نے ہندو والدین کو خبردار کیا کہ وہ اپنی بیٹیوں کو لو جہاد سے بچائیں۔مسلمان ہندو لڑکیوں کو شادی کے جال میں پھنسا کر مسلمان کرتے ہیں۔ایک بغیر تاریخ و وقت کی وڈیو میں یوگی جی کہہ رہے ہیں کہ اگر وہ ایک ہندو لڑکی کا دھرم بدلوائیں گے تو ہم سو مسلمان لڑکیوں کا دھرم بدلوائیں گے۔اگر مسلمان یونہی بے تحاشا بچے پیدا کرتے رہے تو ایک دن دیش میں آبادی کا توازن بگڑ جائے گا۔سرکار کو چاہیے کہ وہ مسلمانوں کی آبادی پر روک لگانے کی یوجنا ( منصوبہ ) بنائے۔
ایک اور بنا تاریخ اور وقت کی وڈیو میں یوگی جی کہہ رہے ہیں کہ اگر ایک ہندو مارا جاتا ہے تو ہم پولیس کے پاس نہیں جائیں گے بلکہ دس مسلمان ماریں گے۔
دسمبر دو ہزار پندرہ میں دلی کے قریب دادری قصبے میں اخلاق احمد نامی ایک ادھیڑ عمر کے مسلمان کو گائے ذبح کرنے کے شک میں مار ڈالا گیا۔تحقیقات سے پتہ چلا کہ اخلاق کے گھر میں گائے کا گوشت نہیں بلکہ مٹن تھا۔یوگی آدتیاناتھ نے ابھی دو ماہ پہلے فرمایا کہ سرکار اخلاق احمد کے خاندان کو جو مالی مدد دے رہی ہے وہ روکی جائے اور اس بات کی چھان پھٹک کی جائے کہ اخلاق احمد دو مرتبہ پاکستان کیوں گیا تھا۔
یوگی آدتیا ناتھ اداکار عامر خان کو مشکوک اور مدر ٹریسا کو ایسا کرسچن مشنری قرار دے چکے ہیں جو خدمت کے پردے میں ہندوؤں کو عیسائی بنانے کا مشن چلاتی رہیں۔شاہ رخ خان کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اگر لوگ اس کی فلمیں نہ دیکھیں تو وہ بھی کسی معمولی مسلمان کی طرح گلیوں میں مارا مارا پھرے گا۔یہ لوگ آتنک وادھ ( دہشت گردی ) کی زبان بولتے ہیں۔شاہ رخ خان اور حافظ سعید کے وچاروں ( خیالات ) میں کوئی فرق نہیں۔
یوگی جی کی زندگی، سیاست اور نظریات کے بارے میں بات کا کشٹ میں اس لیے اٹھا رہا ہوں کہ اب وہ بھارت کی سب سے گنجان اور انتخابی اعتبار سے سب سے اہم ریاست اتر پردیش کے وزیرِ اعلیٰ ہیں۔ان کی جماعت بی جے پی کو ریاستی اسمبلی میں مطلق اکثریت حاصل ہے۔ ریاست میں بیس فیصد آبادی ( تقریباً چار کروڑ ) مسلمانوں پر مشتمل ہے۔مایا وتی کی بہوجن سماج پارٹی نے سو مسلمان امیدوار کھڑے کیے مگر خود مایاوتی بمشکل انیس نشستیں جیت سکیں حالانکہ انتخابی دانشور انھیں اپنے جائزوں میں سب سے بڑی اکثریتی پارٹی کے طور پر ابھرتا دیکھ رہے تھے۔
چار سو تین ارکان پر مشتمل اترپردیش اسمبلی میں بی جے پی کے تین سو بارہ کامیاب امیدواروں میں ایک بھی مسلمان نہیں کیونکہ ایک بھی مسلمان کو ٹکٹ نہیں دیا گیا۔یوں بی جے پی نے ثابت کردیا کہ ریاست کے بیس فیصد مسلمان انتخابی نتائج پر اثرانداز نہیں ہو سکتے۔مزید زخم یہ چھڑکا گیا کہ یوگی آدتیاناتھ کی سینتالیس رکنی کابینہ میں واحد مسلمان وزیرِ مملکت محسن رضا ہیں۔ان کی وجہِ شہرت ایک بار رانچی کرکٹ ٹرافی کے لیے کھیلنا ہے۔ محسن رضا انیس سو پچانوے میں مردانہ مقابلہِ حسن ’’ پرنس آف لکھنؤ ’’ کا ٹائٹل جیت چکے ہیں اور سرکاری ٹی وی دور درشن کی ایک ڈرامہ سیریز نیم کا پیڑ میں اداکاری کر چکے ہیں۔نئی کابینہ میں ایک سکھ وزیر مہندرا سنگھ ہیں۔جب کہ یو پی میں بیس فیصد مسلمانوں کے مقابلے میں سکھ آبادی صفر اعشاریہ انتالیس فیصد ہے۔
دیوبند سے پہلی بار بی جے پی کے امیدوار برجیش سنگھ جیتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ وہ اسمبلی کے پہلے اجلاس میں دیوبند کا نام دیوورند رکھنے کی قرار داد پیش کریں گے۔کیونکہ یہی اس قصبے کا مہا بھارت کے زمانے سے قدیم نام ہے اور یہ درست نہیں کہ قصبہ صرف اس لیے پہچانا جائے کہ یہاں پچھلے ڈیڑھ سو برس سے دارلعلوم دیوبند قائم ہے۔
یوگی آدتیاناتھ کی حکومت آنے والے دنوں میں کن کن پالیسیوں کو عملی جامہ پہنائے گی۔یہ تو میں نہیں بتا سکتا البتہ گذشتہ برس جون میں آپ فرما چکے ہیں کہ میں کسی عہدے کے لیے نہیں بلکہ مشنری جذبے سے سیاست میں ہوں۔جب ایودھیا کا متنازعہ ڈھانچہ ( بابری مسجد ) گرانے سے کوئی نہیں روک سکا تو مندر بنانے سے کون روکے گا۔
جو کہانی گجرات کے وزیرِ اعلی نریندر مودی سے شروع ہوئی اب یوگی آدتیا ناتھ تک پہنچ چکی ہے۔بھارت کی باقی رولو دھولو سیاسی قوتوں کے لیے بس یہی کافی ہے۔
ہماری باتیں ہی باتیں ہیں مودی کام کرتا ہے۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn