اگر آپ کراچی میں رہتے ہیں یا کبھی کراچی کا تفصیلی دورہ کرچکے ہیں تو شہر کی دیواروں پر سیاسی نعروں کی چاکنگ کے علاوہ غیر سیاسی وال چاکنگ بھی ضرور دیکھی ہوگی۔ ان میں بابا عامل بنگالی کے ذریعے معشوق کو غلام بنانے سے لے کر شادی سے پہلے یا بعد میں طبی معائنہ کروانے کے مشورے تک سبھی کچھ شامل ہوتا ہے۔ ان غیر سیاسی وال چاکنگ کے ذریعے جس نے سب سے زیادہ شہرت حاصل کی وہ گلستان جوہر کا "پرفیوم چوک” ہے کہ جو آپ کو ہر محلے کی گلیوں، دکانوں کے شٹروں، روڈ پر لگے خالی اشتہار بورڈ، چوراہے پر لگی ٹین کی چادروں غرض یہ کہ ہر چیز پر لکھا نظر آئے گا۔
پرفیوم چوک، گلستان جوہر کی وال چاکنگ کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے اور وہ ایسا کیوں کر رہا ہے؟ یہ ایک طویل اور دلچسپ کہانی ہے۔ مختصر یہ کہ آج سے کوئی دس، بارہ سال قبل گلستان جوہر میں مرسلین خان نامی صاحب نے ایک کیبن میں عطر کا کاروبار شروع کیا۔ یہ کیبن ویسا ہی تھا کہ جیسے عام طور پر پان فروش استعمال کرتے ہیں۔ اس وقت چونکہ گلستان جوہر اتنا گنجان آباد نہ تھا، اس لیے مرسلین خان صاحب نے اپنے دکان نما کیبن کی تشہیر کے لیے وال چاکنگ کا سہارا لیا اور مختلف علاقوں کی دیواروں کو بلا جھجک "پرفیوم چوک، گلستان جوہر” کے نام سے رنگنا شروع کردیا۔ اس دوران مرسلین خان صاحب کو کئی مسائل کا سامنا بھی ہوا جن میں متعدد بار ان کا کیبن مسمار کیئے جانے سے لے کر کینٹونمنٹ بورڈ کی طرف سے 2.8 ملین جرمانہ عائد کیا جانا بھی شامل ہے لیکن ان سب کے باوجود مرسلین خان اپنے کام میں جتے رہے اور کراچی کا کوئی ایسا محلہ نہ چھوڑا کہ جہاں پرفیوم چوک کا نام نہ لکھا ہو۔ نتیجہ یہ ہوا کہ آج اس علاقے کو لوگ پرفیوم چوک کے نام سے جانتے ہیں۔ بس اور رکشہ میں سفر کرنے والے بھی چوک کا نام استعمال کرتے ہیں۔ بقول شخصے چوک کے قریب رہنے والے لوگ تو شناختی کارڈ میں پتہ درج کروانے کے لیے بھی نزد پرفیوم چوک بطور حوالہ استعمال کرنے لگے ہیں۔ اور تو اور مشہور ٹی وی چینلز اس پر نہ صرف ڈاکیومینٹریز بناچکے ہیں بلکہ ایک مشہور ڈرامہ سیریل بھی اس نام سے بنایا اور نشر کیا جا چکا ہے۔
اب آتے ہیں اس کہانی کو بیان کرنے کے مقصد پر۔ ہم یعنی اردو بلاگستان کے ساتھی انتہائی مہذب اور پڑھے لکھے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگیا کہ اردو بلاگر جس لگن کے ساتھ لکھ رہے ہیں اور اردو کو فروغ دے رہے ہیں اتنا کسی دوسری زبان میں بلاگنگ کرنے والوں نے نہ کیا ہوگا۔ ہمارے درمیان کئی ایک مثالی بلاگز اور بلاگر موجود ہیں کہ جن کا کوئی ثانی نہیں۔ سنجیدہ، سیاسی، طنز و مزاح، تنقیدی، تاریخی، کھیل، انفارمیشن ٹیکنالوجی سمیت تقریباً ہر موضوع پر اردو بلاگر لکھ رہے ہیں۔ یہ ہمارے ساتھیوں کی ناقابل بیان محنت ہی کا نتیجہ ہے کہ ایک دہائی قبل بویا جانے والا اردو بلاگنگ کا بیج آج ایک تناور درخت بن چکا ہے۔ لیکن اکثر یہ سوال ذہن میں آتا ہے اتنی محنت اور لگن کے باوجود اردو بلاگر کو اتنی پزیرائی کیوں حاصل نہیں ہو پائی کہ جتنی دیگر خصوصاً انگریزی زبان میں بلاگنگ کرنے والوں کی ہوتی ہے۔ باوجود اس کے کہ ہم قومی زبان میں بلاگنگ کرتے ہیں کہ جو ہر تین جماعت پاس شخص بھی پڑھ سکتا ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں انگریزی بلاگرز و سوشل میڈیا ماہرین چھائے رہتے ہیں؟
اس کی کئی ایک وجوہات ہوسکتی ہیں کہ جن میں اردو بلاگران کی اکثریت کا غیر ضروری شرمیلا پن، بے لچک رویہ اور مواقع سے فائدہ نہ اٹھانا بھی شامل ہے۔ ملک میں تقریباً ہر ہفتے کسی نہ کسی ادارے یا این جی او کے تحت سوشل میڈیا سیمینارز اور meet-ups ہوتی رہتی ہیں کہ جن کا اردو بلاگران کو اول تو علم ہی نہیں ہوتا اور اگر ہو بھی جائے تو وہ اس میں شرکت نہیں کرتے۔ یوں ہم نہ صرف خود اپنے بلاگ کی تشہیر کا موقع ضائع کرتے ہیں بلکہ اجتماعی طور پر اردو بلاگنگ کو فروغ دینے کا موقع بھی گنوا بیٹھتے ہیں۔ آپ تصور کریں کہ اگر اردو بلاگران بھی مرسلین خان کی طرح بلاجھجک اور قدرے بے لچک رویہ اپنائیں، شرما حضوری کو کچھ دیر کے لیے چھٹی پر بھیج دیں اور ہر تقریب، چھوٹی بڑی meet-ups میں شرکت کی کوشش کریں تو اردو بلاگنگ کو کس قدر فائدہ پہنچے گا۔ ممکن ہے کہ اردو بلاگران کسی غیر زبان میں ہونے والے سیمینار یا تقریب میں شرکت کرنا عجیب محسوس کریں لیکن میری نظر میں اس کا فائدہ کم از کم دو طرح سے اردو بلاگنگ کو پہنچ سکتا ہے۔ اول یہ کہ اردو بلاگر کی تقاریب میں موجودگی وہاں موجود لوگوں کی توجہ اردو زبان میں بلاگنگ کی طرف مبذول کروائے گی اور دوسرا فائدہ اردو بلاگر کو حاصل ہونے والا تجربہ ہے کہ جسے وہ بعد ازاں عملی اقدامات کے لیے بھی استعمال کرسکتا ہے۔
مرسلین خان کے مثال دینے کا مقصد قطعاً یہ نہیں کہ جناب آپ بھی اسپرے لیں اور دیواروں کو اپنے بلاگ اور اس کے ایڈریس سے رنگنا شروع کردیں۔ ہمیں صرف مرسلین خان کی پرفیوم چوک مارکیٹنگ اسٹریٹیجی کو اپنے طریقہ سے استعمال کرنے کی ضرورت ہے کہ بلاگنگ کی دنیا میں قدم رکھنے والے شخص کو ہر جگہ اردو بلاگ اور اردو بلاگستان کا نام نظر آئے۔ کم از کم پاکستان میں جب بھی سوشل میڈیا یا بلاگنگ کے حوالے سے کوئی کام کیا جائے تو اس میں کسی نہ کسی اردو بلاگ کا نام بھی شامل ہو۔ ضرورت اس چیز کی ہے کہ اردو بلاگران خود سے آگے بڑھیں، اردو کمیونٹی سے باہر نکل کر آن لائن اور آف لائن دونوں طرز پر بلاگنگ کے حوالے سے ہونے والی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیں، بلاجھجک اپنا اور اپنے بلاگ کا تعارف ہر جگہ پیش کریں، دیگر زبانوں کے کامیاب بلاگران سے سیکھیں اور حاصل ہونے والے تجربے کو اردو بلاگنگ کے فروغ پر استعمال کریں۔ یوں مستقبل میں لوگ "اردو بلاگستان” سے اپنی وابستگی کو بھی فخریہ طور پر بطور حوالہ استعمال کرسکیں گے۔
bilaunwan.wpurdu.com
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn