Qalamkar Website Header Image

میرے بچپن کے رسالے-محمد اسد

آج اتوار یعنی ہفتہ وار تعطیل کا دن ہے اور ہر چھٹی والے دن کی طرح آج بھی معمول سے پہلے ہی آنکھ کھل گئی۔ صبح سویرے ٹویٹر پر نظر ڈالی تو دوست بلاگر احسن سعید کا ایک سوال سامنے آیا۔ پوچھا تھا کہ بچپن اور لڑکپن میں پسندیدہ رسالہ کونسا تھا؟ بات ہو رسالوں کی اور وہ بھی بچپن کے تو پہلا نام ماہنامہ ہمدرد نونہال ہی کا ذہن میں آتا ہے۔ اس کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں سے ایک یہ کہ حکیم محمد سعید کی ادارت میں کراچی سے شائع ہونے والے اس ماہنامہ نے ہمیں "چائلڈ اسٹار” بننے کا موقع بھی فراہم کیا۔ البتہ یہ الگ بات ہے کہ بعد میں ہمارا نام صرف "ناقابل اشاعت تحاریر” کے صفحے پر ہی نظر آیا۔

یہ تو ٹھیک طرح یاد نہیں کہ ہمدرد نونہال کب اور کیسے پڑھنا شروع کیا لیکن ایک عرصے تک ہمارے لیے "رسالہ” کا مطلب ہمدرد نونہال ہی ہوا کرتا تھا۔ جب پڑھنے کی رفتار میں تھوڑی تیزی آئی تو رسالہ بہت جلد ختم ہونے لگا۔ کئی بار تو ایسا بھی ہوا کہ شام میں رسالہ گھر آیا اور صبح تک پورا پڑھ بھی چکے۔ ایسے میں سخت کوفت ہوتی تھی کہ ہمارے رسالے بھی امی کے رسالوں (اردو ڈائجسٹ، کرن، شعاع وغیرہ) جتنے موٹے کیوں نہیں آتے۔

یہ بھی پڑھئے:  قمیضاں چھینٹ دیاں

اس مسئلہ کا حل یہ نکالا کہ بچوں کا "بڑا والا رسالہ” لیا جائے اور یوں لاہور سے شائع ہونے والا تعلیم و تربیت بھی خریدا جانے لگا۔ پھر ماہنامہ ساتھی اور آنکھ مچولی کا تعارف ہوا تو وہ بھی ان رسالوں میں شامل ہوگئے کہ جو ہر ماہ بچوں کے لیے گھر آیا کرتے تھے۔ لیکن پھر جون اور جولائی میں اسکول سے ملنے والی طویل چھٹیوں کے دوران یہ مسئلہ پھر سر اٹھاتا اور پہلے سے بھی زیادہ سنگین معلوم ہوتا تھا کیوں کہ دو مہینے کی چھٹیوں میں وقت بہت اور پڑھنے کو کچھ نہیں۔ اس کا حل یہ نکالا کہ سال بھر رسالے جمع کرتے اور ان دو مہینوں کی چھٹیوں میں انہیں دوبارہ پڑھنے بیٹھ جاتے۔ پھر جولائی کے آخری ہفتے میں انہیں ردی پیپر والے کو دے کر اگست سے رسالوں کی کھیپ دوبارہ جمع کرنے لگ جاتے۔

آج جس طرح ہر مہینے کی پہلی تاریخ آتے ہی ملازمت پیشہ افراد اپنی تنخواہ کا انتظار کرنے لگتے ہیں بالکل اسی طرح بچپن میں ہم نئے رسالے کے منتظر رہتے تھے۔ یہاں مہینہ شروع ہوا اور وہاں ہم نے اسلم نیوز پیپر ایجنسی، بہادرآباد کا رخ کیا۔ سال میں ایک بار شائع ہونے والا خاص نمبر ہمارے لیے ایسا ہی تھا کہ جیسے بونس ملا ہو۔

یہ بھی پڑھئے:  ففٹی شیڈز آف گرین

سچ تو یہ ہے کہ آج ہم چار لفظ جوڑ کر اور تھوڑے بہت صحیح غلط جملے بنا کر خود کو اردو بلاگر سمجھتے ہیں یہ دراصل انہی رسائل کی وجہ سے ممکن ہوسکا ہے۔ حقیقت میں ان رسالوں نے ایک اندیکھے استاد کا کردار ادا کیا جس نے پڑھنا سکھانے کے ساتھ لکھنے کی تحریک بھی دی۔ البتہ میں اب تک توتا / طوطا اور گنڈا / غنڈہ جیسے الفاظوں پر مدیران کی تکرار کا فیصلہ نہیں کرپایا۔ نیز یہ بھی سمجھ نہیں سکا کہ اسٹور، اسپتال اور اسکول جیسے الفاط لاہور سے شائع ہونے والے اردو رسالوں میں بغیر الف کیوں لکھے جاتے ہیں؟

bilaunwan.wpurdu.com

حالیہ بلاگ پوسٹس