مراد سعید کے سامنے اُسکی بہنوں کے بارے میں نازیبا گفتگو ہوئی جس پر اُس کا غصہ آنا اور جزبات میں آکر جاوید لطیف پر ہاتھ اُٹھانا ایک فطری عمل تھا۔ کوئی ٹھنڈے سے ٹھنڈے مزاج کا حامل انسان بھی ایسا ہی ردعمل دے گا۔
یہاں تو تو بات ٹھیک ہوگئی۔ اب ذرا سچویشن تھوڑی بدل دیں۔ فرض کیجئے کہ فواد چوہدری اسد عمر کو بتاتا کہ اُسے فلاں شخص کے ذرئعے معلوم ہوا ہے کہ جاوید لطیف نے مراد سعید کی بہن کے بارے میں نازیبا الفاظ کہے ہیں اور اسد عمر یہ بات جاکر مراد سعید کو بتاتا۔ اب اِس صورتحال میں اگر مراد سعید بغیر کسی تحقیق کے دوڑے بھاگے جاتے اور جزبات میں جاوید لطیف پر مکوں کی بارش کردیتے تو کیا پہلی اور دوسری سچویشن میں کوئی فرق ہوتا؟ میرے نزدیک یقینا ہوتا۔ کیونکہ سنی سنائی بات آنکھوں دیکھی نہیں ہوسکتی۔ یہی عقل کا تقاضا ہے اور یہی وہ المیہ ہے جس کا شکار ہمارا معاشرہ ہوچکا ہے۔
۔
حقیقیت یہ ہے کہ وہ چند کام جو ہم نہایت ایمانداری اور مستقل مزاجی سے کرتے ہیں، اُن میں ایک کام غیر متوازن اور غیر حقیقی موازنے بھی ہیں۔ حسبِ معمول ایسے موازنے کرتے ہوئے دو عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔ جزباتیت اور ہٹ دھرمی۔ افسوس تو یہ ہے کہ ہم ایسا یا حق گوئی سمجھ کر کرتے ہیں اور یا ایمان کا حصہ۔ یہی وہ ہٹ دھرمی ہے جو کچھ بلکہ بہت سے حضرات اُس وقت دکھاتے ہیں جب اُن کے سامنے شیعوں کے قتل کی بات کی جاتی ہے۔ بجائے اِس یک طرفہ نسل کشی کی مذمت کرنے کے یہ دوست فورا ایک جوابی بیانیہ یا موازنہ لے کر وارد ہوتے ہیں جس کا لب لباب یہ ہوتا ہے کہ یہ نسل کشی یک طرفہ نہیں ہے بلکہ اس میں سعودی ایران پراکسی، صحابہ کی شان میں گستاخی اور سپاہ محمد نامی تنظیم کا بھی عمل دخل ہے۔ یہ بھی اُن غیر متوازن موازنوں کی ایک مثال ہے جو ہم نہایت مستقل مزاجی سے کرتے آئے ہیں۔
۔
ایسا ہی کچھ مراد سعید اور جاوید لطیف کے معاملے کے بعد کیا گیا۔ میں نے درجنوں حضرات کو یہ لکھتے دیکھا کہ اگر مراد سعید جاوید لطیف کے منہ سے اپنی بہنوں کے بارے میں نازیبا الفاظ نہ سن سکا تو کوئی مسلمان نبی رحمت (ص) کے بارے میں نازیبا الفاظ سن کر کیسے جذبات پر قابو پاسکتا ہے۔ دیکھا آپ نے موازنہ؟ اب ذرا غور فرمایئے کیونکہ قران بار بار غور و فکر کرنے کا حکم دیتا ہے۔
وہ کون مسلمان ہوگا جس کے سامنے کوئی شخص رسولِ کریم (ص) کے بارے میں کچھ غلط بات کرے اور وہ اپنے جزبات پر قابو رکھ سکے؟ یہ فطری جذبہ ہے اور بے ساختہ جذبہ ہے۔ لیکن اگر معاملہ یہ ہو کہ ایک شخص کو کسی فلاں شخص اور اُس فلاں شخص کو فیس بک کے ذرئعے معلوم ہو کہ جناب فلاں شخص کسی بھینسے نامی گستاخانہ پیج کا ایڈمن ہے اور وہ شخص بغیر کسی تحقیق کے سر تن سے جدا کا نعرہ مارتا ہوا جائے اور غازی بن کر واپس آجائے؟ اور یہی نہیں، جب بعد میں کوئی اِس شخص کے عاشقِ رسول (ص) ہونے کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے اُسے قاتل کہے تو اُس شخص کو کم سے کم جاہل اور زیاہ سے زیادہ گستاخ کہہ کر اپنے وضع کردہ دائرے سے باہر کھڑا کردے تو؟
ہمارے ملک میں جہاں نام نہاد غیرت کے نام پر صرف تین سالوں میں دو ہزار سے زائد عورتیں قتل ہوئی ہیں تو وہیں کتنی ہی مثالیں موجود ہیں جن میں ذاتی دشمنی یا جائداد کے تنازعوں پر توہین رسالت (ص) کے الزام لگا دئے گئے۔ نہ کوئی تحقیق اور نہ تردد۔ کسی کو ہجوم نے اُٹھا کر اینٹوں کی بھٹی میں پھینک دیا تو کسی نے گستاخی کا الزام لگا کر پوری جوزف کالونی جلا ڈالی۔ سلمان تاثیر کے قتل کا بھی ایسی ہی ایک مثال ہے۔ وہ ببانگ دہل کہتا رہا کہ کہ میں رسول پاک (ص) کی شان میں گستاخی کا تصور بھی نہیں کرسکتا، میں صرف اس قانون میں تبدیلی کی بات کرتا ہوں جس کا غلط استعمال ہوتا ہے۔ لیکن ممتاز قادری نے اُس مفتی حنیف قریشی کی جزباتی تقریر سے متاثر ہوکر سلمان تاثیر کو قتل کردیا، جس مفتی نے بعد ازاں سٹامپ پیپر پر لکھ کردیا کہ میرا ممتاز قادری سے کوئی تعلق نہیں۔ بعد ازاں یہی مفتی غیرب ممتاز قادری کی چاپارئی پکڑے ٹسوے بہارہا تھا۔ اب کوئی مراد سعید اور ممتاز قادری کا موازنہ کس طرح کر رہا ہے، یہ میری سمجھ سے باہر ہے۔
افسوس بس یہ سوچ کر ہوتا ہے کہ یہ تمام موازنے، یہ تمام عرق ریزی اُس ہستی (ص) کے عشق میں انسانوں کو قتل کردینے کے جواز کے طور پر کئے جاتے ہیں جس نے پتھر کھا کر دعائیں دیں، جس نے کچرا پھینکنے والی بڑھیا کی عیادت کی، جسے ہم رحمت للعالمین (ص) کے نام سے پہچانتے آئے۔ لیکن یہ سوچ کر رونگھٹے بھی کھڑے ہوتے ہیں کہ کیا بنے گا اِن عشاق کا اگر روزِ محشر وہ تمام بیگناہ انسان اُس کریم ذات (ص) کے سامنے آنسووں سے تر چہرے لئے اِن عشاق کی شکایت کرتے نظر آئے، جنہیں بغیر کسی تحقیق کے جزبات میں آکر قتل کردیا گیا۔
نوٹ: توہین رسالت (ص) سے متعلق ڈاکٹر طاہر القادری اور مولانا الیاس قادری سمیت متعدد علماء کی آراء موجود ہیں جو نہ صرف عقل و فہم کے عین مطابق ہیں بلکہ معاشرے میں امن عامہ کے فروغ کی بھی ضامن ہیں۔ جب میں اِن آراء کے مقابل وہ رویہ دیکھتا ہوں جس کا آغاز گستاخ کے فتوے اور انجام سر تن سے جدا کے نعرے پر ہوتا ہے، تو شکر ادا کرتا ہوں کہ میں عشاق کے اِن قافلوں میں شامل نہیں۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn