عورتوں کے عالمی دن پہ ایک مضمون لکھنے کی ضرورت کا ادراک مجھے ہے۔اور اس دن کی مناسبت سے مجھے یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان میں آج عورتوں کی تحریک کہاں کھڑی ہے۔اور اس تحریک کی قیادت کن قوتوں کے ہاتھ میں ہے۔پاکستان میں اگر دیکھا جائے تو عورتوں کی حالت زار پہ طبقاتی فلسفے کی مخالفت کرنے والوں اور طبقاتی جدوجہد کو جدوجہد کا مرکز و محور نہ ماننے والوں کے بیانئے زیادہ گردش میں ہیں۔لبرل سرمایہ داری کے عورتوں کی آزادی پہ بنائے گئے نظریات کو درمیانے طبقے کی روشن خیال عورتوں میں مقبولیت حاصل ہے جبکہ لوئر مڈل کلاس اور محنت کش عورتوں کی اکثریت پہ رجعت پسندوں کے خیالات کا اثر زیادہ غالب ہے۔ایسے میں محنت کش طبقے کی نمائندگی کے علمبردار مارکس واد دانشوروں کی کمی ایک سنگین مسئلے کے طور پہ سامنے آرہی ہے جو عورت کی آزادی کے سوال پہ مارکسی تصور اور محنت کش طبقے کی جدوجہد کے ساتھ اس کے تعلق پہ صاف اور الجھن سے پاک خیالات کے مالک ہوں اور ان کے پاس اس لائن کی مطابقت میں کہنے کے لئے کچھ ہو۔شاداب مرتضی سمیت چند ایک کامریڈز نے اس پہ لکھا ہے اور میں خود کو بھی ان کی راہ کا مسافر خیال کرتا ہوں۔ہمیں اس موضوع پہ اور زیادہ لکھنے کی ضرورت ہے۔زیر نظر مضمون میں ، میں نے ٹونی کلف کی کتاب ” عورت کی آزادی اور طبقاتی جدوجہد ” کو سامنے رکھا ہے اور اسی پہ نظر کا نتیجہ یہ مضمون بھی ہے.
عورت کی آزادی کے بارے میں دو مختلف مکاتب فکر سو سال سے زیادہ عرصے سے کام کررہے ہیں اور ان کو ہم مارکس ازم اور فیمن ازم کے نام سے جانتے ہیں۔دونوں کی خواہش عورت کی سماج میں عدم برابری اور مجبور مقام کا خاتمہ ہے اور وہ اسے سماج میں مردوں اور عورتوں کے درمیان مکمل اور اصلی برابری کے رشتے سے بدلنا چاہتے ہیں۔لیکن ان دونوں کے درمیان عورت کے جبر کی اصل اور اس کی ابتداء کےبارے میں جہاں اختلاف ہے وہیں دونوں کے درمیان حکمت علمی اور اسٹریٹجی کا اختلاف بھی موجود ہے۔
فیمن ازم دنیا کی بنیادی تقسیم مردوں اور عورتوں کے درمیان کرتا ہے۔اس کے ںزدیک عورت پہ جبر کی بنیادی اور اولین وجہ مردوں کے عورتوں پہ غالب آنے اور ان کو کنٹرول کرنے کی خواہش ہے۔فیمن ازم کے نزدیک تاریخ پدر سری/مرد غالب ناقابل تبدیل ڈھانچوں کی تاریخ ہے جس کے ذریعے سے مردوں نے عورتوں کو محکوم بنارکھا ہے۔ان ڈھانچوں کو ختم کرنے کا واحد ذریعہ عورتوں کا اتحاد ہے چاہے ان کا تعلق کسی طبقے سے ہو اور یہ اتحاد مردوں کے خلاف ہو چاہے ان کا تعلق کسی بھی طبقے سے ہو۔
مارکس ازم کے نزدیک سماج کے اندر جو بنیادی کش مکش ہے وہ جنسوں کے درمیان نہیں بلکہ سماجی طبقات کے درمیان ہے۔ہزاروں سالوں سے مرد اور عورتوں کی ایک اقلیت نے کام کرنے والے مردوں اور عورتوں کی بھاری اکثریث کی محنت پہ زندگی بسر کرنے کے لئے باہمی تعاون کیا ہوا ہے۔استحصال کرنے اور استحصال کا شکار بننے والوں کے درمیان طبقاتی جدوجہد تاریخی تبدیلیوں کی قوت محرکہ ہے۔عورتوں پہ جبر کو طبقاتی استحصال کے وسیع رشتوں کے سیاق و سباق کے ذریعے سے سمجھا جاسکتا ہے۔
ان دو خیالات اور دو نکتہ ہائے نظر میں کسی سمجھوتے کی امید نہیں ہے۔سوشلسٹ فیمنسٹ خواتین و حضرات نے ان کے درمیان پائی جانے والی خلیج کو پاٹنے کی کوشش کی ہے۔جب سے خیالی سوشلزم پیدا ہوا ہے چاہے اس کا وجود ہمیں زرتشت کے ہاں نظر آئے یا پھر بنی اسرائیل کے پیغمبروں کے ہاں نظر آئے یا پھر مسلم عرب کی ابتدائی تاریخ میں حضرت علی ،ابو ذر و سلمان فارسی کے ہاں نظر آئے یا کرسچن لبریشن تھیالوجی میں نظر آئے یا 19ویں صدی کے عظیم سوشلسٹ یوٹوپیائی مفکرین جیسے سینٹ سائمن،فورئیر اور رابرٹ اوون کے ہاں دکھائی دے تب سے لیکر ابتک سب سوشلسٹ ساری نسل انسانی کی نجات کو اپنا نصب العین مانتے ہیں اور یہ نجات ان کے نزدیک طبقاتی استحصال اور جنسی جبر اور دوسرے تمام قسم کے جبر کے خاتمے سے ہوگی۔
کارل مارکس اور اینگلس نے تاریخ کے مادی نظریہ کو مرتب کیا اور اس طرح سے یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہوگئے کہ صرف طبقاتی جدوجہد کے ذریعے سے ہی سوشلزم اور عورتوں کی نجات ہوسکتی ہے۔استحصال جس کا مرد اور عورتیں اپنے کام کی جگہوں پہ تجربہ کرتے ہیں ان کو اجتماعی طور پہ سرمایہ داری کے خلاف منظم کرنے کی جانب لیکر جاتا ہے،یہ اسی متحدہ اور منظم کام کرنے والے طبقے کی جدوجہد ہے جو جبر اور استحصال دونوں کا صفایا کردے گی۔
اس حوالے سے مارکسی دانشور ٹونی کلف نے "عورتوں کی آزادی اور طبقاتی جدوجہد ” کے عنوان سے ایک کتاب لکھی جس میں انھوں نے دکھایا کہ عورتوں کی آزادی کا انحصارکیسے طبقاتی جدوجہد پر ہے۔یہ کتاب انھوں نے اپنے زمانے کی فیمنسٹ تحریک کے 15 سالہ پس منظر کو سامنے رکھ کر لکھی تھی۔اس تحریک کے مختلف خیالات کو ذہن میں رکھتے ہوئے انھوں نے کئی ایک ایشوز سے معاملہ کیا جو کہ اس تحریک نے اٹھائے تھے۔
ان کا خیال تھا کہ جب فیمنسٹ تحریک کو سامنے رکھا جاتا ہے تو سب سے پہلے آپ فیمنسٹ تحریک کے تاریخ میں عورتوں کا مقام کے تصور سے سابقہ پڑتا ہے۔عورتوں کی تحریکوں کا یہ کہنا درست ہے کہ عورتوں کو تاریخ میں زیادہ تر چھپایا گیا۔لیکن وہ اس چھپائے جانے اور نظروں سے پوشیدہ رکھے جانے کو طبقاتی طرز تحریر تاریخ سے نہیں جوڑتیں جس طرز سے یہ تاريخ ہمارے معاشرے میں لکھی اور پڑھائی جاتی رہی ہے۔کیونکہ یہ حکمران اشرافیہ کی ساری سرگرمیوں پہ توجہ مرکوز رکھتی ہے۔تاریخ میں ہمیں بادشاہ، جرنیل ، وزرائے اعظم ، پوپ ، بینکر ، علماء، فیکڑی مالکان، عظیم مرد آرٹسٹ ، مرد سائنس دان اور مرد فلسفی ملتے ہیں۔چند شہزادیوں ،ملکاؤں اور طبقہ اشراف کی چند ایک خواتین کو چھوڑ کر سارے نام مردوں کے ہیں۔تو اس لئے تاریخ بھی مردوں کی کتھا ،مردوں کی کہانی ہے۔لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ایک چھوٹی سی مردوں کی اقلیت کو ہی اس تاریخ میں نظر آنے کا شرف حاصل ہوتا ہے۔تو یہ شکایت کہ عورتیں تاریخ سے نکال باہر کی گئیں اور یہ نہ دیکھنا کہ مردوں کی بھاری اکثریت بھی اس تاریخ سے ویسے ہی باہر ہے جیسے عورتوں کی اکثریت ہے تو یہ ایک طرح سے سرکاری و درباری تاریخ کو قبول کرنا ہے۔اس طرح کے غالب خیالات کی اگر کسی جانب سے مستقل مزاجی اور سنجیدہ علمی طریقے سے مخالفت کی گئی ہے تو وہ مارکسسٹ ہیں جو یہ اعلان کرتے ہیں کہ سماج کی تاریخ طبقاتی جدوجہد کی تاریخ ہے اور یہ بھی کل استحصال کا شکار ہونے والے اور محکوم گروہ مرد اور عورتیں بھی تاریخ کا ویسے ہی موضوع ہیں جیسے حکمران طبقات ہیں۔
سرمایہ داری کے حامی مورخین لوگوں کی بڑی تعداد کو تاریخ کا موضوع بناتے ہیں جو حکمرانوں کے اقدامات سے متاثر ہوتی ہے۔ لیکن ان کی تاریخ میں عوام فاعل نہیں ہوتے بلکہ مفعول ہوتے ہیں۔اسی طریقے سے فیمنسٹ عورتوں کی تحریک بھی عورتوں کو تاریخ میں مفعول دیکھتی ہے محض مردوں کے جبر کا شکار۔فیمنسٹ ہمیں بتاتے ہیں کہ سماج ، افراد نے عورتوں کے ساتھ کیا کیا۔ان کے ہاں عورتیں یا تو صرف جبر وصول کرنے والی بن کر ظاہر ہوتی ہیں یا زیادہ سے زیادہ مردوں کے دباؤ پر رد عمل دینے والی بن کر دکھائی دیتی ہیں۔عورتوں کے مجبور محض ہونے کے دعوے دار اور اس تصور پہ بہت زیادہ زور دینے والے فیمنسٹ وکلاء سائمن دی بوووار کا بار بار حوالہ دیتے ہیں۔ان کے نزدیک تاریخ میں عورت زیادہ تر "وصول کرنے”والی بنی رہی اور چند فعال عورتیں اگر نظر آئیں تو اس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے مردوں کے ہاتھوں اپنے عورت پن کو تباہ ہونے سے کسی حد تک بچالیا تھا۔
ایسے فیمنسٹ وکلاء کے ہاں عورتوں کے مظلوم ہونے میں یہ بھی لازم ہے کہ ان کو تاریخ میں کسی تبدیلی سے عاری دکھایا جائے۔اور یہ دکھایا جائے کہ عورتوں کے معاملے میں صرف ان کا عورت ہونا ہی فیصلہ کن کردار ادا کرتا رہا ہے۔عورتوں کی آزادی کی علمبردار فیمنسٹ تحریک جن اقدار کی تبلیغ کرتی ہے وہ ہمیشہ سے جابروں کی تبلیغ سے جاملتی ہے۔یعنی مرد جیسا کرتے ہیں اس کی تائید یہ تحریک کرتی ہے۔مرد نمائندہ ہیں سماج کے ڈھانچے کا، پدرسری سماج کا اور پاور /طاقت کا ۔عورتیں ایک الگ تھلگ کمیونٹی ہیں جن کو باہم یک جہتی دکھانا ہے۔سیاسی جماعتوں اور ٹریڈ یونیز کے ڈھانچوں کو مردانہ تنظیمی ڈھانچے کہا جاتا ہے۔فیمنسٹ کے درمیان جارحیت کرنے والوں کو "مردوں کا سا فعل کرنے والی” کہا جاتا ہے۔
فیمنسٹ عورتوں کی تحریک کے آئينے میں اقدار اور معیار ماضی کے سب سے رجعت پسند مردوں کو دیکھ کر بنائے جاتے ہیں۔یہ وہ لوگ تھے جو عورتوں کے بارے میں بہت جارح تھے اور ہمیشہ عورتوں کو ابدی طور پہ ناقابل تبدیل فطرت کے حامل بتاتے رہے ۔ان کے نزدیک عورتوں پہ مختلف قسم کی جو سماجی اور قانونی پابندیاں ہیں ان کا سبب محض ان کا عورت ہونا ہے۔
تمام عورتوں کو عملی ایک جیسا خیال کرنے کا رجحان بنیادی طور پہ فیمنسٹ تحریک میں لوگوں کو تمام مردوں کو ایک جیسا خیال کرنے کی طرف لے کر چلا جاتا ہے۔اس حوالے سے فیمنسٹ تحریک میں سب سے طاقتور اور موثر کتاب کیٹ ملیٹ کی ” سیکچوئل پالیٹکس ” کو پڑھا جاسکتا ہے اور اس میں یہ رجحان صاف نظر آتا ہے۔اگر آپ پاکستان میں بھی فیمنسٹ تحریک سے جڑی کئی ایک خواتین کی کتابوں کو پڑھیں اور ان کے خیالات سے آگاہ ہوں تو آپ کو پتا چلے گا کہ وہ بھی کیٹ میلٹ کی طرح تمام مردوں کو کٹھور پدر سریت کے حامل ، عورتوں کے بارے میں توہین آمیز رویے کے حامل اور مغرو رو تکبر سے بھری فطرت کا حامل خیال کرتی ہیں اور اس سے وہ عورتوں پہ جبر کرتے ہیں۔یہ بیانیہ کس قدر سچائی سے دور لگتا ہے جب ہم ماضی میں ایک مرد غلام پہ نظر ڈالتے ہیں یا آج کے الگ تھلگ کردئے گئے اور ہراسانی کا شکار مرد مزدور کو دیکھتے ہیں
عورتوں کے بارے میں خاص طرز کا روایتی نکتہ نظر عورتوں کو ورثے میں ملا اور تبدیل نہ ہونے والے اوصاف کا حامل بنادیتا ہے اور اسی سے یہ سماجی اور ثقافتی پیٹرن کو ان کا نتیجہ بتلاتا ہے۔وہ ان کو باہر کی قوتیں قرار نہیں دیتا ، ہم جس سماج میں رہتے ہیں ان کی قوتیں۔بلکہ یہ تو خود عورتوں کی فطرت کا اسے نتیجہ بتلاتا ہے۔عورتوں کی آزادی کی تحریک کا سب سے ریڈیکل بلکہ انتہائی ریڈیکل ونگ ریڈیکل لیزبین کا ہے جو کہ عورتوں سے عورتوں کے تعلقات کو سیاسی بیان کے طور پہ سامنے لیکر آتا ہے اور یہ عورتوں کے مردوں سے تعلق کی روایتی تعریف کو الٹانے کے سوا کچھ بھی ںہیں ہے۔پاکستان میں بھی ایسے انتہا پسند ریڈیکل فیمنسٹ بیانیہ ہم نے اشراف فیمنسٹ لوگوں میں دیکھا ہے۔
ٹونی کلف کا کہنا ہے کہ یہ بات دلائل و شواہد سے ثابت ہے کہ سوائے بائیولوجیکل لیول کے کسی اور سطح پہ جسے عورتیں کہا جاتا ہے مردوں کے مقابلے میں ایک مربوط گروپ موجود نہیں ہے۔جو خلیج غلاموں کے مالک اور غلام میں اور بادشاہ و کسان میں پائی جاتی ہے وہ "مردوں” کے ایک طبقہ ہونے کے تصور کو بے معنی کردیتی ہے۔ایسے ہی ایک آقا کی بیوی اور ایک غلام عورت کے درمیان جو خلیج ہے وہ عورتوں کے ایک طبقہ ہونے کی تعریف کو بے معنی کردیتی ہے۔
آج کل عورتوں کی تحریک میں جو نظریات غالب ہیں وہ اکثر” ویمن” ،”عورتوں پہ جبر” کو بہت ہی مہمل طریقے سے ، غیر ممیز انداز میں اور غیر تاریخی انداز میں استعمال کئے جانے کی مثال ہیں۔غلام خواتین کے لئے جبر کا ہمیشہ مطلب جسمانی ظلم،جنسی استحصال اور اپنے بچوں سے زبردستی جدائی لیا جاتا ہے،ورکنگ کلاس عورتوں کے لئے صنعتی انقلاب کا مطلب بدترین سرمایہ دارانہ استحصال تھا اور خوفناک قسم کی بچے جننے کی مشین بننا تھا،جبکہ سرمایہ دار کی بیوی کے لئے ایک محکومانہ مگر عیش سے بھری زندگی تھا۔ساری عورتوں کو ایک ہی لفظ میں اکٹھا کردینا خاص تاریخی حالات سے منہ پھیرنا اور امیر خواتین کا کام کرنے والے مردوں اور عورتوں کی اجرتی غلامی اور استحصال میں کردار کو ایک طرف اٹھاکے رکھ دینا ہے۔
عورتوں کی تحریک میں شامل لوگوں میں یہ بات عام ہے کہ وہ سب عورتوں کی پوزیشن کو غلام ، محکوم و مجبور نسلی اقلیتوں اور معاشی طور پہ کچلے گئے گروپوں کی عورتوں کی پوزیشن کے برابر لے آتے ہیں۔لیکن ان میں مشابہت بہت کم ہے۔ویمن ایک الگ گروپ نہیں ہے۔بلکہ وہ ساری آبادی میں بکھری ہوئی ہیں،اگر عورتیں سب سے زیادہ استحصال شدہ لوگوں میں موجود ہیں تو وہ استحصال کرنے والوں میں بھی موجود ہیں۔عورتوں کے اپنے خاندان کے مردوں کے ساتھ جو رشتے ہیں وہ ریڈیکل طور پہ ورکرز اور سرمایہ داروں کے درمیان رشتوں سے مختلف ہیں یا وہ کالے اور سفید فام کے درمیان رشتوں سے مختلف ہیں۔یہ پیچدہ معاشی اور نفسیاتی تعلقات ہیں جو عورتوں کو خاندان میں شریکانہ عمل کرنے پہ اکساتے ہیں۔کالے گھیٹوز میں پھنسے ہیں اور سفید فام سے دور ہیں۔بیویوں اور شوہروں میں ،ماں اور بیٹے میں جو پیار محبت ہے وہ غالب اور مغلوب کے رشتوں سے بہت الگ سی چیز ہے۔کالوں کو سفید فام نسل پرستوں پہ عضہ ہے جبکہ عورتیں مرد کی خواہش ہیں اگرچہ اکثر ایسا غیر مساوی شرائط پہ ہوتا ہے۔
عورتیں اس سماج کا حصّہ ہیں جس میں وہ رہتی ہیں اور پھر ان کی صورت حال کو ایک خلاء میں رکھ کر دیکھا نہیں جاسکتا۔عورتوں پہ جبر میں طبقاتی استحصال کا بہت ہی بنیادی کردار ہے۔
آج جب عورتوں پہ جبر کی بات آتی ہے تو عورتوں کی تحریک کے کئی ایک لوگ اسے پدر سریت کی پیداوار کہتے ہیں۔اور ان کے ہاں مردوں کا غلبہ ایک مہا تاریخی فیکٹر/عامل ہے جو کہ طبقاتی سماج اور سرمایہ داری سے ہٹ کر موجود ہے۔اس کی مخالفت میں ہمارے پاس فریڈرک اینگلس کا شاندار کام ” خاندان،ملکیت اور ریاست کی اصل” موجود ہے جو 1884ء میں کتابی شکل میں سامنے آیا۔اینگلس کی دلیل یہ ہے کہ نجی ملکیت اور سماج کی طبقات میں تقسیم نے عورت کی محکومیت کا راستہ ہموار کیا۔زندگی کی ضرورتوں کے لئے پیداوار سرمایہ داری میں ایک سماجی پروسس/عمل ہے۔جبکہ تولیدی عمل /بچوں کا پیدا کرنا پرائیویٹ یا نجی پروسس ہے اور زیادہ تر یہ خاندان کے اندر ہوتا ہے۔عورت کے جبر کی جڑیں ان دو کے درمیان پائے جانے والے تضاد میں ہے۔تو اس سے کھل کر یہ بات سامنے آگئی کہ عورت کی آزادی کو سرمایہ داری کے خلاف لڑائی سے الگ نہیں رکھا جاسکتا۔
جبر ازخود لازمی طور پہ نجات کی جانب لیکر نہیں جاتا۔عورتوں پہ جبر ان کو تقسیم کرتے ہوئے اور ان کو گھروں کی جاردیواری میں قید رکھتے ہوئے ان کو اکثر بے اختیار اور محکوم بناڈالتا ہے۔صرف جہاں عورتیں بطور ورکرز کچھ کرنے کی پاور رکھتی ہیں اعتماد حاصل کرتی ہیں کہ استحصال کے خلاف لڑسکیں اور ایسی عورتیں ہیں بطور عورت خود پر ہونے والے جبر کے خلاف لڑسکیں۔سکّے کا دوسرا رخ یہ ہے کہ کام کرنے والی عورتیں دوسرے مجبور گروپوں کی طرح جو سماجی بحران کے ادوار میں ہوتی ہیں مردوں سے کہیں پہلے اور زیادہ انقلابی ہوتی ہیں۔تو ورکنگ کلاس کی عورتوں کے لئے تمام قسم کے جبر کے خلاف کام کے میدان میں داخل ہونے کا پہلا قدم گھروں میں الگ تھلگ کردئے جانے کی حالت سے آزادی ہے اور پیداوار کے سماجی عمل میں شریک ہونا ہے۔
لیکن یہ کام کے ذریعے آزادی نہیں ہے۔اینگلس نے 18455ء میں محنت کش طبقے کی برطانیہ میں حالت کا جائزہ لیا تھا اور بتایا تھا کہ کیسے جب عورتیں فیکڑیوں میں کام کرنے کے لئے داخل ہوئیں تو محنت کش طبقہ کی زندگی اور کیسے مسخ شدہ اور غیر انسانی ہوگئی تھی۔سرمایہ داری کے حامی سوشیالوجسٹ ، معشیت دان اور ماہرین تاریخ کے لئے استحصال محض استحصال ہے لیکن مارکس واد دانشوروں کے نزدیک یہ طبقاتی جدوجہد کا محور ہے اور انسانی نجات کی امید بھی۔اینگلس اس بدحالی اور کچلے جانے کو جدوجہد کی طرف لیجانے والی بتلاتا ہے وہ جسے مرد اور عورت مل کر سماجی تبدیلی اور محنت کش طبقے کی نجات کے لئے لڑتے ہیں۔محنت کش عورتیں تاریخ کی صورت گر ہیں اور انھوں نے تاریخ بنانے میں مرد محنت کشوں کی طرح ہی سے کردار ادا کیا ہے
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn