Qalamkar Website Header Image

(عورت (ماخوذ : بناپھول مکھوپادھائے چند، افسانوی تشکیل: عامر حسینی

نوٹ: بالی چند مکھوپادھائے المعروف بنّا پھول ایک شاعر، تھیڑ رائٹر اور مختصر کہانی لکھنے میں کمال کی مہارت رکھتے تھے۔1899ء میں بہار میں پیدا ہوئے۔1979ء میں فوت ہوئے۔ان کے بنگالی میں لکھے کام کو انگریزی میں ارنوا سنھا نے منتقل کیا،ان کا ایک پلے "عورت” بہت مشہور ہوا۔میں نے اس کے مرکزی خیال کو باقی رکھتے ہوئے ایک کہانی لکھی ہے جس میں لاہور کے ایک مشہور واقعے کو بھی ساتھ شامل کیا ہے۔اور کچھ اور کردار بھی ڈال دئے ہیں لیکن اس کا سارا کریڈٹ بنا پھول جی کو جاتا ہے۔

رات کا آخری پہر تھا۔مچھروں سے بچاؤ کے لئے ماسکیٹو نیٹ تانے عین نقوی اپنے بیڈ پہ لیٹی ہوئی تھی اور اس نے ایک میگزین آنکھوں کے سامنے کیا ہوا تھا۔بیڈ پہ دوسری طرف تامل کانتی سویا ہوا تھا۔اس کے ہلکے ہلکے خراٹے کمرے کی خاموشی سے اسے پوری طرح سے لطف اندوز ہونے نہیں دے رہے تھے۔وہ میاں بیوی تھے۔ان کی شادی کو ڈیڑھ سال بیت گیا تھا اور ابھی تک ان کے ہاں کوئی اولاد نہیں ہوئی تھی۔
عین نقوی ہر رات یوں ہی کرتی تھی۔کوئی کتاب یا رسالہ لیکر بیڈ پہ آتی،لیمپ کا سوئچ آن کرتی،بے خواب آنکھوں کے ساتھ پڑھنے لگتی۔تامل کانتی خود بھی ہر رات یونہی کرتا تھا۔ اور پھر دونوں یوں ہی سوجاتے تھے۔
عین نقوی اور تامل کانتی دونوں نے جینڈر اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی کی ہوئی تھی اور اب کلکتہ یونورسٹی میں جینڈر اسٹڈیز کے شعبہ میں پڑھاتے تھے۔دونوں امریکہ میں ایک یونیورسٹی میں ملے تھے۔وہ لاہور سے آئی تھی،ایک معروف پنجابی سید گھرانے سے اس کا تعلق تھا جس گھرانے میں کالونیل دور سے سول بیوروکریٹس اور ملٹری افسروں کی بھرمار تھی۔وہ بچپن سے الگ مزاج کی عورت تھی اور آگے چل کر بھی اسی مزاج نے اس کے اندر اپنے گھرانے کی سول سروس یا ملٹری جوائن کرنے کی روایت کو توڑنے پہ مجبور کیا اور لمز سے جینڈر اسٹڈیز میں ماسٹرز کرنے کے بعد وہ پی ایچ ڈی کرنے امریکہ چلی آئی تھی۔یہاں جنوبی ہندوستان کا یہ سانولے پرکشش نقش و نگار اور اس کے مزاج سے ہم آہنگ اور قریب قریب ایک سے خیالات رکھنے والا مگر تھوڑا سر شرمیلا نوجوان تامل کانتی اسے بھاگیا تھا اور ان کی دوستی کب پیار میں بدل گئی ان کو پتا ہی نہ چلا اور دونوں نے شادی کرلی۔اس شادی پہ کلکتہ میں تامل کے گھر اور وہاں لاہور میں عین نقوی کے گھر کیا زلزلہ آیا اس کا زکر بے محل ہوگا۔بس ایک بار عین نقوی جب لاہور تامل کے ساتھ آئی تو اس کے گھروالوں نے کہلوابھیجا کہ تامل کو ساتھ نہ لائے۔مجبور ہوکر اس نے تامل کانتی کو لاہور کے ایک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں ٹھہرایا اور خود گھروالوں سے ملنے چلی گئی۔وہاں صرف ماں تھی جس نے ٹھیک سے اس کا سواگت کیا تھا۔وہ دو دن کے بعد جب تامل کے پاس آئی تو تامل خاصا بے چین تھا۔اس نے اس کی بے چینی بھانپ لی اور اس سے سبب پوچھا تو اس نے کہا کہ ڈرنک کرنی ہے مگر یہ پاکستان ہے تو سنکر رہ ہنس پڑی اور اس نے انسٹی ٹیوٹ میں ریسرچر کامریڈ ساجد کو کہا اور یوں لاہور میں آخری رات انہوں نے اپنی شادی کو سیلی بریٹ کیا۔عین اور تامل کانتی نے دیکھا کہ ان کے جوڑ پہ وہاں بڑے بڑے فیمنسٹ ناموں کے چہروں پہ بھی حیرانی نقش تھی۔عین نے فیصلہ کیا کہ وہ تامل کے ساتھ کلکتہ سیٹل ہوجائے گی،سو وہ کلکتہ چلے آئے اور تامل کے گھر والوں سے الگ ہی رہے۔کیونکہ تامل کے گھروالوں کو عین نقوی قبول نہیں تھی۔
اس نے میگزین کے صفحے پلٹنے شروع کئے ، اس کی نظریں اسی دوران ایک کہانی کے ٹائٹل پہ ٹک گئیں۔
"کہانی ہے بھی اور نہیں بھی "
بہت عجیب سا نام ہے
وہ بڑبڑائی
مصنف کا نام مسنگ تھا
وہ اسے پڑھنے لگی۔جوں جوں کہانی پڑھتی گئی ویسے ویسے اس کا دل اس عورت کے لئے خون کے آنسو رونے لگا جس کا نام نرملا تھا۔ابتداء میں اسے نوجوان مرد پہ سخت غصّہ آیا جس کا نام بشواناتھ تھا،لیکن یہ زیادہ دیر باقی نہ رہا۔جب نرملا کی رخصتی کے وقت بشواناتھ نے نرملا کا ہاتھ پکڑا اور اس کی آنکھوں میں برسات کی جھڑی لگ گئی،عین کا غصّہ ہوا میں تحلیل ہوگیا۔بشواناتھ کو نرملا نہ مل سکی۔
کہانی کچھ یوں تھی کہ نوجوان بشوانتاتھ گرمیوں کی چھٹیوں میں اپنے ماما کے گھر آيا ہوا تھا۔وہاں اس کے پاس کرنے کو بہت کم تھا تو اس نے قریب ایک تالاب کے کنارے کیمپ لگایا اور مچھلی پکڑنے کی کوشش کرنے لگا۔ایک دن جب وہ تالاب کے کنارے راڈ پکڑے بار بار کانٹے کو باہر نکالتا اور پانی میں ڈالتا تھا اور ایسی ہی ایک کوشش میں جب اس نے راڈ کو جھٹکا دیکر پيچھے کی جانب جھکایا اور آگے پھینکنے کی کوشش کی تو کانٹا سے بندھی رسی نے واپس آنے سے انکار کردیا۔اس نے سر گھماکر پیچھے کی جانب دیکھا تو ہک کو ایک نوجوان لڑکی نے پکڑا ہوا تھا،لڑکی کوئی اور نہیں نرملا تھی۔یہ ان کی ملاقاتوں کا آغاز تھا۔دونوں کے درمیان شناسائی سے آگے دوستی کا رشتہ بن گیا اور پھر یہ دونوں کو ایک ہونے پہ اکسانے لگا۔سب ٹھیک ٹھاک چل رہا تھا کہ اچانک درمیان میں بشواناتھ کے ماما ایک دن کہیں سے تالاب کی طرف آنکلے۔انھوں نے ایک نظر میں ہی اندازہ کرلیا کہ کیا معاملہ ہے۔انھوں نے اس سارے افئیر کو نوجوانی کا ابالی پن قرار دیکر مسترد کردیا۔نوجوان بشواناتھ نے ڈٹے رہنے کی کوشش کی۔وہ اپنے ماما کو بائی پاس کرسکتا تھا،خاندان سے لڑسکتا تھا لیکن یہاں تو پورا سماج ہی اس کے مقابل آکے کھڑا ہوگیا تھا۔بشواناتھ ایک برہمن تھا اور نرملا برہمن نہیں تھی بلکہ ایک دلت تھی۔کہانی کے آخر میں نرملا کو رخصت کرتے ہوئے بشواناتھ کہتا ہے: نرملا!میں کچھ نہیں کرسکتا سوائے اس کے کہ تمہارا ہاتھ دباؤں اور آنسو بہاؤں۔
کہانی بہت ہی پیاری تھی۔عین نقوی کو بہت ملال ہوا،نرملا کے لئے اس کا دل بہت دکھی ہوا۔جب وہ لیمپ سوئچ آف کرکے سونے جارہی تھی تو بھی اس کی آنکھ میں ایک آنسو نرملا کے لئے جھلملا رہا تھا۔اور صبح وہ اٹھی تو اس کا دل یونیورسٹی جانے کو نہ کیا،تامل کانتی اکیلا ہی یونیورسٹی گیا اور شام کو گھر آیا تو اسے لگا کہ فضاء میں بہت گھمبیرتا ہے۔اس نے عین نقوی کو دیکھا۔ایسی تبدیلی عین نقوی میں اس نے پہلے کبھی نہ دیکھی تھی۔اس کی نظریں بس فرش کو تکے جاتی تھیں۔جونہی تامل گھر آیا تو تو وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ایک لفظ کہے بنا اس نے اس تامل کو تولیا تھمایا اور خود کچن میں اس کے لئے چائے بنانے چل دی۔جوں ہی اس نے اپنے جوتے اتارے،کپڑے بدلے، اس دوران بھی گہری خاموشی طاری رہی،تامل حیران تھا،اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ معاملہ کیا ہے۔دس منٹ بعد عین پلٹ کر آئی ۔اس کو چائے تھمائی، اب بھی اس کا چہرہ سپاٹ تھا۔چائے کے گھونٹ بھرتے ہوئے اس نے عین کی طرف دیکھا اور کہا کہ کل چھٹی ہے تو ہم دونوں بازار چلیں گے ،تھوڑا گھومیں پھریں گے اور پھر بار جائیں گے۔عین خاموشی سے کمرے سے نکل گئی،اس کو سمجھنے میں دیر نہ لگی کہ حالات سازگار نہیں ہیں۔اس نے جلدی جلدی چائے کے آخری گھونٹ لئے اور باہر آیا تو برآمدے میں کرسی پہ بیٹھی عین سامنے گملوں میں لگے گلاب کے پھولوں کو تکے جاتی تھی۔وہ تھوڑا سا مسکرایا۔آج تم اتنی سنجیدہ کیوں ہو؟ایسا منہ کیوں بنایا ہوا ہے؟کیا مسئلہ ہے؟
عین نقوی زیادہ دیر اس حالت پہ نہ رہ سکی۔وہ پھٹ پڑی۔مجھ سے ایسے محبت کا دکھاوا کیوں کرتے ہو؟اپنی نرملا کے پاس جاؤ۔جس کی شادی سے پہلے تم نے ہاتھ تھاما تھا اور رودئے تھے۔یہ کہہ کر وہ چیخ کر کہنے لگی:
” میرا دل نرملا تم میں اٹکا ہوا ہے،میں تمہارے بنا کھوکھلا ہوں،مجھے اور تمہیں اس سماج نے اپنے فرسودہ ضابطوں کی بھینٹ چڑھا دیا ہے”
نرملا کون ؟
تامل نے ایک دم حیرانی سے پوچھا
کیا تم سٹھیا گئی ہو؟
کوئی اور لفظ بولے بغیر عین نے ششدر کھڑے تامل کو ایک میگزین کی کاپی اور ساتھ ہی ایک ایڈیٹر کا خط تھما دیا۔
ایڈیٹر نے لکھا تھا:
ڈئیر سر!
آپ کی کہانی ” کہانی ہے بھی نہیں بھی” اس ماہ چھپ چکی ہے۔میں ایک کاپی اس میگزین کی ساتھ اس خط کے ارسال کررہا ہوں۔اس کی اشاعت میں تاخیر پہ معذرت قبول کریں۔ہم آپ کی اور کہانیاں بھی چھاپنے میں خوشی محسوس کریں گے۔
آپ کا مخلص
نرسنگھ پرشاد
بجلی جیسے چمکی ہو،اسے سمجھ آگیا۔اس نے یہاں کلکتہ آنے پہ یہ کہانی اس میگزین کو ارسال کی تھی اور سال ہونے کو آیا تھا۔
میں نے سال پہلے یہ کہانی لکھی تھی۔اس وقت موڈ بنا تھا۔پھر موڈ بدل گیا۔تو بتاؤ اس سے ہوکیا گیا ہے؟
کہانی؟ لیکن تم نے تو خود اس ٹائٹل "کہانی ہے بھی نہیں بھی "دیا ہے۔
تامل مسکرانے پہ مجبور ہوگیا۔ یہ تو بس ایک "سٹائل /اسلوب ” ہے ذرا بات کو دلکش بنانے کا۔
تم نے تو ڈرا دیا تھا مجھے،تامل نے کہا،یہ بس ایک کہانی ہے۔
لیکن عین نے تامل کا یہ موقف نہیں خریدا۔اور وہ چاہتی بھی نہیں تھی کہ اس پہ یقین کرے۔اس کے پاس نرملا کا ایڈریس ہوتا تو وہ یہ چیک ضرور کرتی کہ نرملا آخر کسقدر خوبصورت تھی۔کیا اتنی ہی سندر جتنی خود عین نقوی جیسا کہ تامل اکثر اسے کہتا تھا۔حسد اور جیلسی نے اسے بالکل جھلسا کے رکھ دیا تھا،چند گھنٹوں پہلے تو نرملا کے دکھ کو پڑھ کر وہ آپ مغموم تھی اور اس کی آنکھ میں رات سونے سے پہلے اس کے لئے آنسو جھلملارہے تھے۔اس کی جینڈر اسٹڈیز اور اس کا سارا فیمنسٹ شعور اچانک سے کہیں گم ہوگیا تھا

حالیہ بلاگ پوسٹس

کنفیشن باکس

سرد ہوا جیسے رگوں میں خون جمانے پر تلی تھی ۔ رات بھر پہاڑوں پہ برف باری کے بعد اب وادی میں یخ بستہ ہوائیں تھیں ۔ خزاں گزیدہ درختوں

مزید پڑھیں »

آئس کینڈی مین – تقسیم کی ایک الگ کہانی

بپسی سدھوا پاکستانی، پارسی ناول نگار ہیں۔ اِس وقت ان کی عمر اسی سال ہو چکی ہے۔ وہ پاکستان کے ان چند انگریزی ناول نگاروں میں سے ایک ہیں جنہوں

مزید پڑھیں »

کتبہ (افسانہ) غلام عباس

شہر سے کوئی ڈیڑھ دو میل کے فاصلے پر پُر فضا باغوں اور پھلواریوں میں گھر ی ہوئی قریب قریب ایک ہی وضع کی بنی ہوئی عمارتوں کا ایک سلسلہ

مزید پڑھیں »