Qalamkar Website Header Image

پنجاب میں پیپلزپارٹی کی واپسی – اکرم شیخ

آئین اور قانون کی بالادستی اور حکمرانی کے دعویدار اگر فوجی عدالتوں کے قیام کو وقت اور حالات کی ضرورت قرار دیتے ہیں تو ایسے میں نون لیگ کے عرفان اللہ مروت پیپلزپارٹی میں شامل ہوتیہیں یا پھر گھاٹ گھاٹ کا پانی پی کر بھی پیاسے رہنے والے بیرسٹر سلطان محمود ایک بار پھر پیپلزپارٹی کے سیاسی شامیانے کے نیچے کچھ وقت گزارنا چاہتے ہیں تو اس میں کیا برائی ہے آخر فیصل صالح حیات کو جنرل مشرف کا ساتھ دینے اور محب وطن پیپلزپارٹی بنانے کے بعد پیپلزپارٹی کا دروازہ کھلا مل سکتا ہے تو اس میں ہچکچاہٹ کیسی؟ صوبائی وزیر داخلہ اور زرداری صاحب کے مبینہ ذاتی دوست ذوالفقار مرزا کی ’لیاری پالیسی‘ کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے پیپلزپارٹی چھوڑ کر ایم کیو ایم میں داخل ہو کر پچھلے دروازے سے نکل کر واپس پیپلزپارٹی میں آ سکتے ہیں تو پھر فوجی عدالتوں کے قیام کی خواہش پر اعتراضات کا تو کوئی جواز باقی نہیں رہتا… یہ پاکستان کی سیاست ہے ہواؤں کے رخ پر پرندے اڑتے اور محفوظ شاخوں پر اپنے گھونسلے بناتے ہیں پھر یوں بھی ہوتا ہے کہ آندھی، طوفان اور تند ہوائیں گذر جاتی ہیں تو نئی اڑانیں بھرنے لگتے ہیں۔ عموماً ایسا بھی ہوتا ہے کہ انتخابات سے پہلے موسمی بخار جسموں کو بے چین کرتا ہے تو توقعات کی ٹھنڈی چھاؤں کی بھی ضرورت پڑتی ہے۔ تو موسمی پرندے شاخوں کی تلاش میں پھدکتے بھی ہیں اور اُڑتے بیٹھتے بھی ہیں۔

اس تناظر میں ایک اور نقطہء نظر بھی ہے… یہ پرندے بہت گھاگھ ہوتے ہیں ان کو موسم کی تبدیلی کا قبل از وقت ہی پتا چل جاتا ہے انھیں جس سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ آندھی کی رفتار کیا ہو گی اور اگر نرم ہوا ہو گی تو وہ کس حد تک موافق ہو گی۔ سیانے اور سمجھدار پرندے صورتِ حالات کا پہلے ہی بخوبی اندازہ لگا لیتے ہیں اسی کا نام سیاسی بصیرت اور مستقبل بینی بھی ہے۔ بات تو پیپلزپارٹی میں واپس آنے والے پرندوں کی تھی ہمارا خیال ہے کہ بدلتے ہوئے موسم کی سوجھ بوجھ رکھنے والے کچھ اور بھی ہیں جن کے بہت جلد کچھ اور فیصلے بھی سامنے آئیں گے… خصوصاً پنجاب میں جو انتخابات کا اصل محاذ بننے والا ہے اور پیپلزپارٹی بھی پنجاب میں اپنی بقا کی آخری جنگ لڑنے کی تیاریوں میں مصروف ہے، نئی صف بندیاں کر رہی ہے۔

یہ بھی پڑھئے:  میرے دیس کی کہانی ' سیاست یا کاروبار؟

لیکن سوال تو یہ بھی ہے کہ گذشتہ انتخابات میں جس طرح اسے پنجاب سے نکالا گیا ہے سیاسی بساط پر نئے چہرے اور مہرے کو رکھا گیا تھا اسے تمام تر سہولتیں اور سرپرستی بھی فراہم کی گئی تی یہ الگ بات کہ وہ معیار پر پورا نہیں اترا یا پھر جو اس سے توقعات وابستہ کی گئی تھیں وہ پوری نہیں ہوئیں نہ تو وہ مناسب حرکتیں کر سکا اور نہ ہی اپنیجگہ بنا سکا… لہٰذا ضرورت کے ساتھ تقاضے بھی تبدیل ہوئے۔ تو ماضی کے فیصلوں پر نظرثانی بھی ناگزیر ٹھہری۔ بہترین سیاسی کھلاڑی وہی ہوتا ہے جو وت اور حالات کے مطابق فیصلے کرتا ہے۔ یہی وہ پس منظر ہے جس میں انتخابی میدان میں نئی صف بندی کے امکانات پیدا ہو رہے ہیں خصوصاً پنجاب میں سیاسی بالادستی کے موجودہ منظرنامے کو منقسم کرنے کے اشارے بھی وضع ہو رہے ہیں تو ’نئے اتحاد‘ کی تشکیل بھی لازم دکھائی دیتی ہے۔ پھر وہی بدقسمتی کہ جس مہرے کو کھیل کا حصہ بنایا گیا تھا، اس نے اتفاق و اتحاد کی سیاست کے بجائے نفرت اور تعصب کو اُبھارنے کے سوا کچھ نہیں کیا؟ دوسری اہم بات یہ بھی ہے کہ بالادستی کو توڑنے کی ضرورت کا احساس بھی ہر گذرنے دن کے ساتھ بڑھتا جا رہا ہے۔ مزید یہ کہ مقبولیت کے زعم نے خود اپنے ہی ہاتھوں جو دروازے بند کیے ہیں انھیں کھولتے ہوئے شرمندگی کا احساس بھی غالب ہو گا۔

یہ بھی پڑھئے:  دھند اندھا دھند | شاہانہ جاوید - قلم کار

ایسے میں بظاہر اس کے سوا کوئی راستہ سجھائی نہیں دیتا کہ زیادہ سے زیادہ سیاسی قوتیں میدان میں اتاری جائیں اگر اس پس منظر میں پیپلزپارٹی تمام تر آزادیوں کے ساتھ پنجاب میں واپس آئے اور بہترین حکمت عملی کا مظاہرہ کرے تو احیا اور بحالی کے امکانات بھی ہو سکتے ہیں اور وہ مثبت نتائج بھی دے سکتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پیپلزپارٹی کی طرف سے مؤثر امیدواروں سے رابطے اور ناراض کارکنوں کو منانے کی ترجیحات کو اولیت دینے کی خبریں ہیں… لیکن اس کے لیے ’عرفان اللہ مروت‘ جیسے لوگوں کو پناہ دینا کسی مثبت نتیجے کا باعث نہیں ہو سکتا عرفان اللہ مروت تو کراچی یا سندھ سے متعلق ہیں لیکن اصل مسئلہ تو اس وقت پنجاب بل کہ وسطی پنجاب کا ہے۔ جنوبی پنجاب میں تو مخدوم احمد عالم اور یوسف رضا گیلانی سے بہت سی امیدیں ہیں کہ وہ علاقائی سیاست کے بھی ماہر ہیں وہ ماضی جیسے نہیں تو بہتر اور مناسب نتائج دے سکتے ہیں البتہ اصل امتحان تو اس وقت قمر الزمان کائرہ اور چودھری منظور احمد جیسے نظریاتی کارکنوں کا ہے کہ وہ جاگیردارانہ سیاست میں پیپلزپارٹی کو کیسے متحرک اور فعال کرتے اور آنے والے انتخابات میں کیسی ٹیم میدان میں اتارتے ہیں جو پنجاب میں پیپلزپارٹی کی موجودگی ثابت کر سکے گی۔ مہروں کی ناکامی کے بعد۔

حالیہ بلاگ پوسٹس