میرے تاریخی شعور کی آنکھ ٹھیک نویں جماعت میں بیدار ہونا شروع ہوئی جب ہمیں پاکستان اسٹڈیز یعنی مطالعہ پاکستان پڑھانا شروع کیا گیا۔اور اس میں بھی درسی کتاب کی جگہ ایک گائیڈ بک جو لاہور سے کسی ایسے پروفیسر کی لکھی ہوئی تھی جو آج میں سوچتا ہوں تو شاید کوئی دیوبندی ہی ہوگا۔اور دیوبندی بھی وہ جو شبیر احمد عثمانی کا عقیدت مند ہوگا حسین احمد مدنی کا نہیں۔کیونکہ اس پاکستان اسٹڈیز میں ہمیں برصغیر میں اسلام کی تاریخ 712ء محمد بن قاسم کے حملے سے پڑھائی گئی اور اس میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے بارے میں صرف یہ بتایا گیا کہ کیسے اس نے بنگال میں سلطان ٹیپو اور سراج الدولہ سے اقتدار چھینا اور پھر مغلیہ سلطنت پہ قبضہ کرلیا اور کیسے 1857ء کی جنگ کو صرف مسلمانوں کو ہی لڑتے دکھایا اور اس سے پہلے ہمیں مجدد الف ثانی اور پھر شاہ ولی اللہ،اس کے بعد سید احمد بریلوی، شاہ اسماعیل دھلوی کی تحریک جہاد اور اس کے ساتھ ہی ایک دم سے چھلانگ لگاکر آل انڈیا مسلم لیگ کے قیام اور پھر ایک دم سے تقسیم بنگال،چودہ نکات ،اور پھر قرارداد لاہور اور اس کے بعد چودہ اگست 1947ء۔درمیان میں کئی کڑیاں ٹوٹی ہوئیں اور انگریز سامراج کے خلاف متحدہ ہندوستان میں خود پاکستان میں شامل ہونے والے علاقوں سے کئی کرداروں کی کہانیاں بالکل ہی غائب تھیں کیونکہ ایسی کہانیاں”پاکستان تو اسی دن وجود میں آگیا تھا جب ہندوستان میں سب سے پہلے مسلمان نے قدم رکھا تھا” جیسے مقدمے کو کمزور کرتی تھیں۔ایک ازسرنوساختہ پاکستانی نیشنلزم تھا جو ہمیں پڑھایا جارہا تھا۔ایسا نیشنلزم جس کی اول و آخر بنیاد صرف و صرف مذہب ہی تھا۔ایسے میں کہیں بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں کا زکر آتا تو ہمیں بہت عجیب لگتا تھا کہ یہ کون لوگ تھے۔اور پھر آزاد ہند فوج کا زکر ،ایسے ہی غدر پارٹی کا تذکرہ اور یونہی کبھی کبھی چلتے چلتے ممبئی میں جہازیوں کی بغاوت 1946ء میں تو یہ کڑیاں ہماری تاریخ سے کیسے جڑتی تھیں ہمیں سمجھ نہیں آتا تھا۔سندھ میں اللہ بخش سومرو کا زکر بھی ہمیں پریشان کردیتا تھا۔ایسے ہی آج جب میں اپنے گھروالوں کے ساتھ بیٹھا ویشال بھردواج کی حال ہی میں ریلیز ہوئی فلم رنگون دیکھ رہا تھا تو مرے ساتھ بیٹھی مری بھانجی جوکہ ابھی دسویں کلاس کی اسٹوڈنٹ ہے مومنہ اس نے فلم میں بار بار آئی این اے۔آزاد ہند فوج ، سبھاش چندر بوس کا زکر سنا تو مجھ سے کہنے لگی کہ ماموں! کیا یہ ہندؤں کی بنائی ہوئی فوج تھی؟ کیا ہندؤ بھی انگریزوں سے لڑے تھے کیا؟ یہ دو سوالات بنیادی طور پہ میری بھانجی کے ذہن میں اس کی نصابی کتابوں میں پڑھائی جانے والی باتوں سے پیدا شعور کا نتیجہ تھے۔اور ہمارا "بہت ہی آزاد میڈیا ” بھی اس بارے کچھ زیادہ بتانے سے قاصر ہے۔وہ بھی برصغیر میں آزادی کی لڑائیوں اور تحریکوں کے تنوع اور تکثیریت بارے بتانے سے اتنا ہی کتراتا ہے جتنی ہماری نصابی کتب اس سے بھاگتی ہیں۔میں نے اسے بتایا کہ جب ملایا اور برما دوسری جنگ عظیم کے دوران جاپانیوں کے قبضے میں چلے گئے اور برٹش آرمی میں بھرتی متحدہ ہندوستان بشمول موجودہ پاکستانی علاقوں سے بھرتی ہونے والے فوجی اور کئی سویلین جاپانی فوجوں کے قبضے میں گئے تو وہاں پہ ان قیدی فوجیوں اور سویلین نے جاپانی فوج سے ملکر ایک فوج تیار کی جس کا مقصد متحدہ ہندوستان کو برٹش غلامی سے آزاد کرانا تھا اور اس فوج کو "آزاد ہند فوج” یا انڈین نیشنل آرمی ۔آئی این اے کا نام دیا گیا۔پہلی مرتبہ آئی این اے انڈین فوج میں کیپٹن کے عہدے پہ فائز سیالکوٹ کے سکھ گھرانے کے فرزند موہن سنگھ نے بنائی تھی۔اور 1943ء میں یہ دوبارہ بنگال سے تعلق رکھنے والے آل نڈیا نیشنل کانگریس کے سابق مرکزی صدر سبھاش چندر بوس المعروف نیتا جی کی سربراہی میں منظم ہوئی۔اس میں لاہور سے تعلق رکھنے والے کیپٹن شاہنواز،ملایا سے تعلق رکھنے والی لکشمی سہگل،ّپدما ورما ، حبیب خان اور کئی اور معروف کردار تھے جو آزاد ہند فوج کا حصّہ بنے۔تو ایک تو آزاد ہند فوج کوئی راشٹریہ سیوک سنگھ کی طرح کی کوئی ہندؤ فاشسٹ تنظیم نہیں تھی اور نہ ہی اس فوج کا مقصد رام راجیہ قائم کرنا تھا اور نہ ہی یہ صرف ہندؤں پہ مشتمل فوج تھی بلکہ اس میں ہندؤ، سکھ،مسلمان اور یہاں تک کہ ملایا سے تعلق رکھنے والے کئی ایک مقامی کرسچن بھی شامل تھے۔اور آزاد ہند فوج کی جڑیں آج کے پاکستانی علاقوں خاص طور پہ پنجاب سے لیکر کنیا کماری (آج کے ہندوستان) تک پھیلی ہوئی تھیں۔آئی این اے کے وہ لوگ جنھوں نے گاندھیائی فلسفے سے اتفاق نہ کیا اور اپنے آپ کو جواہر لال نہرو کی سیاست کے ساتھ نہ جوڑا تو ان کو ہندوستان میں بھی فریڈم فائٹر تسلیم نہیں کیا گیا۔لیکن آخرکار ہندوستان کی تاریخ کو زیادہ متنوع اور تکثریت پسند بیانیوں کے ساتھ سجادیا گیا۔آج گاندھی کے ساتھ ساتھ سبھاش چندر بوس،بھگت سنگھ اور ان کے ساتھی ، آزاد ہند فوج سمیت ہندوستان میں آزادی کے لئے سرگرم مختلف قسم کی تحریکوں اور شخصیات کو شامل نصاب کیا گیا ہے اور انڈیا میں اس موضوع پہ بار بار فلمیں بنائی گئی ہیں۔اگرچہ ہندوستان میں ہندؤ بنیاد پرست ہندوستان کی کالونیل تاریخ کو بار بار شدھ کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن پھر بھی وہاں فلم ،ڈرامہ ، تھیڑ اور میڈیا کے زریعے سے تاریخ کا تکثیریت پسند بیانیہ سامنے آتا رہتا ہے۔یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ امبیدکر کا برہمن واد کے خلاف جو جہاد تھا اور بھگت سنگھ کا جو سوشلسٹ انقلابی بیانیہ تھا یا سبھاش کا جو انقلابی سوشلسٹ آزادی پسند بیانیہ تھا اسے کانگریشی ہندوستانی نیشنل ازم میں زبردستی ڈھالا جاتا ہے اور اس کے متوازی جو بیانیے تھے ان کو چھپانے اور مسخ کرنے کی کوشش بار بار ہوتی ہے لیکن ہندوستان میں بائیں بازو کی مضبوط روایت اسے بار بار چیلنج کرتی ہے۔ہمارے ہاں احمد سلیم نے اردو میں اس پہ کافی کام کیا لیکن وہ مین سٹریم نہیں ہوسکا۔فلم کی بنیادی کہانی کنگنا رناوت ،سیف علی خان اور شاہد کپور کے درمیان بننے والی محبت کی ٹرائیکا کے گرد گھومتی ہے اور یہ دکھاتی ہے کہ کیسے بظاہر اپنی زات اور اپنے زاتی پروفیشن میں گم لوگ ہندوستان کی دوسری جنگ عظیم کے دوران تیز ہونے والی آزادی کی تحریک سے ریڈیکلائز ہوتے ہیں اور سبھاش چندر بس کی ریڈیو رنگون سے نشر ہونے والی تقریریں ان کو ہندوستان کی آزادی کی تحریک کا سپاہی بنادیتی ہیں۔ایک میک اپ مین کیسے اچانک دیش بھگت بنتا ہے جو بظاہر افیون کے نشے میں گم رہتا ہے اور ایک راجہ کی کیسے کایا کلپ ہوتی ہے اور یہاں تک کہ ہندوستان میں برٹش سامراج کی مطابقت میں چلنے والے بوژروازی اور فیوڈل طبقات کے اندر بھی اپنے طبقے کے غدار جنم لیتے ہیں۔ایک اچھی فلم ہے کم از کم ہمارے ہاں تاریخ پہ چھائے گھپ اندھیرے میں روشنی کی ایک کرن کی طرح ہے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn