Qalamkar Website Header Image

کتابِ ذات کا موسم

zara farazزاراؔفراز ،جمشیدپور.، جھارکھنڈ انڈیا
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کہانی گو جانتا تھا۔ دنیا والوں کو سچائی نہیں بھاتی… افسانے اچھے لگتے ہیں۔ سو اس نے داستان کو تشبہات میں بدل دیا اور کہانی یوں شروع کی…….۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس قبیلے میں یہ رواج نسل در نسل چلتا آیا تھا۔ وہ اپنی قوم کی لڑکیوں پرآخری وقت تک حاکم رہتے تھے۔۔۔۔ قبیلے سے باہر نہیں جانے دیتے۔۔۔ تمام فیصلے ان کے ہاتھوں میں ہوتے۔۔۔ نادان لڑکیاں یہی سمجھتی آئیں تھیں کہ اس کی تقدیر اس کا باپ ہی لکھتا ہے۔۔۔۔ اس بات سے انکار کرنے والی لڑکی گناہگار ٹھرائی جاتی۔۔۔ ان کے بس میں ہوتا تو وہ اسے زندہ درگور کر دیتے۔ لیکن نہیں… وہ انکار کرنے والی لڑکی کو اس سے بڑی سزا دینا جانتے تھے۔
وہ اسی قبیلے سے تھی جہاں سپنے دیکھنے والی آنکھیں گروی رکھ لی جاتیں… اس نے ابھی خواب سجانے کے ہنر بھی نہں سیکھے تھے کہ اپنے مقدر کی اونچی فصیل کے پیچھے عمر بھر کے لئے قید ہو کر رہ گئی تھی۔
انا پرست، منافق لوگ ایجاب کے مرحلے سے گزرے بغیر، اُسے زندگی بھر کا مژدہ سنا گئے۔ اس نے بہت سادہ لفظوں میں مادر زاد لوگوں کو پکارا تھا… لیکن وہ ہر پکار سے نا آشنا تھے۔ سو اس کی پکار اپنی ذات کے ہالے تک ہی محدود رہ گئی۔
سنا تھا۔۔۔۔۔۔۔ ماں باپ اپنی اولاد کے حق میں غلط فیصلہ نہیں کرتے۔۔۔۔۔ اگر فیصلہ غلط ہو بھی جائے تو ان کی نیت میں کوئی کھوٹ نہیں ہوتا۔ وہ اس جملے کی سچائی میں اترنا چاہتی تھی۔۔۔ لیکن اس کی قوم کے تمام رواج دوسرے قبائل سے بہت مختلف تھے۔۔۔ قبیلے کی ساری لڑکیاں۔۔۔۔ سارے نوجوانوں سے منسوب ہو چکی تھیں۔ بس قبیلے کے سردار کا بیٹا جو شادی سے انکاری تھا۔ اچانک ہامی بھر بیٹھا۔
اب وہ تھی۔۔۔ اور وہ شخص
وہ جانتی تھی اسے اسی شخص سے باندھا جا رہا ہے۔… انکار کی ہمت نہیں جٹا سکی۔۔ معجزے کے انتظار میں تھی۔۔۔ لیکن معجزے بھی اس قبیلے میں نہیں ہوتے تھے۔
وہ دلہن بنا دی گئ۔ سہاگ کے گہنے پہنے وہ اپنے اندر نئی امنگیں پیدا کرنا چاہ رہی تھی۔ مگر نا کام تھی۔ اس نئے رستے پر اس کے خدشات، جزبات پہ حاوی تھے۔ اس کا دل نہیں دھڑکا تھا۔ ۔۔۔ خون سرد ہو رہا تھا۔ وہ اب اکیلی نہیں تھی۔ مجازی خدا کمرے میں داخل ہو چکا تھا۔۔۔۔۔۔۔ سنبھل بھی نہ پائی تھی کہ بھوکا شیرجھپٹ پڑا۔ وہ نازک سی لڑکی پریشان حال۔۔۔۔۔ ہوا میں اپنی ذات کا تحفظ ڈھونڈتی رہی۔ مگرطوفان کی زد میں اس کا وجود ٹوٹ کر بکھر گیا۔
رات وہ سوئی نہیں۔۔۔۔ وہ پلٹ کر سو چکا تھا۔ اس نے ایک نظر اس پر ڈالی اور کرب سے اپنے ہونٹ زخمی کر ڈالے۔ اس کا چھوٹا سا ذہن اب بالغ ہو چکا تھا۔اور وہ بے خبر سا، بے ترتیب کپڑوں میں طمانیت سے سو رہا تھا، غفلت میں اس کے منہ کا لعاب اس کے ہونٹوں پر آ کر جم گیا تھا۔ اس نے کراہیت سے رخ پھیر لیا۔ اس کے جزبات گزرے لمحات کے کرب سے لہولہان تھے۔ وہ ایک رات میں کرب ذات کے تمام موسموں سے گزر چکی تھی۔ جب اس کے کھردرے جسم کا لمس یاد آتا تو جھرجھری سی لیتی… نا جانے کون سی بیماری کے سبب جسم کھردرا اور داغ دار تھا۔ انگلیوں کے پوروں تک گندگیاں جمی ہوئیں۔ پنڈلیوں تک عجیب بدنما سا پیر۔۔۔۔۔ جسم کے بوجھ سے خود اس شخص کی سانسیں پھول رہیں تھیں۔ سانسوں کی بو نے اس کا جی مکدر سا کر دیا تھا۔
اسے اپنی قوم سے نفرت اور اس شخص سے بیزاری محسوس ہوئی۔۔۔۔۔ وقت کے ساتھ سارے موسم اس پر بیت گئے۔ ۔ لیکن محبت کے سبز موسم اس نے کھو دئے تھے. اس شخص کا مزاج یکسرمختلف تھا ۔ وہ محبت کے لمس سے جس قدر نا آشنا تھا۔ وہ محبت کی طلب میں اسی قدر بیدار ہو رہی تھی۔
وفا کے لفظ سے خالی لہجہ۔۔۔۔۔۔ محبت کے لمس سے محروم قربت…… ہاں پھر اس نے زندگی جنم دی تھی۔
کتابِ ذات کے صفحات الٹ کر دیکھتی تو کرب سے آنکھیں موند لیتی۔۔۔ ہر صفحہ، ایک نیا عنوان لئے۔۔۔۔۔ اسے اپنے وجود کے اندر کھینچ کر زخمی کر دیتا ۔۔۔۔۔ کیا دکھ نہیں تھے اس کی کتابِ ذات میں۔ ٹوٹے ہوئے خواب، ادھوری خواہشیں، حسرتیں، یاس، محرومیاں، طلبِ محبت۔۔۔۔ اس درد میں ایک اور دکھ بھی شامل تھا
تین رتوں کے بعد۔۔… چوتھے موسم کا دکھ۔۔۔ زندگی کےایک دسمبر نے۔۔ ایک معصوم زندگی کی جان لے لی تھی۔ یہ مہیب دکھ بھی اس کے مقدر نے لکھے تھے۔
ایک بار پھر اس نے زندگی جنم دی۔ اس بار قسمت سے شکایت نہیں تھی لیکن اب وہ تھک چکی تھی۔ ۔۔۔
اب وہ فصیل کے اس پار کی تازہ ہوایئں لینا چاہتی تھی۔۔ ایک روز اس نے فصیل میں شگاف کیااور اس سفاک شخص کی دنیا سے نکلنے کے لئے قدم اٹھائے۔۔ تب اس ننھی سی کرن نے اس کی کلائی تھام لی۔ اس نے اسے گود میں اٹھایا اور شگاف سے نکل گئی ۔ ۔۔۔۔ باہر کی روشنی اندر کے حبس سے کہیں زیادہ تھی۔ اس روشنی میں اس کی آنکھیں چندھیا گئیں۔ اسے راستے کے رخ سمجھ نہیں آئے۔۔۔ اور وہ بے سمت چل پڑی۔۔۔۔ تھوڑی دور چل کر واپس آئ، شگاف کے اندر ہاتھ ڈال کر کچھ تلاش کرنے لگی۔۔۔۔ پھر اندر کی سمت اتر گئ۔۔۔ ادراک ہوا۔۔۔ دل ادھر ہی اٹکا ہوا ہے۔۔۔۔۔
کہانی گو اختتام پر تمام سامعین کا چہرا دیکھتا ہے اور مطمئن ہو جاتا ہے۔۔۔ کیوں کہ اختتام ان کے توقع کے مطابق تھا۔۔۔۔

یہ بھی پڑھئے:  گندے نالے میں راکھ بہا دو!!

بشکریہ: عالمی افسانہ فورم

حالیہ بلاگ پوسٹس

کنفیشن باکس

سرد ہوا جیسے رگوں میں خون جمانے پر تلی تھی ۔ رات بھر پہاڑوں پہ برف باری کے بعد اب وادی میں یخ بستہ ہوائیں تھیں ۔ خزاں گزیدہ درختوں

مزید پڑھیں »

کتبہ (افسانہ) غلام عباس

شہر سے کوئی ڈیڑھ دو میل کے فاصلے پر پُر فضا باغوں اور پھلواریوں میں گھر ی ہوئی قریب قریب ایک ہی وضع کی بنی ہوئی عمارتوں کا ایک سلسلہ

مزید پڑھیں »

داعی (افسانچہ) – ابوعلیحہ

مولانا کمال کے آدمی تھے۔ ستر برس کے پیٹے میں بھی ان کے ضخیم بدن کا ہر ایک رونگٹا، ان کی مطمئن صحت کی چغلی کھاتا تھا۔ ملیح چہرے پر

مزید پڑھیں »