افسانہ نگار: رومی ملک، بحرین
××××××××××××××××××××
شہر کی چکاچوند بھاگتی دوڑتی زندگی نے مجھے تھکا دیا تھا – ٹوٹ کر بکھرنے لگا تھا- ماحول کی گھٹن دھوئیں کی شکل میں آہستہ آہستہ میرے اندر، بہت اندر تک پھیل گئی تہی اور میں چاہ کر بھی خود کو اس گھٹن سے آزاد نہیں کر پا رہا تھا اور یہ ممکن تھا بھی نہیں کہ گھٹن پرت درپرت جانے کب سے میرے اندر جمتی رہی تھی – کبھی کبھی تو میں چونک اٹھتا –اپنے آس پاس اتنی گھٹن کے باوجود میں زندہ ہوں – یہ کس طرح ممکن ہے ؟
لیکن نہیں میں مرا نہیں ہوں کہ زندگی کی کچھ علامتیں مجھ میں موجود ہیں اور میں زندہ ہوں – لیکن میرے اندر ضرور کچھ مر چکا ہے – میری بیوی مجھے مشورہ دیتی ہے کہ کام سے کچھ دنوں کے لئے چھٹی لے لوں – کہیں گھوم آوں – کہیں چینج ہو لوں – میری بیوی میری اچھی دوست ہے – لیکن کبھی کبھی مجھے مشکل میں ڈال دیتی ہے – مجھ ایسا متوسط طبقے کا آدمی تبدیلی کے لئے کسی خوبصورت ہل ا سٹیشن پر تو جا نہیں سکتا پھر چینج ہونے کے لئے یہاں وہاں کہاں مارا مارا پھروں ؟ پھر سوچتا ہوں بیوی کے مشورے پر غور کیا جا سکتا ہے – ریٹائرمنٹ لے لوں تو کیسا رہے گا – بچے اپنی اپنی جگہ خوش ہیں- ان کے فرائض سے میں کب کا سبکدوش ہو چکا ہوں – رہی بیوی کی بات تو وہ خود ایک پرائمری اسکول چلا رہی ہے. سیلف ڈپنڈ ہے. کیوں نہ سنیاس لے کر ایک لمبی یاترا پر نکل جاؤں – اس پورے سسٹم سے دور جس سے اوب چکا ہوں. لالچ موہ ،مایا ،کرپشن سب سے دور – سب نے مل کر کیسا اندھیرا پھیلا رکھا ہے – میں خوف زدہ ہوں اسلئے کے یہ دھند ،یہ گھٹن ،یہ اندھیرا میرے اندر بھی پھیل گیا ہے اور میں بےبس لاچار ،ناکارہ سا دیکھتا جا رہا ہوں- اور رفتہ رفتہ اس دھند اس اندھیرے میں ، میں اپنی پہچان ،اپنا آپ کھوتا جا رہا ہوں – اور یہ عجیب سا احساس مجھے زخمی کیے جا رہا ہے کے میں خود کو اپنی زندگی کو ضائع کر چکا ہوں. ذہنی کشمکش کی عجیب سسی لڑائی لڑ رہا تھا میں – دھند اتنی گہری اور گھٹن اتنی زیادہ ہے کہ مجھے پتہ بھی نہیں کہ کس سے لڑ رہا ہوں اور شکست کسے دینا چاہتا ہوں…؟ کیا خود کو…؟ جبکہ پہلے ہی میرے اندر کچھ ٹوٹ چکا ہے ،مر چکا ہے اور شاید اسلئے سب کچھ چھوڑنے کا فیصلہ میرے لئے ضروری تھا کہ اسی میں میرے لئے دکھوں سے مکتی تھی. بیوی میرے ریٹائرمنٹ اور سنیاس والی بات سے متفکر ہو گئی – پھر اسنے سختی سے میرے فیصلے کو رد کر دیا – وہ میری ہمدرد تھی ،مونس تھی ،میرے اندر تک اترنے کا ہنر جانتی تھی – پھر مجھے کیوں روک رہی ہے ؟ میرے اندر کا انتشار اسے دکھائی نہیں دیتا کیا؟ وہ کیوں نہیں سمجھ پا رہی ہے کہ رفتہ رفتہ گم ہوتا جا رہا ہوں میں – مجھے میری تلاش پر نکلنے کیوں نہیں دیتی – لیکن اس سے پہلے کے مایوسی مجھے مزید بکھیر دے ،مجھے خود کو سمیٹنے کا موقع ملا – اوپر سے میرے تبادلے کا حکم آ گیا ایک چھوٹا سا قصبہ تھا ،اپنے طور پر،اپنے ڈھنگ سے ،جینے اور زندگی سے سنگھرش کرنے والےلوگ تھے – پڑھائی لکھائی کے لئے ایک مڈل اسکول تھا ، شاید اس لئے زیادہ تر لوگ ان پڑھ تھے .لوگ اچھے تھے –علاقہ خوبصورت تھا-کھجور اور پام کے جھنڈ، دور دور تک سایہ دار درخت ،رنگ برنگے پھول ،چہچہاتے پرندے ،خوش رنگ تتلیاں ،پھلوں کے باغات ،کھیتوں کے بیچ سےگزرتی پگڈنڈیاں ،صبح کی تازہ ہوا ،سب کچھ یاد ہے ، کچھ بھی تو نہیں بھول سکا ہوں میں کہ بہت قریب سے دیکھا تھا،محسوس کیا تھا وہاں کی زندگی کو — لیکن کیا اب بھی اس علاقے کی ہوا تازہ ہوگی—–؟ یہ سوال مجھے سوچوں کے گرداب سے باہر لے آیا جب میں ریلیو ہوا تو مجھے اپنے مختصر سامان کی ہی پیکنگ کرنی پڑی کیوں کہ میری بیوی نے میرے ساتھ چلنے سے انکار کر دیا تھا- اسکی اپنی مجبوری تھی اور میں اسکی مجبوری سمجھ سکتا تھا- اس لئے میں نے ضد نہیں کی – حالانکہ میں اس کا عادی تھا-وہ میری ضرورت تھی- لیکن اس وقت میرے لئے سب سے زیادہ ضروری تھا یہاں سے، یہاں کے ماحول سے دور، بہت دور نکل جانا- جانے کتنے برسوں بعد جب میں نے اس دھرتی پر قدم رکھا ، جسکی مٹی مجھے عزیز ہوا کرتی تہی تو ایک عجیب سی خوشی کا احساس مجھے اپنے اندر اترتا محسوس ہوا – سرکاری کواٹر میں میری رہایش کا انتظام ہو سکتا تھا لیکن میں نے اپنے ایک واقف کار دین دیال سے بستی میں ہی مکان تلاش کرنے کی بات کر رکھی تہی اور مجھے خوشی ہوئی کہ مجھے بستی ہی میں مکان مل گیا تھا. اپنا مختصر سا سامان ہی یہاں وہاں سیٹ کرتے ہوئے میں کافی تھک گیا- اس وقت بیوی شدّت سے یاد آئی کے وہ ہوتی تو مجھے یوں پریشان نہ ہونا پڑتا- حالانکہ دین دیال نے میری مدد کے لئے ایک لڑکے کو بھیج دیا تھا- اس نے میری بہت مدد کی- مکان میں پانی کا کنکشن تھا لیکن پانی نہیں آرہا تھا- میری ضرورت کا پانی وہ قریب کے ھینڈ پمپ سے لے آیا- اسی نے بتایا کے دن میں ایک آدھ گھنٹے کے لئے پانی آجاۓ تو غنیمت ورنہ ہفتوں سپلائی بند رہتی ہے- میں جب بجلی کا سوئچ وغیرہ چیک کرنے لگاتو لڑکا ہی ہی ہنسنے لگا گویا میرا مذاق اڑا رہا ہو- "اس میں ہنسنے کی کیا بات ہے؟” مجھے غصّہ آ گیا- جیسے اپنی خفت مٹانے کا ایک یہی راستہ رہ گیا تھا میرے پاس- "صاحب جی یہاں کا ٹرانسفرمر جل گیا ہے… سال بھر سے پوری بستی اندھیرے میں ڈوبی ہے” "سال بھر سے؟” میں ششدر رہ گیا پانی کا بندوبست تو ہو جاۓ گا لیکن بغیر بجلی کے کیا رہ پاؤں گا میں؟ پانی اور بجلی میرے لئے پریشانی کا سبب تو تھے ہی لیکن اس وقت مجھے ایک عجیب سا صدمے کا احساس ہوا جب زیادہ تر لوگ مجھے پہچان نہیں پاۓ جب کہ میرے لئے تقریباً سبھی چہرے مانوس تھے- کیا میں اتنا بدل گیا ہوں یا پھر میں وہ ہوں ہی نہیں – پھر کون ہوں میں ؟ کیا مجھ میں ایسا کچھ بھی نہ رہا جو میرے ہونے کی نشانی تھا- اور کیا میرا اندیشہ درست تھا کہ میں اپنی پہچان اپنا آپ کھو چکا تھا – یہاں تو سب کچھ وہی ہے ، ویسا ہی ہے – کچھ بھی تو نہیں بدلا – وہی سایہ دار درخت ،وہی پام کے جھنڈ کا یہاں سے وہاں تک لامتناہی سلسلہ، وہی پھلوں کے باغات، وہی کھیت، وہی پگڈنڈیاں ، تتلیاں بھی وہی رنگ برنگی خوشنما ، صرف تتلیوں کے پیچھے بھاگتے بچے ہی تو بدلے تھے –اور تھوڑی سی تبدیلی یہ ملی کہ جو علاقہ ایک دم صاف ستھرا تھا وہاں منسپلٹی کی بے پروائ کی وجہ سے جگہ جگہ کوڑے کرکٹ اور کَچڑے کا ڈھیر نظر آیا –بجبجاتی نالیاں اور بھنبھناتے مچھر ملے- ایسی گندگی اس علاقے میں پہلے نہیں تہی – پتا نہیں منسپلٹی والے اتنے بے پروا کیوں ہو گئے تھے. اس گندگی سے جیسے انکا ناتا ہی نہ ہو- لیکن یہ کوڑے کرکٹ ، پانی کا جماؤبستی کے اندر تک ہی محدود تھا – بستی سے نکلتے ہی ایسا لگتا جیسے ہم اپنے قریب آتے جا رہے ہوں – صاف ستھرا اور پرسکون ماحول – میں جب بھی سیر کو نکلتا ادھر سے، طبیعت لوٹنے پر آمادہ نہیں ہوتی – جی چاہتا دور بہت دور تک چلا جاؤں. وہاں تک جہاں زمیں اور آسمان گلے ملتے ہیں – میں وہاں سے بلکل تروتازہ ہو کر لوٹتا – اور اب میں یہ محسوس کرنے لگا تھا کہ میرے اندر کی دھند چھٹ رہی ہے اور شاید گھٹن کی جمی پرتیں ڈھیلی پڑ رہی ہیں – بیس پچیس دن کس طرح گزر گئے پتا ہی نہیں چلا، نہ گھر کی یاد آئی نہ بیوی کی- حالانکہ میں ہوٹل کا کھانا اور خود کی بنائی چاۓ پر اکتفا کر رہا تھا – اور سب سے بڑی بات یہ کہ بجلی کے بغیر اندھیرے میں جی رہا تھا اس کے باوجود یہ محسوس ہو رہا تھا کہ میں واقعی جی رہا ہوں – اور میرے اندر جو مر چکا تھا اس میں ایک بار پھر سے زندگی کی توانائی لوٹ رہی تھا- اور میں خوش تھا – یہاں کے لوگوں کے بیچ مجھے پھر سے اپنی پہچان بنانی پڑی – کچھ پرانے پہچان والے نکل بھی آے ، لیکن ان سے مل کر دل کو اتنی خوشی نہیں ہوئی جس کی میں کلپنا کر رہا تھا – دراصل غلطی میری ہی تھی، میں بھول رہا تھا کہ وقت کے ساتھ تبدیلی انسانی مزاج کا خاصہ ہے- اور اب میں اس تبدیلی کو رفتہ رفتہ دیکھ رہا تھا، محسوس کر رہا تھا – پہلے لوگ شام اکٹھے گزارتے تھے – زندگی سے بھرپور قہقہہ لگاتے تھے – اب محفلیں نہیں جمتی ، قہقہے نہیں لگتے کہ ایک دوسرے سے بولنے کا وقت بھی شاید اب ان کے پاس نہیں ہے – پہلے ساجھے کا دکھ تھا ساجھے کی خوشی – اور اب سب اپنے اپنے خول میں سمٹے ایک دوسرے سے کٹ سے گئے ہیں – پانی کا بندوبست تو میں نے کر لیا تھا – ایک عورت صبح شام میری ضرورت کا پانی بھر جاتی تھی – بجلی کو لے کر میں اب بھی پریشان تھا- محکمہ بجلی کی بے پروائ پر غصّہ بھی آتا کہ اتنے دن ہو گئے ٹرانسفرمر خراب پڑا ہے – اور وہ اتنے بے فکر تھے کہ کسی کو پروا ہی نہیں تھی – اس سلسلے میں میں بجلی کے دفتر بھی گیا – پتا چلا کہ ٹرانسفرمر کی تبدیلی اسی صورت میں ممکن تھی جب بستی والے لاکھوں روپے کابجلی کا بقایا بل ادا کرتے – لیکن بستی والے ایسا نہیں کر رہے تھے – یہ بھی پتا چلا کہ زیادہ تر گھروں میں با ضابطہ بجلی کی چوری ہوتی تھی – محکمہ بجلی والے کوئی ایکشن لیں ، اس سے قبل ہی بستی والے ایم ایل اے ،ایم پی وغیرہ کا سہارا لیکر انکی کا رروائی شروع ہونے سے قبل ہی رکوادیتے ہیں – میں مایوس لوٹ آیا ، جب صورت حال یہ ہو تو روشنی کی امید بھلا کیسے کی جا سکتی ہے – اس درمیان بیوی کے کئی خط آ چکے تھے – اس نے تقریباً ہر خط میں یہی لکھا تھا کہ تبدیلی تمہارے لئے ضروری تہی پربھات …………………..وہاں گھٹن اور کرپشن تو نہیں ہے اور یہ کہ اب تم کیسا محسوس کر رہے ہو- لیکن میں اسے جب بھی خط لکھتا ، اس موضوع پر کوئی بات نہیں کرتا – ایسا میں کیوں کر رہا تھا میں خود نہیں سمجھ پا یا – ایک شام ٹھل کر گھر لوٹا تو مجھے یہ محسوس ہوا کے دھند اور گھٹن کے جس ماحول سے میں خود کو نکالنے کی کوشش کر رہا تھا وہ کوشش بیکار تھی – اس شام دین دیال سے ملاقات ہو گئی – وہ بھی سیر کو نکلا تھا – ہم دونوں دور تک نکل گئے – ہم جہاں سیر کو گئے تھے وہاں ایک بڑا سا کنواں تھا جہاں مختلف اطراف سے کچی سڑکیں آکر ملتی تھیں – یا شاید جدا ہوتی تھیں – ہم تھک گئے تھے – اس لئے کنویں کی منڈیر پر جا بیٹھے ، پاس ہی میں کسان عورتیں اور مرد کھیتوں میں کام کر رہے تھے – پرندے ایک دوسرے کو رات کے بسیرے کے لئے آواز دے رہے تھے – میرے چہرے پر تھکان کی لکیریں دیکھ کر دیال مسکرایا –
"لگتا ہے تم کافی تھک گئے ہو؟ ”
"تم ٹھیک کہتے ہو ،میں واقعی تھک گیا ہوں”-
"عمر بھی تو ہو گئی ہے ” وہ بدستور مسکرا رہا تھا-
"نہیں دیال بات عمر کی نہیں ہے "-
"پھر کیا بات ہے ؟”
"تھکان کی وجہ میرے اندر کی گھٹن ہے- ”
"تم ٹھیک کہتے ہو ، وہ سنجیدہ ہو گیا. ہم سب کہیں نہ کہیں سے ٹوٹے ہوئے ہیں کیوں کہ گھٹن ہمارے چاروں طرف ہے – ”
"نہیں دیال میں نے دیکھا ہے اور پایا ہے کہ یہاں تبدیلیاں ضرور آئی ہیں – لیکن گھٹن اب بھی نہیں ہے – یا شاید بہت کم ہے یہاں کے لوگ اب بھی مخلص اور ایماندار ہیں”
"رکو پر بھات ،تم تصویر کے صرف ایک رخ کی بات کر رہے ہو- دوسرا رخ کیسا ہے شاید تمہیں نہیں معلوم – جاننا چاہوگے تصویر کا دوسرا رخ کیسا ہے ؟ تو سنو … یہاں بے ایمانیان اور سازشیں نہیں ہیں بلکہ یہاں تو معمولی بات پر قتل اور خون خرابے کا ہولناک اور دلخراش تماشا برپا ہو جاتا ہے – لوگ ایک دوسرے کو اس طرح کاٹ ڈالتے ہیں جیسے وہ بھیڑ بکری ہوں – نفرت کے بیج بوے جاتے ہیں اور انتقام کی فصلیں کاٹی جاتی ہیں – جرائم ،بھوک ،استحصال اور بدعنوانی کے ساتھ ساتھ فسادات نے بھی یہاں کے ماحول کو بدبودار اور گھٹن سے پر کر دیا ہے – جس علاقے کی اکثریت نے کبھی صدیوں ساتھ رہنے والی اقلیتوں کو تقسیم ملک کی ہولناکیوں کے وقت محفوظ رکھا، ان کا ساتھ دیا، آج اسی اکثریت نے مندر مسجد تنازعہ کے وقت،اقلیتوں کو بے گھری اور بربادی کے المیے سے نوازا – … تازہ ہوا کے جھونکے لانے والی کھڑکی بند ہو چکی ہے پربھات اور اب تو یہ امید بھی نہیں کہ بند کھڑکی کے پٹ کھولنے کوئی آئیگا – ”
"پہلے تو ایسا نہیں تھا دیال ،جہاں تک مجھے یاد ہے یہاں کے لوگ بڑے مخلص ، ایماندار اور سیدھے سادے لوگ تھے – ”
"لیکن اب ایسا نہیں ہے. یہاں کے لوگوں کو ، ان کی زندگی کو قریب سے دیکھو – بہت اندھیرا ہے ، بہت گھٹن ہے – اور پھر تم ایسا سوچتے بھی کیوں ہو کہ یہاں بےایمانیاں ، سازشیں اور مکّاریاں نہیں ہوںگی -؟”
"واقعی میں ایسا کیوں سوچ رہا تھا – آخر یہ علاقہ بھی تو اسی زمین کا ایک حصّہ ہے – اور اس دن میں نے اپنی بیوی کو خط لکھا ———- "یہ تبدیلی مجھے راس نہیں آرہی ہے ، کیوں کہ اندھیرا یہاں بھی بہت ہے –” لیکن میں اسے یہ نہیں لکھ سکا کہ اس تاریکی ، اس دھند میں میرا وجود کہیں گم ہو چکا ہے اور یہ کہ پھر سے میرے اندر کچھ ٹوٹ رہا ہے.
بشکریہ : محترم وحید قمر (عالمی افسانہ فورم)
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn