Qalamkar Website Header Image

دہشت گردی ایک نظریہ ہے – شاہسوار حسین

دہشت گرد فقط وه نہیں جو اپنے جسم پہ بارود باندھ کر اڑ جاتا ہے یا لوگوں کو گولیوں سے بھون ڈالتا ہے. میرے خیال میں دہشتگردی کی تعریف یہ ہے کہ
” ہر وه سوچ اور نظریہ جو دوسری سوچ اور نظریے کو غلط سمجھتا ہو اور اسے بہ زورِ تلوار و بندوق سے روکتا ہو یا روکنے کی کوشش میں ہو یا اس کی حمایت کرتی ہو”
کل سیہون شریف میں جو دهماکہ ہوا اور بے گناہ انسانوں کے خون سے مزار کو غسل دیا گیا اس پہ مذمت،افسوس اور غم و غصے کے ملے جلے جذبات دیکهنے کو ملیں لیکن اگر ہم بعض لوگوں کے ان جذبات کے الفاظ میں دیکھیں گے تو مذمت میں بھی ہمیں دہشت گردی کی سوچ دکھائی دے گی.
مثلاً کل کئی دوستوں کے مذمتی بیان پر تبصرہ کرتے کمنٹس دیکھی تو میں اسی نتیجے پر پہنچا کہ ہم بلا شبہ یہ کہہ کر دل کو تسلی دیں گے کہ پھٹنے والے دہشت گرد ایک قلیل جماعت یا سوچ ہے حقیقت میں پھٹنے والے اگر قلیل تعداد میں ہیں لیکن ان کے سوچ سے متفق ایک اکثریت ہمیں دیکهنے کو ملے گی اگر ہم ان کے لفظوں پہ غور کریں.

کل اکثر لوگوں کو کہتے دیکها کہ بہت ظلم ہوا لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ دهماکے کیسے نہیں ہوں گے جب عورتیں اور مرد اکٹھے ہو کر جمع ہوتے ہیں بے حیائی پھیل رہی ہے وغیرہ وغیرہ جیسی تاویلیں پیش کرتے ہیں اس کا صاف مطلب یہی ہے کہ آپ کے اور پھٹنے والے کی سوچ میں رتی برابر بھی فرق نہیں.
عورتیں مرد کہاں اکٹھے نہیں ہوتے؟ کیا حج کے موقع پر مرد اور عورتیں الگ الگ ہیں یا ساتھ ساتھ ہی حج کی ادائیگی کرتے ہیں؟ یا وہاں جائز ہے اور دوسرے جگہوں پر ناجائز؟ یا اگر اکٹھے بهی ہیں تو تجهے اور مجهے کیا تکلیف؟ دوسروں کے عقائد سے ہمیں تکلیف کیوں ملتی ہے؟
ایسی مذمت کرنے سے بہتر ہے کهل کر دہشتگردی کی حمایت کریں دوہری پالیسی کیوں؟ کوئی کیسے عبادت کرتا ہے یا بالکل نہیں کرتا آپ اور ہم کون ہوتے ہیں اس کا فیصلہ کرنے والے؟ کیا یہ خود کو خدائی کا درجہ دینے والی بات نہیں؟ اولیاءکرام سے تیری دشمنی ہی یہی ہے کہ وه سب کو انسانیت کے لباس میں دیکھتے تهے مسلک و مذہب میں نہیں.
کچھ لوگوں نے یہ بھی کہا کہ قلندر اپنے مریدوں کو بھی نہیں بچا سکا یقیناً آپ نے بهی دہشت گردوں کے سوچ کی حمایت کی جو ہر چیز کو کفر و بدعت سے دیکھتے ہیں اگر ایسا ہے تو خانہ کعبہ کی تاریخ ذرا پڑھ لیں اور بتائیں کہ وہاں جو کچھ سانحات رونما ہوئے ہیں کیا نعوذ باللہ ہم اللہ کی حفاظت نہ کرنے پر تنقید کریں؟ یہ جو سوال ہے سوچ ہے یہی دہشت گردی کی سوچ ہے
اور آپ جب یہ عقیدہ بهی رکهتے ہیں کہ غیب کا علم فقط اللہ کو ہے تو تجهے یہ غیب کا علم کیسے دیا گیا ہے؟ کہ فلاں کفر کر رہا ہے مرتد ہے واجب القتل ہے گمراہ ہے وغیرہ وغیرہ.
سچ تو یہ ہے کہ آپ نے بهی عبا و قبا میں خود کو ولی اللہ کا درجہ دیا ہے لیکن کفر و ایمان اور موت و حیات کے فیصلے کرنے والے ولی کا.

یہ بھی پڑھئے:  فرار کب تک؟-خورشید ندیم

آپ کہتے ہیں کہ کائنات کی ہر شئے کا خالق اللہ ہے پهر آپ کو یہ حق کس نے اور کیسے دیا ہے کہ اللہ کی تخلیق کو مٹا دو؟ اگر تمہارے سوا باقی سب غلط ہیں واجب القتل ہیں تو پھر اپنے خدا سے یہ کیوں نہیں کہتے کہ ان کافروں کی تخلیق کا کارخانہ بند کر دیں یا سوال کرو ان سے کہ کافروں کو پیدا ہی کیوں کرتے ہو؟

ہر مذموم حرکت پر مذمت کرنے کے ساتھ ساتھ اگر آپ بے گناہ مرنے والے لوگوں کے عقائد و نظریات کو بھی وجہِ موت سمجھتے ہیں تو آپ بهی اسی دہشتگردی کی تعریف میں آتے ہیں. کوئی کیسے عبادت کرتا ہے نہیں کرتا، ہم ان کا فیصلہ کرنے والے کون ہیں؟ نہ ہی نعوذ باللہ ہم خدا اور نہ ہی رسول اور ولی ہیں جو مخلوق کے موت و حیات اور کفر و ایمان کے فیصلے کریں

اب سیکورٹی اداروں کی جانب آتے ہیں تنقید کو توہین نہیں سمجھنی چاہیے سوال کرنا عوام کا حق ہے بازار میں دوکان لوٹ لیا جاتا ہے تو پہلے چوکیدار سے پوچھا جاتا ہے کہ ہاں بھئی آپ کہاں تھے اور یہ واقعہ کیسے ہوا؟

کیا ہمارے اداروں کا بهی فقط یہی کام رہ گیا ہے دهماکوں کے بعد یہ کہہ کر جان چھڑائے کہ ہم نے تو پہلے سے ہی آگاہ کیا تها. اگر یہ پتہ تها کہ دهماکہ ہونے والا ہے تو یہ پتہ کیوں نہیں کہ وہ کون ہے کہاں سے آئے گا؟ کس جگہ کرنے والا ہے؟
اگر ان سب چیزوں کا پتہ نہیں چل رہا تو پھر فقط اطلاع دینے کے لئے ایک کثیر قومی سرمایہ خرچ کرنے کی کیا ضرورت؟ ہم اپنے محافظوں سے سوال نہیں کریں تو کیا انڈیا کے اداروں سے پوچھیں کہ ہم کو کس نے مارا؟ آپ نے مارا؟ کیسے مارا؟ کیسے آئے یہاں؟
لیکن ان سے بهی کیسے پوچھوں جب قبول کرنے والے اسی ملک کی تنظیمیں ہیں اور بدقسمتی سے ہمارے پاس صرف ایسی ٹیکنالوجی ہے جو ان لوگوں کو تلاش کر کے پکڑے جاتے ہیں جو سوشل میڈیا پہ اداروں سے سوال کرتے ہیں دھماکوں کی قبولیت والی پیجز ہماری پہنچ سے دور ہیں.
اگر کوئی کہتا ہے کہ سوال کرنا جرم ہے تو جناب ایسے لوگوں کو جدید دور میں سوشل میڈیا پر دانشوری کے چورن بیچنے کی بجائے پشاور قصہ خوانی بازار میں پرانے بادشاہوں کے کہانیاں سنانے کا فریضہ ادا کرنا چاہئے شاید کچھ ثواب مل جائے کچھ حلوے کا سواد مل جائے

حالیہ بلاگ پوسٹس