ایران پر ایک بار پھر پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں توجیہات میں یہ بھی شامل ہے کہ پابندی کا شکار ہونے والے ممالک شہریوں کی سفری معلومات فراہم نہیں کر رہے تھے پاکستان، افغانستان اور لبنان مطلوبہ معلومات فراہم کر رہے ہیں اگر اس میں کوئی تبدیلی ہوئی تو ان ممالک کو بھی پابندی میں شامل کر لیا جائے گا امریکی ترجمان کا کہنا تھا… خیال رہے کہ پاکستان ان ممالک کی فہرست میں شامل نہیں ہے جن کے شہریوں پر امریکا میں داخلے پر پابندی عائد کی گئی ہے… تاہم برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق پاکستانی شہریوں میں یہ خدشات پائے جاتے ہیں کہ جلد ہی یہ پابندی لگائی جا سکتی ہے۔
یہ نئی ٹرمپ انتظامیہ کی دنیا کی سیاست میں پہلی پیش رفت ہے جس کے محرکات میں کہیں اور جانے کی نہیں اس خطے میں تیزی سے ہونے والی سیاسی اور معاشی تبدیلیوں کا ادراک ہی کافی ہے۔ امریکا اور نیٹو ممالک کی 30 سال سے جاری سرمایہ کاری کو درپیش خطرات جو جذباتی اور اخلاقی انتہاؤں کو چھوتی ہوئی قدم قدم اقتصادی شکست کی طرف بڑھ رہی ہے بل کہ سفارتی محاذ پر تندی اور تلخی کا باعث بھی بن رہی ہے۔ اسی پس منظر میں ہی ہم نے گذشتہ دنوں چوتھی عالمی جنگ کی نشاندہی کی تھی اور اس کی توجیحات کو سمجھنے کی کوشش بھی کی تھی۔ یہی وہ جنگ ہے جس کے مختلف پہلو سامنے آنا شروع ہو ئے ہیں اور یہ کہیں ن کہیں آتشیں منظرنامے بھی بنا سکتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ جنوبی اور وسطی ایشیا میں جو نئے سیاسی اور اقتصادی اتحاد بن رہے ہیں افغانستان کی طویل جنگ سے نیٹو ممالک کا خاموشی کی طرف بڑھنا، یورپی ممالک کا نئے امکانات کی طرف بڑھنے کے اشاروں نے امریکا اور بھارت کے اتحاد کو تنہائی کا شکار کر دیا ہے یہی ہر دو اطراف میں جھنجلاہٹ کے نرغمے میں نظر آتی ہے۔ اور اس کا تمام تر دباؤ پاکستان پر ہو رہا ہے۔ بھارت نے تو پہلے ہی سرحدوں کا ماحول گرم کر رکھا ہے بعض حکام دھمکیوں کی زبان استعمال کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے سرجیکل سٹرائیک کی باتیں بھی کرتے ہیں مگر تلخ اور ترش جواب سے محتاط رویہ اختیار کرنے پر بھی مجبور ہیں چناں چہ بعض لوگ یہ اندازہ لگانے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کرتے کہ اگر پاکستان کے پاس ایٹمی ٹیکنالوجی اور اس کی مہارت نہ ہوتی تو ’اکھنڈ بھارت‘ کے جنونی اب تک اس خطے کو ہی نہیں پوری دنیا کو تبای کے دہانے پر کھڑا کر چکے ہوتے… امریکا اگرچہ بھارت سے کہیں زیادہ جنگی صلاحیتوں کا مالک ہے لیکن وہ بھی جنگ کے مابعد اثرات سے خوفزدہ بھی ہے اسے معلوم ہے کہ یہ ’ہیروشیما‘ کی تباہی والا زمانہ نہیں دنیا تبدیل ہو چکی ہے اور ایٹمی ٹیکنالوجی بھی پہلے سے ہزار گنا زیادہ تباہ کن نتائج دے سکتی ہے اور پھر یہ کہ بات صرف محدود اور مخصوص علاقوں تک نہیں رہے گی بل کہ مابعد تابکاری اثرات آنے والی نسلوں کو بھی بھگتنا پڑیں گے، یہی وجہ ہے کہ پاکستان پر قدم قدم سفارتی اور اقتصادی دباؤ میں اضافہ ہو رہا ہے اور اس میں مزید شدت بھی آ سکتی ہے بشرطے کہ پاکستان نے ماضی کے تعاون کا اعادہ نہ کیا۔
ایک تلخ حقیقت تو یہ بھی ہے کہ پاکستان نے اپنے مفادات کو نظرانداز کر کے بل کہ قومی اور اجتماعی نقصان کر کے امریکا کے لیے قربانیاں دی ہیں لیکن امریکا نے ہر نازک موقع پر تعاون کے بجائے کوئی نہ کوئی جواز تلاش کر کے اجتناب کا راستہ ہی اختیار کیا ہے… طویل فہرست میں اگر کچھ باتیں یاد کر لی جائیں تو اس میں کوئی ہرج نہیں۔
یو ٹو طیارہ پشاور کے ہوائی اڈے سے اڑ کر سوویت یونیئن کی فضاں میں اڑتا ہوا مار گرایا گیا تھا یہ پاکستان ہی تھا جس نے امریکی وزیرِ خارجہ کا چین سے پہلا رابطہ کروایا تھا افغانستان میں اسلامی جہاد شروع کروایا سوویت یونیئن کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اور پھر افغانستان پر براہِ راست قبضہ کروانے میں عملی اور جغرافیائی تعاون کیا اور حکمرانوں نے عوام کو سب سے پہلے پاکستان کا فریب دیا۔ اس کے بعد بعض بین الاقوامی ذرائع نے پاکستان کو 20 ارب ڈالر ملنے کا پراپیگنڈا بھی کیا۔ بہ ہر حال صداقت کیا ہے یہ یا تو بادشاہِ وقت بتا سکتا ہے یا پھر کئی امپورٹڈ وزیرِ خزانہ یا وزیرِ اعظم ہی بتا سکتا ہے۔ لیکن کچھ اور حقائق بھی ہیں جن کا بارہا پہلے بھی تذکرہ ہو چکا ہے کہ امریکا نے افغانستان اور وسطی ایشیا کے تیل، گیس اور معدنی ذخائر پر قبضہ کے لیے تین ہزار ٹریلین ڈالر خرچ کیے ہیں اور اب جب کہ ان کے مع سود واپسی کے امکانات روشن ہوئے تھے تو پاکستان اپنے جغرافیے کی اہمیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مخالف سیاسی اور اقتصادی کیمپ میں چلا گیا ہے… یہ وہ گستاخی ہے جو قابل قبول بھی نہیں اور باعث تشویش بھی ہے خیال تو یہی تھا کہ پاکستان ماضی کی طرح معمولی سرپرستی اور تعاون کے ساتھ ہم رکاب ہوجائے گا۔ لیکن ادھر بھی نئی قیادت بھی تھی اور نئے پالیسی ساز بھی۔ جن کے پاس نیا علاقائی سیاسی اور معاشی شعور بھی تھا اور نیا جغرافیائی ادراک بھی… لہٰذا تناؤ اور کچھاؤ غیر متوقع بھی نہیں تھا۔
یہی وہ علاقائی اقتصادی اور سیاسی منظرنامہ ہے جس نے امریکا کو جھنجلاہٹ کا شکار بنایا ہوا ہے۔ عالمی سرمایہ داری کے نمایندے اور محافظ پاکستان پر سیاسی اور سفارتی دباؤ میں اضافہ کر رہے ہیں پاکستانیوں کے امریکا میں داخل ہونے پر پابندی لگانے کا عندیہ دے رہے ہیں لیکن ہمارا خیال ہے کہ اگلے مرحلے میں سلامتی کونسل کو استعمال کر کے پاکستان کو دہشت گردی کی سرپرست ریاست قرار دے کر اس پر اقتصادی پابندیاں بھی عائد ہو سکتی ہیں ان خدشات کے پیش نظر ابھی سے صف بندی کی ضرورت ہے تو اس کے ساتھ ہی تدبر اور حکمت کے ساتھ آگے بڑھنے کی ضرورت ہے وزیرِ داخلہ کو جوابی حملے کرنے کی نہیں مشیر خارجہ سیاسی بصیرت کے ساتھ علاقائی اور عالمی صورتِ حالات کے ادراک پر مبنی راہِ عمل اختیار کرنے کی ضرورت ہے ہمیں تواس مرحلہ پر ذوالفقار علی بھٹو یاد آتے ہیں لیکن ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ سا کہیں جسے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn