کہتے ہیں جو لوگ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوکر اقتدار کے ایوانوں میں پہنچتے ہیں انکا کام عوامی فلاح کیلئے منصفانہ حکمت عملی کے تحت جمہوری تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے بغیر کسی رنگ نسل،سیاسی، مذہبی اور لسانی تعصب کے خدمت کو یقینی بنانا ہوتا ہے۔لیکن بدقسمتی سے اسوقت گلگت بلتستان میں جو لوگ حکومتی کرسی پر بیٹھے ہیں وہ حضرات خود کو سیاست دان کم بلکہ بادشاہ زیادہ سمجھتے ہیں جس کی واضح مثال حالیہ دنوں میں سرکاری فنڈز کی تقسیم کا غیر منصفانہ طریقہ کار جو شائد ہی کسی جمہوری معاشرے میں دیکھنے کو ملے۔ اس حکم نامے کے مطابق آنے والے بجٹ کے بعد جو لوگ حکومتی بینچ میں بیٹھے ہونگے اُنہیں زیادہ اور اپوزیشن، ویسے تو ہمارے ہاں ہے ہی نہیں لیکن اس سیاسی تقسیم کے بعد جو لوگ اپوزیشن کہلاتے ہیں اُن کے سالانہ بجٹ میں کٹوتی ہوگی۔ ایسا لگتا ہے کہ فنڈز عوام کے نام پر نہیں بلکہ حفیظ الرحمن کے ذاتی کاروبار سے کچھ پیسے لیکر عوام کو دیا جارہا ہے۔ لیکن اس سے بھی بڑی بدقسمی یہ ہے کہ اس ایشو پر بولنے والا کوئی نہیں مقامی نام نہاد پرنٹ میڈیا اس حوالے سے اشتہارات کے لالچ میں مدہوش ہے ،سول سوسائٹی کا وجود ہی نہیں،جو لوگ بولنے کی کوشش کرتے ہیں اُن کیلئے نمبروار شیڈول تیار ہیں۔ اسی طرح کچھ ہفتہ پہلے وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان میں ٹارگیٹڈ سبسڈی وقت کی اہم ضرورت ہے اس کیلئے جامع اور شفاف سروے کی ضرورت ہے تاکہ گلگت بلتستان کے مستحق اور غریب عوام کو گندم کی سبسڈی کا فائدہ ملتا رہے۔موصوف اس حوالے سے کئی بار کہہ چُکے ہیں کہ گندم سبسڈی کے نام پر چند لوگوں نے اس خطہ کے عوام کو افیون کے نشے سے بھی زیادہ خطرناک نشے میں مبتلاکرکے گندم کے کاروبار افیون سے بھی زیادہ منافع بخش کاروبار بنایا ہوا ہے۔ دوسری طرف سپیکر فدا ناشاد نے بھی کہا ہے کہ گلگت بلتستان میں گندم سمیت کئی دیگر اشیاء صرف پر سبسڈی کسی قانون سازی کے ذریعے نہیں بلکہ بھٹو دور میں انتظامی احکامات کے ذریعے منظور کی گئی تھی تاکہ گلگت بلتستان کے عوام کو گندم اور چند دیگرضروری اشیائے صرف ان کے علاقوں میں راولپنڈی اسلام آباد میں مروجہ نرخ پر میسر آسکے۔ جس کے لیے گلگت بلتستان کے مختلف علاقہ جات تک پہنچانے کے اخراجات حکومت برداشت کرتی رہی ہے۔اسطرح کے عوام دشمن بیانات کے بعد ہم سوال پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ کیا تقسیم برصغیر سے پہلے مہاراجہ کے دور میں کیا گلگت بلتستان والے سبسڈی پر گزارہ کرتے تھے؟ تاریخ میں ایسے کوئی شواہد موجود نہیں جس میں کبھی مہاراجہ نے اس خطے کے عوام کیلئے کسی قسم کی سبسڈی کا اعلان کیا ہوا لیکن تاریخ کی کتابوں میں اتنا ضرور لکھا ہوا ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام گندم اور غلہ کاشت کرکے مہاراجہ کے مقامی راجاؤں کو گندم اور غلہ جنس کی شکل میں ٹیکس دینے کے ساتھ ساتھ کشمیر ایکسپورٹ بھی کرتے تھے۔ لہذا یہ کہنا کہ اس وقت کے حکومت نے گلگت بلتستان کے عوام پر کوئی احسان کیا ایسا تاثر بالکل غلط ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ مختلف جنگوں کی صورت میں یہ علاقے تقسیم در تقسیم ہوئے جس کے نتیجے میں لداخ، گلگت بلتستان اور کشمیر کے تجارتی راستے بند کر دئے گئے ورنہ پہلے کسی خطے سے گندم لاتے تو کوئی خطہ دوسرے غذائی اجزاء کے بدلے یہاں سے غلہ لے جاتے۔ لہذا گلگت بلتستان جب خودمختاری کی دنیا سے نکل کر متنازعہ کمرے میں داخل ہوئے تو اقوام متحدہ کے قوانین کے مطابق جو بھی متنازعہ خطہ جس بھی ملک کے زیر انتظام ہے اس خطے کے عوام کو سبسڈائز اشیاء کی فراہمی انکی ذمہ داری ہے۔ اس وقت گلگت بلتستان والے اگر صرف گندم سبسڈی سے استفادہ حاصل کرتے ہیں تو لداخ ریجن میں چاول،آٹا،شوگر،مٹی کے تیل ،کسان، لون،مشینری وغیرہ پر بھی سبسڈی حاصل ہے۔ لیکن بدقسمتی ہے اس قوم کی کہ ہمارے عوامی نمائندوں نے قوم کو اصل مسائل کی حل کرنے کیلئے کوشش کرنے کے بجائے ایسے ایشوز میں الجھایا ہوا ہے جسکا نتیجہ ماضی کی طرح دھرنوں کے علاہ کچھ نہیں۔ کہتے ہیں ریاست وہاں کے عوام کیلئے ماں کی طرح ہوتی ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے عوام کیلئے آج تک سوتیلی ماں جیسا سلوک روا رکھا ہے جس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ایک تو ماں خود غرض ہے اور انکے بس میں کچھ نہیں، اس سے بھی بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ اس ماں نے اس خطے کو کچھ دینے کے بجائے حق گوئی کرنے والے بچوں کے ساتھ بھی غیروں جیسا سلوک کرتے ہیں۔جو بھی لوگ اس وقت گلگت بلتستان سے گندم سبسڈی ختم کرنے کی حمایت کرتے ہیں انہیں چاہئے کہ پہلے کرگل سکردو ، خپلو،ترتک، گلتری دراس،استور سرنگر کے تجارتی راستوں کو کھولنے کیلئے کوشش کریں تاکہ گلگت بلتستان ماضی کی طرح آج بھی ایک تجارتی حب بن سکے۔دوسری بات ریاست کے ذمہ داران کو چاہئے کہ یہاں انصاف پر مبنی فیصلے کریں کیونکہ موجودہ حکومت کے اندر انصاف کا عنصر بدقسمتی سے کہیں نظر نہیں آتا جس کی ایک اور واضح مثال ایفاد پراجیکٹ ہے جسکا بنیادی مقصد دیامر ریجن میں زراعت کے شعبے میں ترقی دینا تھا جو کہ اچھی بات ہے لیکن اگر انصاف کی انکھ سے دیکھیں تو موجودہ حکومت نے اس پراجیکٹ میں کچھ اور اضلاع کو بھی شامل کیا اور حکومتی ترجمان اس حوالے سے اقرار بھی کرتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے نولود مود اضلاع اور دیگر اضلاع کو حکومت نے یکسر طور پر نظرانداز کرکے خبث باطن کا اظہار کیا۔ لہذا حکومت اگر جمہوری ہے تو اسے چاہئے کہ کسی مخصوص علاقے، فرقے یا سوچ کی نمائندگی کرنے کے بجائے 28ہزار مربع میل خطے کے حاکم بنیں اور اسی لحاظ سے منصفانہ طریقے سے ترقی اور تعمیر کے کاموں کی تقسیم کو یقینی بنائیں اور اس قوم پر گندم سبسڈی کا احسان جتانے کے بجائے قوم کے وہ حقوق دلانے کیلئے عملی کوشش کریں جو آپ پر فرض اور قرض ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ اس وقت حق مانگنا بھی ایک طرح سے غداری کے زمرے میں شامل کیا جارہا ہے ، سی پیک جیسے گیم چینجر منصوبے میں متنازعہ آئینی حیثیت کو سامنے رکھ کر مطالبہ کرنے کے بجائے چند منصوبوں کو حاصل کل سمجھ کر شکرانے پڑھنے کی تیاریاں ہورہی ہے۔ گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت پر آئین اور قانون کے دائرے میں رہ کر دو ٹوک موقف اپنانے کے بجائے اپنے ہی عوام کو منفی اور جھوٹے اعلانات کے ذریعے گمراہ کیا ہوا ہے۔ گلگت بلتستان کی مقامی حکومت کو چاہئے کہ اس سنہرے موقع کا فائدہ اُٹھائیں عوامی مطالبے کو مدنظر رکھتے ہوئے گلگت بلتستان کو دستور پاکستان میں ترمیم کرکے آئینی طور پر پاکستان کا پانچواں صوبہ ڈکلیر کرنے کیلئے عملی جدوجہد کریں ایسا ممکن نہ ہونے کی صورت مسلہ کشمیر کی حل تک کیلئے اقوام متحدہ کی قرادادوں پر عمل کرتے ہوئے اس خطے کو آزاد کشمیر طرز پر خود مختاری دینے کا مطالبہ کریں اس سے پاکستان کو فائدہ ہوگا دفاع مضبوط ہوگی گلگت بلتستان میں پاکستانی قوانین کو مزید تقویت ملے گی۔ ایسا نہ کرکے صرف سبسڈی پر حق جتانا آج کے اس ترقی یافتہ دور میں جہاں دنیا گلوبل ولیج بن چُکی ہے سائنس اور ٹیکنالوجی بہت ترقی کر چُکی ہے یہ الگ بات ہے کہ ہمارے عوام کو آج بھی2Gکی سہولیات بھی میسر نہیں،یہی وجہ ہے کہ نئی نسل نے سوال اٹھانا شروع کیا ہے سوشل میڈیا پر ایک انقلاب پرپا ہے جو وقت آنے پر میدان میں بھی اُتر سکتا ہے،لہذا اس خطے کے حقوق کے حوالے سے جھوٹ بولنا ترک کریں اور متازعہ حیثیت کے پیش نظر جو حقو ق دیے جارہے ہیں اس پر احسان نہ کریں ۔بلکہ اس متعصبانہ رویئے میں تبدیلی لاکر قانون کے مطابق منصفانہ حکمت عملی کے تحت اس قوم کو حقوق دلانے کیلئے کوشش کریں ۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn