Qalamkar Website Header Image

سرائیکستان نہیں صوبہ ملتان بنائیں؟-ظہور دھریجہ

11 فروری 2017ء کے خبریں میں ایک کالم ” لسانیت کے نام پر تقسیم قبول نہیں ” کے عنوان سے ارشد رحمان کے نام سے شائع کیا گیا ، یہ در اصل وہی مضمون ہے جو رانا تصویر احمد کے نام سے رضی الدین رضی کی ویب سائٹ گرد و پیش پر آج بھی موجود ہے اور میں اس کا تفصیلی جواب دے چکا ہوں ۔ سرائیکی وسیب کے مخالفین اپنے نام اور اپنے چہرے بدل کر خود ثابت کر رہے ہیں کہ ان میں کتنی سچائی ہے ؟ مخالفین کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ اپنے اس وسیب کے خلاف لکھ رہے ہیں جہاں رہتے ہیں ۔ ان کے پاس کہنے کو کچھ نہیں ، یہی وجہ ہے کہ آج مورخہ 13 فروری 2017 کو رانا تصویر نے اپنا پرانا کالم خبریں کو بھیج کر دوبارہ چھپوا دیا ہے ۔ اس کا جواب بھی دیا جا چکا ہے ، البتہ اس پہلے والے کالم کی ہم بات کریں گے تاکہ خبریں کے قارئین اصل حقائق سے آگاہ ہو سکیں ۔
9فروری 2017ء کے خبریں میں رانا تصویر احمد کا مضمون "سرائیکستان نہیں صوبہ ملتان بنائیں "کے عنوان سے شائع ہوا۔پہلی بات تو یہ ہے کہ پورے مضمون میں صوبہ سرائیکستان کے خلاف اور صوبہ ملتان کے حق میں ایک بھی دلیل نہیں ، بلکہ صوبے کا ذکر ہی نہیں ۔ رانا تصویر احمد صوبہ ملتان تحریک کے اُسی طرح سربراہ ہیں جس طرح محمد علی دُرانی بہاولپور صوبہ تحریک کے ۔ بہاولپور میرا دل ہے اور ملتان میری روح ہے دونوں شہروں کی خاک میری آنکھوں کا سُرمہ ہے ان کی مخالفت بارے سوچا بھی نہیں جا سکتا، تاہم دیکھنا یہ ہے کہ کیا رانا تصویر احمد اور محمد علی درانی صوبہ بنانے کے لئے میدان میں آئے ہیں یا صوبے کا مقدمہ خراب کرنے اور صوبہ تحریک کے پیٹ میں چھرا گھونپنے ؟۔جیسا کہ مخدوم جاوید ہاشمی صوبہ سرائیکستان کی مخالفت تو نہیں کر سکتے البتہ مخالفت کا ایک انداز یہ بھی ہے کہ وہ کہہ دیتے ہیں کہ پاکستان میں کراچی سمیت بہت سے صوبے بنائے جائیں ۔”نہ ہو گا بانس نہ بجے گی بانسری” کے مصداق نہ بہت سے صوبے بنیں گے اور نہ ہی سرائیکی صوبے کی باری آئے گی ۔ ہمارے قائدین کے کچھ ذاتی مسائل ہیں اور کچھ نفسیاتی ۔ چند لمحے کے لئے ہم خاموش ہیں ، اگر بنتا ہے تو یہ صاحبان ملتان صوبہ بھی بنوا لیں اور بہاولپور صوبہ بھی بنوا لیں ۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کیا ایسا ممکن ہے ؟ جو طاقتیں ایک صوبہ دینے کے لئے تیار نہیں کیا وہ دو صوبے دیں گی؟ دوسرا یہ کہ کیا چھوٹے صوبے اور خود پنجاب یہ گوارہ کرے گا کہ ایوان بالا (سینٹ) میں اُن کی نمائندگی ایک صوبے کی ہو اور سرائیکی قوم کی نمائندگی ڈبل ہو جائے ؟ میں تھوڑی سی بات دُہرا دوں کہ پنجاب اسمبلی سے دو صوبوں کی قرارداد پاس ہوئی ، پیپلز پارٹی نے بھی اس سے اتفاق کیا ، صوبہ کمیشن بن گیا ، بتایا جائے کہ صوبہ کمیشن نے ایک صوبے کی سفارش کیوں کی ؟ اگر آپ نہیں بتاتے میں بتاتا ہوں کہ دو صوبوں کی بات کو چھوٹے صوبوں نے تسلیم نہ کیا اُن کا کہنا تھا کہ اس لحاظ سے سینٹ میں سرائیکی قوم کی مناپلی قائم ہو جائے گی ۔لہٰذا صوبہ کمیشن کو ایک صوبے کی قرارداد پہ آنا پڑا۔
جب محمد علی درانی نے بہاولپور صوبے کا شوشہ چھوڑا تو میں نے اُس وقت چیلنج دیا تھا کہ موجودہ وفاقی پارلیمانی نظام کے تحت دو صوبے قیامت تک نہیں بن سکیں گے ۔ یہ کوئی نجومی کی بات نہ تھی بلکہ میں نے جو بات کی وہ مندرجہ بالا حقائق کی بنیاد پر کی ۔ میرا د عویٰ اب بھی یہی ہے ، محمد علی درانی ، رانا تصویر ، یا کوئی اور میر صادق یا میر جعفر ، میرا چیلنج قبول کرے اور میاں نواز شریف جس نے بہاولپور میں کہا تھا کہ بہاولپور صوبہ تو کیا میں تو ریاست بہاولپور کے حق میں ہوں ، سے صوبہ بنوا کر دکھائیں۔اگر نہیں تو خدارا وسیب کی آنے والی نسلوں پر رحم کیجئے اور جاگیرداروں کی طرح وسیب دشمن کردار سے باز آئیے۔یاد رکھئے مسئلہ صوبے کے نام کا نہیں بلکہ مقبوضہ صوبہ سرائیکستان واگذار کرنا قابض قوتوں کے لئے مسئلہ ہے کہ ان کی بادشاہت سرائیکی وسیب کے قبضے میں پنہاں ہے اگر سرائیکی صوبہ بن جائے تو پنجاب کے” مغل اعظم”اپنی اوقات پر آ جائیں ، یاد رکھئے مسئلہ نام کا نہیں بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ وہ صوبہ دینا نہیں چاہتے۔اگر وہ آپ کو صوبہ دیتے ہیں تو دیر نہ کیجئے اس کا نام بھلے آپ "شر یف آباد” رکھوا لیں۔
رانا تصویر کے مضمون کا پہلا لفظ "بیچارا ملتان” ہی توہین آمیز ہے ، میں رانا تصویر کو بتانا چاہتا ہوں کہ ملتان کے بارے میں حضرت بہاؤالدین ذکریا ملتانیؒ نے کہا "ملتان ماء بجنت اعلیٰ برابرست ، آہستہ پابنہ کہ ملک سجدہ می کند” اسی طرح ہندی کہاوت ہے "آگرہ اگر ، دلی مگر ، ملتان سب کا پدر”سرائیکی کہاوت ہے "جئیں نہ ڈٖٹھا ملتان ، نہ او ہندو نہ مسلمان” ۔ رانا تصویر صاحب ! آپ نے ملتان کی تاریخ بیان کرتے کرتے ملتان کو بیچارا کہا اور ملتان کو گونگا کہا ، تو میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ ملتان نہ بے چارہ ہے اور نہ گونگابلکہ ملتان عظیم ہے میں پوچھتا ہوں کہ دارا اول و سکندر سے لے کر رنجیت سنگھ و انگریز سامراج تک کونسا ایسا حملہ آور ہے جس کے خلاف ملتان نے مزاحمت نہ کی ہو؟ آپ کو علم ہونا چاہیے کہ آپ کے آقاؤں کے ہیرو رنجیت سنگھ کے خلاف ملتان نے مزاحمت کی وہ تاریخ عالم میں منفرد واقعہ ہے، اس جنگ میں مستورات نے بھی حصہ لیا و مظفر خان کی بیٹی بھی اس جنگ میں شہید ہوئی ، مزید براں یہ بھی ملتان ہی کا واقعہ ہے کہ سکھا فوج ملتان پر قبضے کے بعد گھروں میں داخل ہوئی تو ملتان کی عصمت مآب مستورات نے مزاحمت کی اور بہت سی دوشیزاؤں نے کنوؤں میں کود کر جان دے دی مگر آن پر حرف نہ آنے دیا ، عجب بات ہے کہ تم ملتان کو گونگا کہہ رہے ہو اور بیچارا کہہ ر ہے ہو ، اگر آپ کو ملتان سے محبت ہوتی تو آپ "چہارچیز است تحفۂ ملتان، گرد گدا گرما و گورستان "کہنے والے سے پوچھتے کہ بے شرم حملہ آوروں کو یہ کس نے اجازت دی کہ وہ حملہ آوری کے ذریعے ملتان کی گرد اُڑائیں، قتل عام کے ذریعے ملتان کو گورستان میں تبدیل کریں ، لیکن کیونکہ نہ توآ پ کو ملتان سے محبت ہے اور نہ ہی آپ قوموں کی تہذیب ، ثقافت اور وطنیت کے فلسفے سے علم ہے اس لئے آپ ملتان کو بیچارا اور گونگا کہہ رہے ہیں جس کی ہم سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہیں ۔
آگے چل کر ایک طرف آپ کہہ رہے ہیں کہ آسمان کا نیلا رنگ ملتان کی شناخت ہے اور پھر ساتھ ہی ملتان کی نیلی اجرک کے خلاف لکھتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ ملتان کے وجود سے ان نیلے رنگوں کی چادر کو بھی نوچ کر اُتار لیا گیا ہے ، آپ مجھ پر ذاتی حملہ کرتے ہوئے مجھے”عقل کُل "اور”کوتاہ قامت "کا نام دیتے ہیں اورسرائیکی اجرک کو سندھی طرز کی اجرک قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ فریدی رومال کو بھی متعارف کرانے کے لئے بھی زور لگایا گیا تھا ۔ میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ اجرک کا لفظ عربی کے لفظ "ازرق” سے ماخوذ ہے ، واقعہ اس طرح ہے کہ محمد بن قاسم کی عرب افواج نے اہل ملتان کو نیلی چادریں اُوڑھے دیکھا تو ان کی زبان سے "ازرق ازرقق "کے الفاظ ادا ہوئے ، پھر "ز” کا لفظ "ج” میں تبدیل ہوا اور یہ اجرک ہو گئی ۔ سندھیوں نے بھی اجرک کی یہی تاریخ لکھی ہے اگرہم نے اپنی صدیوں کی تاریخی پہچان کو پھر سے زندہ کیا ہے تویہ کونسا جرم ہے ؟ آپ جیسے وسیب کے حاسدوں کو خدا تعالیٰ نے اگر اچھے کام کی تعریف کا حوصلہ نہیں دیا تو کم از کم جہاں رہتے ہیں اور جہاں رزق کھاتے ہیں وہاں کیچڑ تو نہ اُچھالیں ، جہاں تک 146146کوتاہ قامت 145145 کی بات ہے توآپ نے اعتراض کرنا ہے تو پھر خالق پر کیجئے خلق کا اس میں کیا سروکار ہے ؟البتہ میں آپ کو یہ بھی بتا دوں کہ میں نام نہاد داناؤں کی اس بات کو تسلیم نہیں کرتا کہ ہر طویل القامت شخص اونٹ کی مانند بے وقوف ہوتا ہے ۔ وسیب کی مخالفت کے حوالے سے آپ کے مضمون پر آپ کو اس لئے دوش نہیں دیتا کہ آپ کا تو محض نام آ رہا ہے اصل تو کوئی اور ہیں ۔جو صاف چھپتے بھی نہیں اور سامنے آتے بھی نہیں۔
جہاں تک صوبہ ملتان یا صوبہ سرائیکستان کی بحث ہے تو پہلے تو آپ "صوبہ لاہور” بحال کرائیں اور صوبہ خیبرپختونخواہ کا نام بھی پھر سے تبدیل کرا کر صوبہ پشاور رکھوائیں کہ انگریزوں سے پہلے یہ صوبہ پشاور تھا اگر آپ یہ نہیں کر سکتے تو پھر سرائیکی وسیب کے لوگوں کو دو صدی کے پہلے کے زمانے میں اس وقت کیوں لے جانا چاہتے ہیں جس وقت کہ ہندوستان اور پاکستان میں صوبوں کے نام شہروں کی بجائے قومی و ثقافتی شناخت پر تبدیل ہو چکے ہیں ۔ یہ خطہ جہاں آپ اور ہم بستے ہیں ، کیکیا کوئی تہذیب ، ثقافت یا پہچان نہیں ؟ اگر ہے تو پھر مخالفت کا جواز کیا ہے ؟ کہ مسئلہ ظہور دھریجہ کی ذاتی شناخت کا نہیں بلکہ سرائیکی وطن وسیب کا ہے جس میں ہم سب رہتے ہیں ۔شناخت قوموں کی آن اور شان ہوتی ہے ، وہ اس کے لئے مر مٹتے ہیں ، البتہ اپنے خطے کی تہذیبی ،ثقافتی و جغرافیائی شناخت کی مخالفت وہ کرتے ہیں جن کی اپنی تہذیب ، اپنی ثقافت اور اپنی شناخت نہیں ہوتی۔
آخر میں کہنا چاہتا ہوں کہ "خبریں ” میں سرائیکستان کی بحث چل رہی ہے ، ایک دن مضمون سرائیکی صوبے اور سرائیکی وسیب کے حق میں ہوتا ہے اور دوسرے دن اُس کے خلاف ۔ کاش آپ جیسے لوگ جو سرائیکی وسیب میں پیدا ہوئے ، اورماں دھرتی کے بیٹے کہلاتے ہیں ، کے مضامین دوسرے دن کی بجائے پہلے دن آنے چاہئیں تھے ۔اور دوسرے دن مضامین تخت لاہور والوں کی طرف سے ہونے چاہئیں تھے ، مگر جو بات ہم جاگیرداروں کے بارے میں کہتے تھے وہی بات اب آپ جیسے لوگوں پر بھی صادق آتی ہے کہ "اساں قیدی تخت لاہور دے نی ، ساکوں اپنْئں گھانْی وات ڈٖتے”

حالیہ بلاگ پوسٹس