میں پبلشر سے اپنی آنیوالی کتاب کے سلسلے میں بات چیت کر رہا تھا کہ اچانک ایک آواز سماعتوں میں رس گھولتی محسوس ہوئی، یوں لگا جیسے ، پبلشر کا آفس نا ہو، کوک سٹوڈیو ہو۔۔۔ اتنی مترنم آواز یا تو ملکہ نور جہاں کی تھی یا یہ جو میں سُن رہا تھا، اس آواز میں وہ چاشنی تھی کہ میں مُڑ کر بھی نا دیکھ سکا کہ صاحبِ صوت کون ہے کہ اچانک وہ آواز گویا ہوئی ” پبلشر صاحب آج اخبار کی چار کاپیاں پرنٹ کر دیں”۔
میں جو ابھی تک پبلشر صاحب کو ہی دیکھ رہا تھا، میں نے دیکھا کہ پبلشر صاحب کے چہرے پر خوشی اور حیرت کے آثار واضح ہیں۔ پبلشر صاحب مجھے اگنور کرتے ہوئے صاحبِ صوت سے بولے” ملک صاحب مبارک ہو، لگتا ہے آپ کے اخبار کی سیل کافی بڑھ گئی ہے، جو اچانک ایک سے چار کاپیوں کی ڈیمانڈ کر رہے ہیں”۔
"نہیں سر، سیل نہیں بڑھی، بس آپ کی بھابی نے آج حکم دیا تھا کہ گھر آتے ہوئے اخبار کی ردی لیتے آنا، الماریوں اور میزوں پر بچھانی ہے، تو سوچا کہ اپنا خبار کس مرض کی دوا ہے، پڑھتا تو کوئی ہے نہیں، چلو گھر کے کسی کام آ جائے”
لفظ، ملک صاحب اور بھابی کا سُننا تھا کہ میں نے پیچھے مُڑ کر دیکھا تو ایک سرُو قد، نازک اندام شخصیت کو کھڑے پایا، میں تو سمجھا تھا کہ کوئی قاتل ادا حُسینہ دیکھوں گا مگر یہ کیا، وہاں تو حسینہ سے ملتی جُلتی مخلوق کھڑی تھی۔
یہ تھا میرا پہلا تعارف، معروف و مشہور شخصیت جناب بابر لطیف ملک صاحب سے، بابر لطیف ملک ، ہمارے مشترکہ دوست قمر عباس اعوان سے زیادہ مشہور ہیں، وہ ایسے کہ کم از کم بابر ملک کو اِنکے اپنے گھر میں سب جانتے ہیں۔۔۔
دن ہفتوں میں، ہفتے مہینوں میں اور مہینے سالوں میں بدلتے گئے اور ہماری دوستی یقین و اعتماد کی نئی منازل طے کرتی گئی۔۔ گزرے ہوئے اتنے سالوں میں نا تو ہماری دوستی کی مضبوطی میں کوئی فرق آیا اور نا ہی ملک صاحب کے اخبار کی سیل میں۔۔۔۔ آج بھی چار کاپیاں صرف اسی دن پرنٹ کرواتے ہیں جس دن بچے کہیں کہ ابو، کتابوں پر جِلدیں کروانی ہیں۔
ملک صاحب کے زیرِ نگرانی چلنے اور چھپنے بلکہ رینگنے والے اخبار کا نام "روزنامہ صاف” ہے، اخبار اپنے نام کی طرح بالکل صاف ہوتا ہے، کوئی گندی خبر نہیں ہوتی بلکہ اکثر اوقات تو کوئی بھی خبر نہیں ہوتی۔۔ میرا یار قمر کہتا ہے کہ ملک صاحب کے اخبار میں کوئی بھی خوبی نہیں ہے۔۔ میں قمر کی اس بات سے اتفاق کر لیتا اگر میں نے خود ملک صاحب کے ” روزنامہ صاف” کو اپنی آنکھوں سے آدھا کلو پکوڑوں کا تیل جزب کرتے ہوئے نا دیکھا ہوتا۔۔۔ یہ خوبی تو مُلک کے کسی بھی دوسرے اخبار میں نہیں پائی جاتی۔
ایک اور ایسی خوبی ، جو کسی بھی ہم عصر اخبار میں نہیں ہے وہ ہے اخبار کا نرم و ملائم ہونا، آپ "روزنامہ صاف” کو بیک وقت ٹوائلٹ رول اور ٹشو پیپر کی جگہ بھی استعمال کر سکتے ہیں، ادارہ "روزنامہ صاف” کی بچوں کے ناک صاف کرنے جیسی خوبیوں کی بھی ضمانت دیتا ہے مگر میں یہ مشورہ نہیں دوں گا، مبادا بچے ناراض نا ہو جائیں۔
آپ ، ” روزنامہ صاف” سے شیشے، برتن اور ہاتھ بھی صاف کر سکتے ہیں اور بوقتِ ضرورت رول کرے مکھیاں بھی مار سکتے ہیں۔ میں حیران ہوں کہ اتنے اوصاف والا اخبار ابھی تک آپ کی نظروں سے کیوں نہیں گزرا۔
ملک صاحب کا ماننا ہے کہ ہمارے مُلک میں سیاست، نالیوں اور گٹروں پر ہوتی ہے، اس لیئے ان کا فوکس بھی نالیوں اور گٹروں پر زیادہ ہوتا ہے، وہ یوں کہ اگر انکے مُحلےمیں کوئی نالی یا گٹر بند ہو جائے تو خود ہی صاف کر دیتے ہیں ۔ پُر امید ہیں کہ اگلے انتخابات میں بھاری اکثریت سے واسا کے رکن منتخب ہو جائیں گے۔بہت یار باش ہیں، اسلیئے کبھی کبھار بغیر پیسوں کے بھی صفائی کر جاتے ہیں۔
ملک صاحب کو فوٹو گرافی کا بہت شوق ہے، ایک بار ناران گئے تھے اپنی جیپ پر، تووہاں کسی خان صاحب نے کہا کہ خوچہ ہمارا تصویر تو بنا دو، ملک صاحب جھٹ سے تیار ہو گئے، خان صاحب بولے، خوچہ ہم تمہاری جیپ پر بیٹھ کر سامنے والے پہاڑ سے ادھر آئے گا تم ہمار فوٹو بنانا، ملک صاحب جیسے تخلیقی آدمی کو یہ آئیڈیا بہت اچھا لگا اور جیپ خان صاحب کو دے دی۔۔ بس وہ دن اور آج کا دن ، نا خان واپس آیا اور نا جیپ۔۔ تب سے جب بھی کسی کو یہ کہتے ہوئے سُن لیں کہ خان لوگ تو سادہ ہوتے ہیں،ملک صاحب مرنے مارنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔
ذیشان حیدر نقوی کیمسٹری میں ماسٹرز ڈگری ہولڈر ہیں۔ لیکن کمیسٹری جیسے مضمون پڑھنے کے باوجود انتہائی اچھا مزاح لکھتے ہیں۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn