Qalamkar Website Header Image

دوجا پن اندر کی عورت جگاتا ہے – محمد عامر حسینی

سایه ئی روی سایه ئی خم شد
در نهانگاه رازپرور شب
نفسی روی گونه ئی لغزید
بوسه ئی شعله زد میان دو لب
ایک پرچھائیں دوسری پرچھائی پہ جھکی
راز پرور شب کی پوشیدہ پناہ گاہ میں
سانس جیسے گال پہ پھسل گئی ہو
اور دو لبوں کے درمیان ایک بوسے نے شعلہ سا جلا دیا ہو
آج ویلنٹائن ڈے ہے اور یہ محبت اور خوشی کا دن مانا جاتا ہے لیکن کوئٹہ اور لاہور میں صف ماتم بچھی ہے اور ہم سب بھی ان کے ساتھ صف ماتم بچھاکے بیٹھے ہیں۔
قسمت ہم سے بھی کیسے کیسے سنگین مذاق کرتی ہے۔آج جب میں رامش فاطمہ کے گارڈین ڈیلی کی ویب سائٹ سے شئیر کردہ ایک فیچر کے سحر میں گرفتار تھا اور رمشا اشرف اس پوسٹ پہ موتی ٹانک رہی تھیں تو میں بھی فروغ فرخ زاد کی تصویر کے عقب میں جھانکتی اپنی ساری کی آنکھوں کی مستی میں ڈوب ڈوب جارہا تھا تو ایک دم سے زور دار دھماکوں کی آواز سے مرے کان کے پردے جیسے پھٹنے لگ گئے اور مری آنکھوں کے سامنے خون کا ایک تالاب بننے لگا اور زخمیوں کی چیخیں اور کسی کی آخری ہچکی لینے اور اپنے اس طرح سے مرنے پہ حیرت سے کھلی آنکھیں اور کھلے منہ تھے اور میں اس سارے منظر سے آنکھیں چار کرنے سے گھبرارہا تھا۔دل ایک طرف تھا کہ شدت غم سے پھٹا جارہا تھا اور دوسری طرف لاہور کے تاجروں کی جانب سے سوگ میں دکانیں بند رکھنے کے اعلان سے نجانے کیوں مرا دل غم کے ساتھ ساتھ غصّے سے بھرگیا۔ایک مرتبہ تو جی میں آئی کہ ان کے گریبان پکڑلوں اور ان سے کہوں کہ اگر مارچ 1971ء میں ایسے اقدامات بنگالیوں کے لئے کئے ہوتے اور آج بلوچستان ميں برستی آگ کے خلاف احتجاج میں یہ قدم اٹھایا ہوتا اور اپنی سرکار کو جہاد ازم اور تکفیر ازم کے لئے پراکسیز بنانے سے روکنے کے لئے کاروبار چند روز کے لئے بند کیا ہوتا اور بے لگام نہ دی ہوتی تو ایسے کوئی موٹر سائیکل لاکر پھاڑ نہ رہا ہوتا خود کو اور یہ سب منظر دیکھنے کو نہ ملتے۔پھر مجھے لگا کہ جیسے مری ساری کینسر وارڈ میں بستر پہ پڑی مجھے کہہ رہی ہو کہ دیکھو یہ گھڑی نہیں کہ تم لاہور والوں کو اس ملک کے بلوچ،سندھی ، سرائیکی ، پشتونوں،شیعہ اور ہزارہ شیعہ کے رستے زخم دکھاؤ بلکہ یہ موقعہ تو ان کے رستے زخموں پہ مرہم رکھنے کا ہے ناکہ نمک چھڑکنے کا۔اور میں ایک دم سے شرمندہ ہوگیا۔لیکن فروغ فرخ زاد کا تذکرہ اس المناک گھڑی میں کیا جانا اس المناکی پہ غم منانے اور دکھ سے بھرجانے سے الگ نہيں ہے۔جس کا اس کے عاشق ابراہیم گلستان نے اس کی موت کے 50 سال بعد کیا ہے۔کون فروغ فرخ زاد ؟
من صفائی عشق میخواہم ازو
تافدا سازم وجود خویش را
او تنی میخواہد از من آتشیں
تابہ سوازند درونِ خویش را
میں اسے شفاف تر عشق چاہتی ہوں
تاکہ میں اپنا وجود اس پہ وار دوں
اور وہ مرے آتشیں بدن کا طلبگار ہے
تاکہ اپنے اپنے اندر کو سلگالے
مرد محبوب/عاشق اور عورت/محبوب/عاشق یہ ایک ایسی مساوات ہے جو قائم و دائم رہتی ہے۔اس وقت بھی جب کوئی عورت رونگٹے کھڑے کردینے والے اور شرم سے بھگودینے والے ایسے شعر کہتی ہے:
ای زن کی دلی پر از صفا داری
از مرد وفا مجو، مجو، ہرگز
او معنیٔ عشق رانمی داند
رازِ دل خود او مگو ہرگز
عورت کا دل پاکیزگی سے بھرا ہوا ہے
اور مرد سے کبھی بھی وفا ہرگز نہیں ہے
وہ عشق کے معنی نہیں جانتا
اور اس کے سامنے دل کے بھید کبھی نہ کھول
آج مرا دل کررہا ہے کہ میں تھوڑی دیر کے لئے فروغ فرخ زاد کی اندر کی بیدار مغز اور باغی عورت کو مستعار لے لوں اور اس کے جیسا بن جاؤں اور کہہ ڈالوں کہ اگر میں "دیوتا ” ہوجاتی ایک رات کے لئے سہی تو پتا ہے ميں کیا کرتی ؟میں بغاوت کردیتی اور اس وسیع دنیا کی تنگ دامنی پہ تھوک ڈالتی۔میں اپنی داسیوں اور داس کو طلب کرتی اور ان سے کہتی کہ رات کے تاریک چولہے میں سورج کو جھونک دو اور تب میں باغ ارض میں کام کرنے والے غلاموں سے کہتی کہ یہ جو پیلے پتوں کی طرح کا زرد چاند ہے اسے شجر شب سے جدا کردو،اگر میں دیوتا ہوجاتی تو رات کو بلاتی فرشتوں کو اور کہتی ان سے جہنم کی دیگ میں ابدی زندگی کے پانی کو ابلنے دو، میں جلتی مشعل لیکر نیکی کی بھیڑوں کا تعاقب کرتی جو کہ خوش کن سورگ کی خوب سرسبز چراگاہوں میں چرتی ہیں۔ایک مصنوعی نرتکی سے اوب کر میں آدھی رات کو راکھشش کے بستر کی تلاش کرتی اور قانون توڑنے کی راحت میں پناہ لیتی۔اور خوشی خوشی یہ دیوتا ہونے کا تاج میں اس سے بانٹ لیتی۔اور سخت غصّے میں دانتوں کو پیستے ہوئے میں، سالوں کی خاموشی کا بدلہ لیتے ہوئے ۔ میں اپنے آہنی پنجوں سے چٹانوں کو تہس نہس کرڈالتی۔اور میں حرص سے کھلے سمندروں کے منہ چوٹیوں سے بھردیتی۔ٹھیک کہا ابراہیم گلستان نے کہ فروغ فرخ زاد کی شاعری انسان کے سب سے بنیادی اور اہم جذبات کا عکاس تھی۔خود فروغ نے ایک بار کہا تھا:
ابے او مردجاتی سن! میری شاعری مرے جذبات کی آگ ہے اور یہ تم ہو جس نے مجھے شاعرہ بنایا ہے۔
اور فروغ کا جب ابراہیم گلستان سے تعلق پیدا ہوا تو یہ وہ زمانہ تھا جو فروغ کی شاعری کا سب سے بہترین اور یادگار دور تھا۔ایرانی معاشرہ مذہب، رسم و رواج کے نام پہ جن پدر سری حدود و قیود کو عورتوں پہ مسلط کرتا ہے اسے فروغ فرخ زاد نے اپنی شاعری کے زریعے ‎سے چیلنج کیا۔
جب ریاست فروغ فرخ زاد جیسی شاعروں کی آوازوں کو جبر اور ظلم کے ساتھ چپ کراتی ہے اور مذہبی جنونیوں کے زریعے سے سماج میں آزادی اظہار کا گلہ گھونٹ دیا جاتا ہے اور عدالتوں کو سرخ گلابوں،سفید غباروں سے خطرہ محسوس ہوتا ہے تو پھر معاشرے میں وحشت کا راج ہوتا ہے۔اسے فروغ فرخ زاد،قرۃ العین طاہرہ،زیب النساء اور سلیویا پلاتھ جیسی عورتیں ایک آنکھ نہیں بھاتیں۔اورنگ زیبی ملّا کہیں بھی ہوں،چاہے ایران کے آیت اللہ ہوں،سعودی عرب کے نام نہاد بقیۃ السلف ہوں،مصر کے شيخ الازھر ہوں یا ہند و پاک کے شیخ الجامعۃ ہوں یا صدر الشریعۃ ان کو بہت غصّہ،خوف اور بہت تشویش ہوتی ہے ایسی عورتوں سے اور ایسے مردوں سے جو آزاد ہونے کا صور پھونکنے میں کمال مہارت رکھتے ہوں۔ایران میں نام نہاد جدیدیت کا علمبردار رضا شاہ پہلوی ایرانی عورتوں کی آزادی کی بہت بات کرتا تھا جیسے ہمارے ہاں مشرف اور ان کے حواریوں نے بہت باتیں کیں اور اب نواز شریف اور ان کا ہمنواء کمرشل لبرل مافیا بھی بہت کرتا ہے۔اس نے عورتوں کے پبلک میں حجاب پہننے پہ پابندی عائد کردی اور اپنے اس نمائشی عمل سے دعوی کیا کہ عورتیں آزاد ہوگئی ہیں۔لیکن فروغ فرخ زاد جیسی دانشور عورت جس نے 50ء اور 60ء جیسے ایران کے گلمیرس ماحول میں جنم لیا تھا یہ سمجھتی تھی کہ ایران میں عورتوں کا جو قانونی،روائیتی اور جسمانی باڈر /سرحد تھی مطلب پردہ وہ بکھر چکا ہے لیکن معاشرے میں سخت پدرسری اور مذہبی روایت تو اپنی جگہ قائم و دائم ہے۔ہمارے ہاں بھی کٹر واد پدر سری نظام اور ملائیت سے بھی دو ہاتھ آگے جہادیوں اور تکفیریوں کے غالب ڈسکورس سے ابھرنے والی رد ثقافت عورتوں کی آزادی کو پدرسری نظام کی تمام تر لعنتوں کے قید خانہ میں قید کیا ہوا ہے۔
مجھے حیرت ہے کہ 50ء اور 60ء کے ایرانی سماج میں زندگی گزارنے والے دانشوروں کی اکثریت یہ سمجھ چکی تھی کہ رضا شاہ پہلوی کی ملوکانہ روایت اور ایرانی مدرسوں سے آنے والی ملّائی روایت دونوں کی دونوں کو ان کے سماج کی سیاسی اور سماجی خرابیوں کو مزید خوفناک کرنے کا سبب بن رہی تھیں اور آج ہمارے ہاں ہی کیا اکثر مسلم معاشروں میں ان ہی دو روایات کا راج ہے اور ان کو بے نقاب کرنے والی آوازوں کا یا تو گلا گھونٹ دیا گیا ہے یا پھر ان کو ملک سے بھاگنے پہ مجبور کردیا گیا ہے۔ان کی شاعری ممنوعہ لٹریچر میں شمار ہوتی ہے۔کسی میں آج جرآت نہیں کہ وہ فروغ فرخ زاد کی نظم "گر می خدا بودم ” کو ایران میں پبلک میں سنائے اور وہ تو ایران ہے،میں تو یہاں ہزاروں لفظ فروغ فرخ زاد پہ لکھنے کے باوجود اس کا ترجمہ کرنے سے ڈر رہا ہوں۔ویسے جو باتیں شیخ ابن عربی نے فصوص الحکم میں ابلیس بارے میں کہیں اور جو فقرے فرعون بارے کہے آج ان کو میں آسانی سے پیش نہیں کرسکتا۔فاطمہ شمس کہتی ہے کہ وہ پندرہ سال کی تھیں جب انھوں نے ایک الماری کے خفیہ گوشے سے فروغ فرخ زاد کی ںظمیں پہلی بار پڑھیں تھیں اور یہ ان کی ماں نے چھپاکر رکھی ہوئی تھیں۔ہمارے ہاں بھی لوگ عصمت،منٹو کو چھپا چھپاکر پڑھتے رہے ہیں اور اب بھی سارا شگفتہ جیسی عورتوں کو کھلے عام پڑھنے کا رجحان نہیں ہے۔ویسے رمشاء اشرف کی شاعری کو بھی لوئر مڈل کلاس کی انگریزی سمجھنے والی لڑکیاں چھپاکر ہی پڑھتی ہیں۔
"میں دیوتا جو ہوتی جو ایک رات کی تو آکاش پہ اپنے کارندوں سے کہتی کہ سورگ میں کوثر کے پانی کا کوزہ بھرو اور کھولتے نرک کو ٹھنڈا کرنے کرنے کا سامان کرو”
"میں دیوتا ہوجاتی جو ایک رات کی تو صدیوں سے نرک میں جل رہی روحوں کو کردیتی آزاد اور آکاش پہ ستاروں کی جھلملاتی روشنی میں کرتی ان کا سواگت "
کسی ناری/نرتکی کی اندر کی ناری/نرتکی بیدار ہونے پہ ایسی خواہشوں کا جنم لینا کوئی اچنبھا نہیں ہے۔ویسے پدرسری معاشرے میں اندر کی عورت کو بیدار کرنے والی عورت کی شاعری اور اس کے فکشن پہ "نسائی ” ہونے کا لیبل لگادینا عام سی بات ہے اور اس میں بھی کہیں پدرسری مرادانہ بالادستی کی حس کی تسکین کا پہلو چھپا ہوتا ہے اور شاید یہی وجہ تھی کہ فروغ فرخ زاد ہو یا کوئی اور دانشور بیدار مغز عورت اسے اس لیبل سے نفرت ہوتی ہے اور وہ اس پہ اپنا ردعمل بھی دیتی ہے۔اور یہ تو ان عورتوں کی بات ہے جو اپنے فن میں بلوغت کے اگلے مراحل میں داخل ہوچکی ہوتی ہیں،میں تو یہاں ان عورتوں کو بھی دیکھ رہا ہوں بلکہ ان کو عورتوں سے زیادہ لڑکی بالی کہنا زیادہ درست ہوگا جو اپنی سوچ، احساس، اپنے شعور اور اپنی کچی پکی تخلیقی شعور کو سٹیریو ٹائپ پدر سرانہ تصور عورت پن سے تعبیر کرنے پہ سیخ پا ہوجاتی ہیں اور(ٹھیک ہی ہوتی ہیں اور بھلا مردوں سے داد لینے یا ملنے کو ان کے استناد دانش کا ثبوت ماننا ایک اور بڑی پدر سری جہالت ہی تو ہے) اور بھڑک کر کہتی ہیں کہ "میں کٹھ پتلی نہیں ہوں”۔اور میں یہ سنکر واہ واہ کہنے پہ مجبور ہوجاتا ہوں۔فروغ بہت طاقتور ہوگئی تھی۔16 برس کی عمر میں جب اس نے طلاق لی تو ایک بچے کی ماں بن چکی تھی۔اور اس زمانے کا ایرانی معاشرہ بھی ہماری طرح ہی تھا جس میں ایک عورت کا طلاق لینا اسے "بری عورت” کی سند دینے کے لئے کافی ثبوت تھا۔لیکن اس نے بہت طاقت کے ساتھ ان سب استعاروں سے کام لیا جن کو فتوی گیری کے لئے ملّا استعمال کرتے تھے۔یہ بلاگ پھیلتا ہی جارہا ہے۔اور مرے ذہن میں فروغ فرخ زاد کی کہی ہوئی لائن بارش کے قطروں کی طرح ٹپ ٹپ برس رہی ہیں۔اس نے ایک انٹرویو میں بڑی معصومیت سے کہا تھا:

یہ بھی پڑھئے:  منبر رسول ﷺ پر بڑھتا ہوا تفرقہ اور جھگڑے

Obviously, due to my psychological and ethical make-up and, for instance,the fact of my being a woman, I view things differently.

فرزانہ میلانی کہتی ہیں کہ فروغ کی شاعری ” ایک عورت کے دوجے پن” کی شاعری ہے۔اور وہ کہتی ہیں کہ ایک مڈل کلاس گھرانے کی عورت ایرانی معاشرے کے خاندانی اور سماجی ڈھانچے ميں ” دوجی ” ہی ہوتی ہے۔اور اسی دوجے پن سے اس کی نفسیاتی اور اخلاقی ساخت بنتی ہے۔یہ "ميں کٹھ پتلی نہیں ہوں ” جیسی آوازیں بھی عورت کے اندر سے اسی دوجے پن کی بازگشت بنکر نکلتی ہیں۔لیکن مرد و عورت کا باہمی رشتہ ایسا ہے کہ اگر ایک جگہ سے ٹوٹتا ہے تو کہیں دوسری جگہ جاکر جڑجاتا ہے اور اسی لئے فروغ اپنے خط میں اپنے شاہی کو لکھتی ہے:

Shahi , you’re the dearest thing I have in life. You’re the only one I can love Shahi, I love you and I love you to an extent that I am terrified what to do if you disappeared suddenly. I’ll become like an empty well.

"شاہی،مری زندگی میں جو سب سے عزیز تر ہے وہ تم ہو۔تم ہی ہو صرف جس سے میں پیار کرسکتی ہوں۔۔۔۔۔شاہی،آئی لو یو،اور میں تم سے اسقدر پیار کرتی ہوں کہ میں اکثر یہ سوچ کر لرز جاتی ہوں کہ اگر اچانک تم غائب ہوگئے تو مرا کیا ہوگا؟میں تو خالی کنوئیں جیسی ہوجاؤں گی "

حالیہ بلاگ پوسٹس