میرا کبھی امریکا جانا نہ ہوا اور نہ ہی شاید جا سکوں اور ٹرمپ سرکار کے بعد تو کوئی بعید نہیں کہ مُلک پاکستان کا نام بھی پابندی میں شامل ہوجائے.
میں ٹرمپ کے اس عمل کو دیکھ رہا ہوں تو بےحد ہنسی آرہی ہے یہ سوچ کرکہ کتنی آفیشل شکل ہے یہ ہمارے رویوں کی.
سن 1947 کا آغاز کُھلے دل اور آزاد فضا میں کیا تھا پر ساتھ ہی کچھ دور ایسے آئے کہ کُھلے دل اس دنیا سے جاتے رہے اور بند ذہنوں نے کُرسی سنبھال لی. کبھی سیاسی تو کبھی فوجی ہر ایک نے کُرسی سنبھالنے کی کوشش میں اس مُلک میں بسنے والی اقلیتوں سے متعلق کچھ ایسے چُھپے ہوئے فیصلے کیے جن سے وہ اکثریت میں مقبول رہے اور کُرسی محفوظ کرلی.
اگر بات کی جائے ایک پوری قوم کو باہر کرنے کی تو مثال افغان برادران کی حاضر ہے جو سالوں سے یہاں بستے ہیں اور فقط دہشت گردی کا بہانہ کرکے اُنھیں واپس جانے کا کہہ دیا گیا اور یہ عمل سال یا ڈیڑھ سال میں مکمل ہوجائے گا.
اُدھر حکومتی فری ہینڈ (جسے آفیشلی دیکھنا چاہیں تو صدر ٹرمپ کا حالیہ اقدام دیکھیں) کے نتیجے میں یہاں موجود اکثریت نے بےشمار کارنامے انجام دیے ہیں جن سے امریکا میں ہونے والے مسلمانوں پر اکثریت کے حملے شاید ہی کسی طرح میل کھا سکیں.
ایک اندازے کے مطابق سن 1947 کی 27 فیصد اقلیت آبادی اب صرف 100 فیصد رہ گئ ہے. اس میں ایک بہت بڑا ہاتھ دہشت گردی کا بھی ہے جو اقلیت و اکثریت کے لیے برابر ہے مگر پھر بھی اکثریت کے اقلیت کیخلاف بہت سے منظم واقعات اس بات کی دلیل ہیں کہ کم از کم ہمیں تو مسلم بین ٹرینڈ کرتے ہوئے کچھ شرم کرنی چاہیئے.
ان واقعات میں احمدیوں کا نمبر سرفہرست ہے جن پر ہر شہر ہر گلی میں زمین تنگ کی گئ. کبھی انکی مساجد پر حملہ کیا گیا تو کبھی آبادیوں پر، اس سب سے بھی چین نہ پایا تو ایک حاملہ کو جہلم میں زندہ جلا ڈالا اور یہاں بھی دل نہ مانا تو لاہور میں 200 قبریں مسمار کردی گئیں.
اس کے بعد مسیحی برادری پر زمین تنگ ہونے کی داستان ملتی ہے. کسی خاص قانون کے نام پر آبادیوں کی آبادیاں، عبادت خانے اجاڑ دیئے گئے حتیٰ کہ کوٹ رادھا کشن کی کسی بھٹی میں مسیحی جوڑے کو پھینک دیا گیا. کبھی اکثریت کے کٹورے میں پانی پینے پر آسیہ کو در در گھما کر سولی پر چڑھانے کا فیصلہ دے دیا گیا تو کبھی آسیہ سے اظہار ہمدردی کے جرم میں خود اکثریتی فرد کو دن دھاڑے قتل کردیا گیا.
یہ تمام سلسلے یونہی چلتے رہے اور ملک کی ہندو برادری کو بھی بھارت میں ہونے والے مظالم کا جواب یہاں سہنا پڑا. اپنی ہوس و درندگی کے لیے سندھ دھرتی سے متعدد ہندو خواتین کو جبری مسلمان کیا گیا اور شادیاں کرلی گئیں، بابری مسجد بھارت میں مسمار ہوئی اور کراچی سمیت سندھ بھر میں موجود 26 مندر جلادیے گئے.
ان سب باتوں کا لکھنا صدر ٹرمپ کے اقدام کو سراہنا یا اُس کی کوئی تاویل پیش کرنا ہر گز نہیں مگر جب آپ امریکا سمیت مختلف غیر مسلم ممالک میں اس اقدام کیخلاف احتجاج دیکھ رہے ہیں تو یہ بھی یاد رکھیں کہ اُن تمام احتجاجوں کی نمائندگی غیرمسلم کررہے ہیں اور صدر کو سخت الفاظ کا نشانہ بنا رہے ہیں. تو بھیا! کبھی آپ نے شرم سے یا غلطی سے ہی اپنے ملک میں ناروا سلوک کی مخالفت کی؟ کسی حملے پر کبھی اس طرح احتجاج کیا؟ کبھی حکام بالا سے جواب طلب کیا؟
یہ سوچنا چاہیئے!
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn