الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا بشمول سوشل میڈیا پر حلب کا نوحہ پڑھا جا رہاہے، شام کے صدر بشار الااسد کوانتہائی نامناسب القابات سے پکارا جا رہا ہے، کافر،فاسق،فاجر اور قاتل تو معمولی الفاظ ہیں، پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر بشارالااسد کے دشمن کے حملہ میں ہلاک ہونے کی بازگشت بھی سنائی دی، لیکن تھوڑی دیر بعد ہی مجاہدین اور ان کے حامیان کو اس خوش خبری کی تردید کرنا پڑی۔ تردید کی صورت میں ہزیمت اٹھانا پڑی۔
حلب شہر شام کا دوسرا بڑا شہر ہے، دوہزار گیارہ سے یہ شہر خانہ جنگی کی لپیٹ میں ہے، پہلے اس پر بشارالااسد کے باغیوں کا قبضہ تھا لیکن اب شہر مکمل طور پر بشارالاسد کی حامی فوجوں کے زیر کنٹرول ہے۔ اور ہر طرف رونقیں لوٹ آئی ہیں، شہریوں کے چہروں پر زندگی لوٹ آنے کے آثار دکھائی دیتے ہیں۔ جس کا اظہار حلب شہر اور حوریہ شہر کی مقامی فٹبال ٹیموں کے درمیان میچ کا انعقاد ہونا ہے۔ پہلے شہر منقسم تھا مگر اب حلب کے منقسم ہونے کے کوئی شواہد نظر نہیں آتے۔ ہر طرف خوشیاں رقصاں ہیں،لوگ اپنے اپنے کاموں اور کاروبار میں مصروف ہیں۔گو حلب کے درودیوار خانہ جنگی سے تباہ حالی کی تصویر پیش کرتے ہیں،لیکن جنگ اور محبت میں سب جائز تصور کیا جاتا ہے۔
حلب شہر شام کا قدیمی شہر ہے تجارتی لحاظ سے بھی مرکزی حثیت کا حامل رہا ہے، بغداد جانے والے تجارتی قافلے اسے شہر سے ہوکر گزرتے تھے،ایک ہزار سال قبل مسیح بھی اسے بہت اہمیت حاصل رہی ہے،متعدد قوموں کے زیر تسلط رہنے سے بھی یہاں کی ثقافت ،تہذیب و تمدن حاص توجہ کا محور رہا ہے۔حلب اور دیگر شامی چہروں میں گذشتہ پانچ برسوں سے انسانیت سسک رہی ہے،اب جا کر حالات بہتری کی جانب گامزن ہیں تو بشارالاسد کی دشمنی میں باغی اور ان کے مخالفین نے آسمان سر پر اٹھا رکھا ہے،ان کا دکھ یہ ہے کہ حلب باغیوں کے قبضے سے نکل کیوں گیا ہے۔شام اور عراق کو لیکر واویلا کرنے والوں کو برما یعنی میانمار میں مسلمانوں کی نسل کشی کی کوئی فکر نہیں اور نہ ہی انہیں بحرین میں مسلمانوں کی جمہوری تحریک کو کچلنے کے لیے کیے گئے مظالم دکھائی نہیں دیتے، یمن پر انتالیس ملکی فوجی اتحاد کے یلغار کے نتیجے میں مرنے والے ہزاروں افراد کے غم میں ایک آنسو بہانے کی فرصت نہیں ہے۔
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق یمن میں اس وقت ایک کروڑ چالیس لاکھ افراد کو غذائی قلت کا سامنا ہے جن میں بیس لاکھ بچے بھی شامل ہیں،اقوام متحدہ کے نمائندے کے مطابق یمن میں صرف تین ماہ کے لیے غذا موجود ہے،اگر اقوام متحدہ کے رکن ممالک نے یمن کو درپیش غذائی بحران سے نکالنے کے لیے پیش رفت نہ کی تو یمن میں قحط پڑنے کا خطرہ بدرجہ اتم موجود ہے اور رہے گا،یمن پر فضائی حملے کرتے وقت کسی قسم کی تمیز اور تفریق نہیں کی جاتی بلکہ بلا تفریق حملے جاری ہیں۔ جس سے سکول ،ہسپتال بچے بوڑھے اور خواتین نشانہ بنتے ہیں۔
اقوام متحدہ کو اس انسانی مسئلے کی جانب فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے اور پاکستان کی حکومت و انسانی حقوق کی عالمی تنظیمات کو بھی اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔اقوام متحدہ کو یمن اور شام میں فریقین کو مذاکرات کی میز پر لانے میں اپنا کلیدی کردار ادا کرنے میں مزید تاخیر نہیں کرنی چاہیے، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے قرارداد امن منظور کروا نی چاہیے اور پھر جو فریق اس پر عمل کرنے سے انکاری ہو تو اسے کٹہرے میں لایا جائے، اور ایسا نہ برتاو کیا جائے جیسا اسرائیل سے کیا جا رہا ہے۔
یمن ،شام اور دیگر متحارب اسلامی ممالک میں صلح صفائی کے لیے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف بھی اہم کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں ہیں، انتالیس ملکی فوجی اتحاد کی کمانڈ سنبھالنے کو ان ممالک میں قیام امن سے مشروط کرنا چاہیے، اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر سعودی پیشکش پر نظرثانی کی جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کے غیر متنازعہ آرمی چیف کے لیے انتالیس ملکی اتحاد کے لیے خدمات سرانجام دینا مشکل ہوجائے گا۔
آپس میں جنگ و جدال میں مصروف ہونے کے باعث ہی ہندوستان، میانمار، ودیگر ممالک میں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی جا رہی ہے ،مسلمانوں کو جانوروں کی طرح ذبح کرکے ان کے سر تن سے جدا کرکے لاشوں کی بے حرمتی ایک معمول بنا لیا گیا ہے، حیرت اس بات کی ہے کہ کسی کونے سے بھی اس ظلم و بربریت کے خلاف نحیف آوازہی سہی بلند نہیں ہو رہی جس سے ظالم ہندوستان ، میانمار،اور دیگر ممالک کے حکمرانوں کے حواصلے بلند ہو رہے ہیں۔
اسلامی ممالک کے سربراہان کی بے حسی کا یہ عالم ہے کہ کسی نے بھی اسلامی کانفرنس کا اجلاس بلانے کا مطالبہ نہیں کیا، ان حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلامی کانفرنس کا اجلاس بلا کر تمام متنازعہ مسائل وہاں حل کیے جائیں اور اپنی قوت کو سنبھال کر رکھا جائے،سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسلامی ممالک اپنی فوجی طاقت کس کے خلاف استمعال کریں گے؟ کیونکہ بھارت اور اسرائیل سے ہمارے اسلامی خصوصا عرب ممالک کے تعلقات بہتر ہو گئے ہیں، سعودی عرب ،متحدہ عرب امارات سمیت دیگر ممالک میں پاکستانیوں سے کہیں زیادہ بھارتی موجودہیں اور یہ ممالک بھارت میں سرمایہ کاری بھی کر رہے ہیں ،اس سرمایہ کاری کے مقابلے میں پاکستان میں ان ممالک کی سرمایہ کاری کچھ بھی نہیں ، صرف دبئی میں بھارتیوں کی سرمایہ کاری 12 ارب اماراتی ریال ہے جبکہ پاکستانی سرمایہ کاروں نے 8 ارب اماراتی ریال کی سرمایہ کاری ہے ، اس صورتحال میں ہمارے اسلامی بھائی بھلا کیسے انہیں نظرانداز کر سکتے ہیں۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn