عورت کمزور ہے، کم عقل ہے، شاطر ہے، شازشی ہے، دھوکہ ہے۔ یہ ہے ہمارے ہاں کے مردوں کی عورت کے بارے میں عام رائے مگر عجیب بات ہے کہ انہی مردوں کو یہ ناقص مگر خطرناک مخلوق مرغوب بھی بہت ہے۔ کئی تو ایسے بھی ہیں جو اسکی ایک جھلک دیکھنے کو مرے جاتے ہیں۔ ایک جانب عورت کے ناقص اور شاطر ہونے کے پریقین دعوے اور دوسری جانب اس کے برعکس یہ ڈینگ کہ جناب یہ ہمارا مذہب ہی ہے جس نے عورت کو سب سے زیادہ احترام اور ارفع مقام بخشا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جس عورت کو امام غزالی کے بقول خدا نے اماں حوا کے صرف ایک گناہ (جس میں آدم بھی برابرا کا شریک تھا) کی پاداش میں قیامت تک اٹھارہ سزاؤں کا مستحق ٹھہرایا ہو، وہ مذہب کی نظر میں قابلِ احترام کیونکر ہوسکتی ہے؟
عربی زبان جو کہ ہمارے مذہب کی ماخذ ہے اس میں عورت کا مطلب ہے داغ، دھبہ، ناقص، نامکمل۔ عورت کے لفظ سے بدن کے وہ تمام حصے بھی مراد لئے جاتے ہیں جن کے دیکھنے دکھانے سے شرم آتی ہو۔ عربی کے بعد اسلام پر سب سے زیادہ اثر فارسی زبان کا ہے جس میں عورت کا مطلب ہی ننگ،عریانی اور شرم ہے۔ اسی لئے عوتوں کے لیے لفظ مستورات بھی مستعمل ہے جس کا واحد مستور ہے یعنی پوشیدہ۔ یاد رہے کہ مستور کا لفظ ستر سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے بدن کے وہ حصے جن سے شرم کا تصور وابستہ ہو۔ اس لحاظ سے دیکھیں تو عورت کے پورے بدن سے شرم کا تصور جوڑ دیا گیا۔ فارسی زبان میں عورت کو ضعیفح (za’ifeh)کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے، جو کہ عربی کے لفظ دئیف (ضعیف) سے مشتق ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں میں رواج پانے والی زبان اُردو نے انہی دو زبانوں کے اتصال سے اپنی الگ شناخت بنائی کیونکہ اسلام انہی دو زبانوں کے کاندھوں پہ بیٹھ کر برصغیر میں داخل ہواتھا۔ہاں یاد آیا ، ایک تیسری زبان ترکی بھی تھی، جس میں عورت کا لفظ بیوی کے معنوں میں مستعمل ہے۔
ظاہر ہے کہ کوئی زبان آسمان سے نہیں اترتی بلکہ انسانوں کے آپسی معاملات اور تجربات سے پھوٹتی، پنپتی اور راسخ ہوتی ہے۔لفظ انسانی سوچ کے عکاس ہوتے ہیں۔ اس زاوئیے سے دیکھیں تو صاف معلوم ہوگا کہ ہمارے ہاں انسانی مادہ کے لیے رائج الفاظ سراسر مردانہ تعصب کا گھٹیا اظہار ہیں جن کے ذریعے عورت کو کم تردرجے کی مخلوق ثابت کرنے کی خواہش صاف دکھائی دیتی ہے۔ اسی خواہش کا ایک شاخسانہ وہ افسانہ بھی ہے جس میں حوا کا آدم کی پسلی سے پیدا ہونا بتایا گیا اور خود عورتوں نے بھی اسے ایمان کی طرح قبول کرلیا۔ یہ بھی نہیں سوچا کہ اس اساطیری قصے نے ان کی حیثیت کو کس سطح پر پٹخ دیا ہے۔
تو کیا عورت واقعی کمزور ہے، کم عقل ہے، شاطر ہے، شازشی ہے، چلترباز ہے، دھوکہ ہے؟ جی ہاں بدقسمتی سے عورت ایسی ہی ہے مگر اس الزام کو درست ماننے کے ساتھ ساتھ اس جرم کا اعتراف بھی ضروری ہے کہ عورت کو ایسا بنانے میں مرد نے ہزارہا برس محنت کی تب کہیں جاکر وہ عورت کو ایک ناقص اور منفی وجود میں ڈھالنے میں کامیاب ہوا۔اصل شازشی تو مرد تھا اور ہے جس نے اپنی طاقت میں بڑھاوے کے لئے عورت کو مسلسل کمزور کیا۔ ہاں یہ الگ بات کہ عورت خود اپنے خلاف مرد کے اس غیرانسانی منصوبے میں اس کی معاون بن گئی اور خود پر پابندیاں قبول کرکے گھر کی چاردیواری میں بند ہو کر باہر کی دنیا سے کٹ گئی۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ عورت کی اس قید میں خود اس کی اپنی تن آسانی کا عمل دخل بھی تھا۔ اور یہ بھی کہ مرد کی جانب سے ڈرائی گئی عورت نے یہی مناسب جانا کہ گھر ہی اس کے لیے محفوظ پناہ گاہ ہے۔
(کتاب سیکس اور سماج سے اقتباس)
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn