Qalamkar Website Header Image
Gurmani

قلم کار کا سفر

Rizwan Zafar Gurmaniمجھے اک مؤقر روزنامے میں ہفتہ وار کالم لکھتے تقریبا اک سال ہونے والا ہے اکثر دوست مجھ سے سوال پوچھتے ہیں کہ لکھاری بننے کیلیے ہمیں کیا کرنا چاہییے
میرا ذاتی خیال ہے کہ لکھنے کیلیے پڑھنا بہت ضروری ہے مطالعہ آپ کے ذہن کی ورزش ہے کتب بینی سے آپ کی سوچ کے در وا ہوتے ہیں کتاب آپ کے علم میں اضافے کا سبب تو بنتی ہی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ آپ کی سوچنے کی استعداد کو بڑھاتی ہے
مطالعہ آپ کے دنیا کو دیکھنے کے نظریے کو تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے
مطالعہ آپ کو غور و فکر پر اکساتا ہے آپ کا نظریہ بناتا ہے
تاریخ فلسفہ بڑی تحریکیں انقلاب کی داستانوں کے ساتھ عظیم اور نامور لوگوں کی آپ بیتیاں آپ کو دنیا کے حالات و واقعات کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں جنگوں کی روداد کا مطالعہ ممالک کے درمیان تعلقات دنیا میں رائج حکومتی ڈھانچے جغرافیائی اہمیت عالمی مسائل اور دیگر کے بارے میں آپ کے خیالات و افکار کو بہتر بنانے میں معاون ہوتا ہے
کسی بھی موضوع پہ لکھنے کیلیے سب سے بنیادی چیز اس موضوع کے متعلق آپ کی معلومات ہوتی ہیں جو ظاہر ہے مطالعہ کے بغیر ناممکن ہے اس کے بعد الفاظ کا چناؤ لکھاری کو لکھتے وقت یہ چیز مدنظر رکھنی ہوتی ہے کہ وه عام فہم الفاظ و زبان کا چناؤ کرے جو ہر قسم کے قاری کیلیے قابل فہم ہو
نئے لکھاریوں کو چاہیے کہ وه کسی بھی واقعے خبر یا مضمون کو پڑھنے کے بعد اپنے الفاظ میں لکھنے کی مشق کریں پھر اس کا اصل مضمون کے ساتھ موازنہ کریں اس کے علاوه اپنی سوچ کو وسعت دینے کیلیے کسی بھی چیز کے مختلف پہلووں پہ غور کریں
آپ اک بال پین کو مثال طور پر لے لیں اور کوشش کریں کہ اس کے متعلق آپ کیا لکھ سکتے ہیں بال پین کی شکل و صورت رنگ کمپنی قیمت کس رنگ میں لکھتا ہے کہاں کہاں دستیاب ہے کتنا دیرپا ہے وغیره وغیره
میرا ماننا ہے کہ کسی بھی لکھاری کی تحریر اگر پراثر نہیں تو اس کا کوئی فائده نہیں اور تحریر میں اثرانگیزی کیلیے سچائی اور غیر جانبداری بنیادی اجزائے ترکیبی ہیں
میرے ایک اہل علم دوست ملک قمرعباس اعوان نے ایک دن مجھے کال کر کے انٹرنیٹ پر موجود بلاگ سائیٹ پہ نئے لکھاریوں کو درپیش مسائل سے آگاه کیا اور نئے لکھنے والوں کو ایک پلیٹ فارم مہیا کرنے کی اپنی خواہش کا اظہار کیا میں نے پاکستان یونین آف کالمسٹ کے جنرل سیکریٹری اور قمر اعوان اور میرے مشترکہ دوست صدیف گیلانی سے بات کی اور یوں ہم تینوں نے مل کر اپنی ویب سائٹ کے منصوبے پر کام کا آغاز کیا ہم تینوں نے اپنے دوستوں سے مشوره کیا اورعامر راہداری ذیشان نقوی محترمہ زرینہ اشرف سمیت سب دوستوں نے حوصلہ افزائی کی
ہمارے لیے استاد کا درجہ رکھنے والے سینئر صحافی اور کالم نگارجناب حیدر جاوید سید نے ہماری درخواست پر ایڈیٹر کے فرائض سنبھالنے پر اپنی آمادگی ظاہر کی تو ہمارے حوصلے مزید بلند ہو گئے۔
سینئر صحافی اور کالم نگار جناب محمد عامر حسینی بھائی جو اک انٹرنیشنل جریدے کے ساتھ منسلک ہیں نے انتہائی مصروفیت کے باوجود کمال شفقت کا مظاہره کرتے ہوئے قلم کار کے ایڈیٹوریل بورڈ کے ہیڈ کے طور پر اپنی خدمات پیش کیں
ٹیکنیکل ضروریات مکمل ہونے کے بعد 3 اور 4 شعبان کی سعادت بھری درمیانی شب کو ہماری ویب سائیٹ کی لانچنگ ہوئی جس کیلیے ہمیں معروف شاعره اور فصیل ضبط کی مصنفہ محترمہ فرح رضوی بینکنگ جیسے خشک شعبہ میں خدمات سرانجام دینے والی ادیبہ محترمہ ام رباب نوجوان شاعره محترمہ سحر بخاری ،اہل علم اور مزاح میں منفرد مقام رکھنے والے زاہد شجاع بٹ نوجوان صحافی توقیر ساجد، کری ایٹو رائٹر محترمہ ثناء بتول سمیت کئی دوستوں نے اپنی تحاریر ارسال کیں
ویب سائیٹ لانچ ہونے کے بعد کئی ٹیلنٹدلکھاریوں نے اپنی متاثر کن تحاریر ارسال کیں جن میں محترمہ آمنہ احسن، جری رضا، سلیم خان رند، معظم جتوئی محمود فیاض و دیگر شامل ہیں
سینئر صحافی اور کالم نگار رؤف کلاسره صاحب نے اپنے کالم عنایت کر کے حوصلہ افزائی کی اور یوں قلمکار اپنے سفر پر گامزن ہے
بطور ممبر ایڈیٹوریل بورڈ قلمکار میں اپنے تمام لکھنے والوں کا مشکور ہوں اور نئے لکھنے والوں کو خوش آمدید کہتاہوں. امید ہے ہم سب مل کر قلمکار کو کامیاب اور معیاری بلاگ ویب سائٹ بنائیں گے انشاءاللہ

حالیہ بلاگ پوسٹس