آج سے چند روز قبل پاکستانیوں کی اکثریت بھینسا نام کے کسی بھی سوشل میڈیا پیج سے نا واقف تھی۔ اس نام سے آشنائی تب ہوئی جب اس پر توہین مذہب کا لیبل لگا کر تبصروں، لعن طعن اور چھترول کے لیے سوشل میڈیا کی نابالغ عدالت میں پیش کیا گیا۔ ثبوت کے طور پر چند تکفیری کلمات کو لاپتہ بلاگر سلمان حیدر کی تصویر کے ساتھ فوٹوشاپ کر کے پیش کیا گیا جس کی حقیقت جانے بغیر لاکھوں افراد اسے دوسروں کے ساتھ شیئر کر رہے ہیں۔ اس سارے معاملے میں ہم عوام کچھ باتوں کو نظر انداز کر رہے ہیں جن پر غور وفکر وقت کی اہم ضرورت ہے۔
پاکستان میں سوشل میڈیا بشمول ٹویٹر، فیس بک اور انسٹاگرام کو جوائن کرنے کے لیے کسی مصدقہ شناخت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس کے صارفین کی تعداد کروڑوں میں ہے اور لاکھوں لوگ اس کو جعلی نام، جنس اور پتے کے ساتھ استعمال کر رہے ہیں۔ اس پر گردش کرنے والی خبر اخبارات اور ٹی وی چینلز سے بھی زیادہ سرعت سے ہر صارف تک پہنچ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سوشل میڈیا نا صرف معلومات تک تیز ترین رسائی کا ذریعہ ہے بلکہ پراپیگنڈے اور جھوٹ کے پرچار کا بھی اہم پلیٹ فارم ہے۔ کوئی کسی کی تصویر لے کر اس کے نام سے آئی ڈی بنا کر توہین آمیز مواد شیئر کر سکتا ہے۔ جب تک حقیقت سامنے آتی ہے یا قا نون حرکت میں آتا ہے ناسمجھ لوگ اپنا فیصلہ سنا چکے ہوتے ہیں۔
دوسری غور طلب بات یہاں کے لوگ مسلک اور مذہب کے معاملہ میں بے حد جذباتی ہیں۔ خصوصا توہین مذہب کا معاملہ ہو تو بغیر سوچے سمجھے کفر کے فتوے جاری کرنا اور قانون ہاتھوں میں لینا باعث اعزاز سمجھا جاتا ہے۔ ماضی میں ایسے واقعات کی مثالیں موجود ہیں جب کسی ایک شخص کی غیر ثابت شدہ غلطی کی سزا پوری بستی جلا کر دی گئی۔ ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ ذاتی عناد کی وجہ سےکسی بے قصور کو توہین مذہب کا لیبل لگا کر انتقام کی آگ ٹھنڈی کی گئی۔
تیسرا اہم مسئلہ پاکستان میں ماورائے آئین و قانون لوگوں کا غائب کیا جانا ہے۔ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے اعلی عدلیہ نے نوٹس بھی لیے اور احکامات بھی جاری کیے۔ پیدل لانگ مارچ بھی ہوئے لیکن ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے۔
اب ہم پہلی بات کی طرف آتے ہیں۔ چند روز قبل کچھ بلاگرز لاپتہ ہوئے۔ معاملہ انٹرنیشنل میڈیا نے اٹھایا۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں حرکت میں آئیں۔ عوامی ردعمل کے پیش نظر مذہبی کارڈ استعمال کرتے ہوئے سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم پر بلاگرز کو بدنام کرنے کی مہم شروع کی گئی۔ جس سے سوشل میڈیا پر موجود عوام کی توپوں کا رخ کسی اور طرف ہو گیا لیکن عالمی طاقتیں او میڈیا پورے واقعے پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔
وزیر داخلہ چوہدری نثار فرماتے ہیں کہ لوگوں کو غائب کرنا حکومتی پالیسی نہیں۔ تو جناب بتایا جائے کہ یہ کس کی پالیسی ہے کیونکہ لوگ تو غائب ہوتے رہے ہیں اور ہو رہے ہیں۔ خدارا آئین پاکستان کی یوں تذلیل نہ کریں۔ اگر ان بلاگرز نے ملکی سلامتی کے خلاف کوئی کام کیا ہے یا واقعی توہین مذہب کی ہے تو ان کے مقدمات عدالتوں میں پیش کیے جائیں۔ ماورائے آئین اقدامات سے پوری دنیا میں پاکستان کی جگ ہنسائی ہو رہی ہے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn