Qalamkar Website Header Image

مادھو لعل ؒ کے شہر سے سندھ کنارے تک (آخری حصہ) – قمر عباس اعوان

رات کو صدیف اور رضوان کو اس ہدایت کے ساتھ روانہ کیا کہ جاتے ہوئے نیچے ہوٹل والے کو کہہ کر جائیں کہ صبح ٹھیک سات بجے ہمیں بیڈ ٹی دے دے۔ دونوں نے حامی بھری اور سونے کے لئے گھر رخصت ہو گئے۔ تین گھنٹوں کی نیند سے کچھ فرق تو پڑا تھا لیکن سات گھنٹے کے سفر کی تھکان تین گھنٹے کی نیند سے جانے والی نہیں تھی۔ ہم بھی سو گئے۔ صبح ہم تینوں ہی 7 بجے کے قریب جاگ چکے تھے۔ سات بجے لگے کرنے چائے کا انتطار۔ سات سے ساڑھے سات ہو گئے لیکن چائے کا دور دور تک اتا پتہ نہ تھا۔ ہوٹل روم میں ٹیلی فون ایکسٹینشن نام کی چیز سرے سے موجود نہ تھی۔ آخر بے پناہ انتطار کے بعد گورمانی کو کال ملائی اور اسے کہا کہ بھائی ہوٹل والے کو چائے کا نہیں کہا تھا؟تب گورمانی کو یاد آیا کہ اس نے ہمیں یہ بتایا ہی نہیں کہ ہوٹل والے کہہ رہے ہیں کہ صبح 11 بجے سے پہلے تو ہوٹل کھلتا ہی نہیں اور اس کے بعد ہی ملے گا جو بھی ملے گا۔ تب ہم نے کہا کہ بھائی صاحب بات یہ ہے کہ چائے کے بنا تو ہم نہیں ہلنے والے۔ جیسے بھی ہے بندوبست کرو۔ صدیف کی کال آئی کہ تیار ہو کر ناشتے کے لئے گھر جانا ہے وہاں ہی چائے بھی پی جائے گی۔ لیکن چائے ہمارے لئے ایسے ہی ہے جیسے گاڑی کے لئے پٹرول۔ ہم نے تو کیا صاف انکار اور اسے کہا کہ بھائی چاہے پہنچاؤ جیسے بھی ہو پھر ہی ناشتہ ہو گا۔ خیر صدیف اور گورمانی دونوں آدھے گھنٹے میں پہنچ گئے اور ساتھ چائے کا تھرماس لے کر آئے۔ تیار ہو کر صدیف کے گھر پہنچے اور اور وہاں ناشتہ کیا۔ ڈاکٹر عباس برمانی ڈی جی خان سے صبح سویرے ہی روانہ ہو چکے تھے۔ 10 بجے ملاقات کا پلان تیار تھا۔ لیکن صاف نظر آرہا تھا کہ ہم وقت پر نہیں پہنچ پائیں گے۔ ڈاکٹر صاحب بھی کچھ لیٹ تھے لیکن ہم خیر ان کے بھی بعد پہنچے۔ وہاں سے دریائے سندھ کے کنارے بنے ایریگیشن کے دفتر میں جا کر دھوپ میں بیٹھ گئے اور چائے سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ ساتھ عامر بھائی کی باتیں سنتے رہے۔ اصل میں وہاں بیٹھنے کا مقصد سرائیکی شاعر اصغر گورمانی کا انتظار کرنا تھا۔ وہ آتے تو ہم وہاں سے صدیف کے کھیتوں میں بنے ڈیرے پر چلے جاتے۔ دوپہر کے کھانے کا انتظام صدیف نے اپنے ڈیرے پر کیا ہوا تھا۔ کچھ انتظار کے بعد اصغر گورمانی صاحب اسلم گورمانی اور ناظم شاہ کے ساتھ تشریف لائے۔ کچھ دیر بیٹھنے کے بعد ہم وہاں سے نکلے اور سندھ کے دوسرے کنارے پر بنے صدیف کے ڈیرے کی طرف روانہ ہوگئے۔ دریائے سندھ کو پار کر کے مین روڈ کو چھوڑ کر گاڑیاں کچے راستوں پر چلتی ہوئی صدیف کے ڈیرے پر جا رکیں۔ وہاں دھوپ میں بچھی چارپائیوں اور کرسیوں پر سب براجمان ہوئے اور باتوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ چل نکلا۔ وسیب کے لوگ جب بھی ملتے ہیں الگ الگ ہر بندے سے اس کا حال چال دریافت کرتے ہیں اور نہ صرف اس کا بلکہ محفل میں بیٹھے ہر بندے کا حال احوال الگ الگ اس کے خاندان سمیت پوچھتے ہیں۔ دریائے سندھ کنارے بیٹھے وسیب باسیوں کی گفتگو کا رخ تھوڑی ہی دیر میں وسیب کے مسائل اور وہاں کی لیڈرشپ کی طرف پھر گیا اور پھر انہوں نے خوب باتیں اسی موضوع پر کیں۔ نان سرائیکی ہونے کی وجہ سے ان کی اکثر ٹھیٹھ سرائیکی میں کی جانے والی باتیں سر کے کافی زیادہ اوپر سے گزر جاتی تھیں۔ وسیب کے گھمبیر مسائل کے حوالے سے سیر حاصل گفتگو کے بعد باتیں مزاح کی طرف نکل پڑیں۔ مرشدی حیدر جاوید نے اپنے طویل صحافتی کیرئیر میں پیش آنے والے بہت سے قصے سنائے۔ اصغر گورمانی کے پاس بھی پرمزاح باتوں کی کمی نہ تھی اور عامر حسینی بھائی کے تو کیا ہی کہنے! محفل جب بھی حد سے زیادہ سنجیدگی کی طرف جا رہی ہوتی عامر بھائی ہی اسے اپنی کسی نہ کسی پرمزاح بات سے روٹین کی طرف لے آتے۔ 
باتوں کے ساتھ ساتھ گزرتے وقت کا سب سے زیادہ شدت سے انتظار مجھے اور عامر حسینی کو تھا۔ عامر بھائی نے شام کو ہر حال میں خانیوال پہنچنا تھا۔ ایک تو ان کے چھوٹے بیٹے کی طبعیت خراب تھی دوسرا ان کی والدہ کی صحت بھی ٹھیک نہیں تھی۔(ان کی والدہ کا آپریشن بھی ہوا اسی دن ۔ اس کی اطلاع ان کو کوٹ ادو سے ملتان واپسی پر راستے میں ملی۔ لیکن چونکہ میری ملتان میں ملاقات تھی اس لئے انہوں نے مجھے بالکل بھی نہیں بتایا کہ یہ پریشان ہو گا اور پروگرام کینسل کر کے آگے چل پڑے گا) مجھے جلدی اس لئے تھی کہ میری رات 10 بجے کی واپسی کی ٹکٹ بک تھی۔ اور اس کے علاوہ میں نے ملتان میں شاکر حسین شاکر صاحب سے بھی ملنا تھا اور ڈاکٹر زری اشرف سے بھی۔ بلکہ میرا رات کا کھانا انھی کی طرف تھا۔
دوپہر کا کھانا پروگرام سے لیٹ شروع ہوا۔ کھانے میں صدیف نے اچھا خاصا اہتمام کررکھا تھا۔ کھانے کے بعد چائے کا دور چلا اور پھر میں نے عامر بھائی سے بات کی اور پروگرام بنایا کہ اب چلنا چاہیے۔ اسلم گورمانی صاحب نے بہت اصرار کیا کہ ان کے ساتھ ان کے ڈیرے پر چلیں اور وہاں ڈنر میں سجی کی دعوت سے لطف اندوز ہوں لیکن ہمیں اگلے دن کی مصروفیات کے پیشِ نظر ان سے معذرت کرنا پڑی اور پھر کبھی چکر لگانے کا وعدہ ہوا۔ امید ہے ہم جلد یہ وعدہ پورا کریں گے۔ گروپ فوٹو بنانے کے بعد سب لوگ رخصت ہوئے اور صدیف ہمیں لے کر واپس ہوٹل آگیا۔ ہم نے واپسی کی تیاری پکڑی کہ گورمانی نے کہا کہ رک جائیں ایک دوست آرہا ہے اور اس نے ملتان جانا ہے۔ آپ لوگ اس کے ساتھ اس کی گاڑی میں چلے جائیں تاکہ وقت پر پہنچ سکیں۔ ہم نے اس دوست کا انتظار کرنا شروع کردیا اور ساتھ میں پھر سے باتیں شروع ہو گئیں۔ آدھے گھنٹے بعد گورمانی کا دوست پہنچا۔ کچھ دیر باتیں چلتی رہیں اورپھر پتہ چلا کہ اس کے دوست نے ابھی راستے میں کہیں رکنا ہے اور رات کو لیٹ ملتان پہنچنا ہے۔ ہمارا وقت پہلے ہی کم تھا اس لئے ہم نےلوکل ٹرانسپورٹ پر جانے کو ترجیح دی۔ کوٹ ادو شہر سے ہم نے گاڑی کی بکنگ کروائی اور ملتان کی طرف روانہ ہوگئے۔

یہ بھی پڑھئے:  مسلے پھول | شاہانہ جاوید

ہمارا ارادہ تو یہ تھا کہ کوٹ ادو سے تین بجے کے بعد ملتان کے لئے روانہ ہوں گے اور میں ملتان رک جاؤں گا اور عامر بھائی وہاں سے خانیوال چلے جائیں گے۔ کچھ دوست رابطے میں تھے کہ ان سے ملاقات ہوجائے۔ لیکن کوٹ ادو سے نکلتے نکلتے ہمیں چھ بج گئے۔ اسی تاخیر کے سبب ہم نے بجائے وین سروس کے جانے کے کار بک کروا لی تاکہ وقت پر پہنچ سکیں۔ کار والے نے ہمیں ڈیڑگھ گھنٹے سے کچھ زیادہ وقت میں ملتان پہنچا دیا۔ ہم کار سے شاکر حسین شاکر صاحب کی بک ہوم کے سامنے اترے۔ شاکر صاحب سے ملاقات ہوئی اور کچھ ہی دیر میں ہم نے ڈھیر ساری باتیں کیں۔ عامر حسینی نے وہاں سے مجھے کشور ناہید کی نوٹ بک لے کر تحفے میں دی۔ ڈاکٹر صاحبہ کو میں بتا چکا تھا کہ میں ملتان پہنچ چکا ہوں۔ اس کے علاوہ ریحان نقوی سے بات ہوئی کہ وہ بھی آ جائے۔ ریحان نقوی بلاشبہ ایک ذہین نوجوان ہے۔ اتنی چھوٹی عمر میں ایسی ایسی باتیں کرتا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ اس عمر میں ہم نے ایسی کتابوں کے نام کسی سے نہیں سنے تھے جن کو وہ پڑھ بھی چکا تھا۔ کچھ ہی دیر میں وہ اپنے دو دوستوں (شائد اسکا بھائی اور دوست تھے) کے ہمراہ دکان میں آیا۔ دکھنے میں میرے سے کچھ زیادہ ہی صحت مند ہے۔بہت پیارا نوجوان ہے۔ پتہ نہیں ہم سے مل کر کیوں شرما سا رہا تھا۔ میری دلی خواہش تھی کہ اس سے ملاقات ہو جاتی اور وہ ہوگئی حالانکہ اس سے پہلے وہ لاہور آیا اور بنا ملے ہی چلا گیا تھا۔ 8 بجے کے قریب ڈاکٹر صاحبہ بمعہ لائبہ زینب مجھے وہاں سے لینے آ گئیں۔ سلام دعا کے بعد وہاں سے رختِ سفر باندھا۔ اب جب گاڑی کے قریب آئے تو لاک نے کھلنے سے انکار کر دیا۔ پھر لائبہ پتہ نہیں سائڈ پر جا کر کیا جادو کر کے آئی کہ لاک کھل گیا۔(مجھے شک ہے کہ اس نے خود کالے علم میں کوئی ڈگری حاصل کی ہوئی ہے اور اسی کا کوئی منتر سائڈ پر جا کر پڑھ کر آئی تھی) خیر وہاں سے روانہ ہوئے تو میں نے اس کی ڈرائیونگ دیکھ کر اسے فوراََ تنبیہہ کی کہ دیکھو میں نے ابھی دنیا میں کچھ بھی نہیں دیکھا اور یہاں تک کہ شادی بھی نہیں ہو رہی۔ اس لئے مجھے صحیح سلامت ہی اڈے تک پہنچائے۔ اسے جلدی میرے پاس موجود وقت کی قلت کی بنا پر تھی۔ بالآخر پتہ نہیں کہاں کہاں سے گھماتی ہوئی کے۔ ایف۔ سی لے گئی اور مجھے اور زری کو بٹھا کر خود کھانا لینے کی لائن میں جا لگی (آپ لوگ کسی مفت دسترخوان والے کھانے کے فرینچائز کا نہ سمجھئے گا کے۔ ایف۔ سی کے کاؤنٹر کی بات کر رہا ہوں) تھوڑی دیر بعد زری اشرف اپنے حصے کی گپیں مارنے کے بعد مجھے لائبہ کے رحم و کرم پر چھوڑ کر یہ جا وہ جا۔ خیر کھانے سے فارغ ہو کر لائبہ نے مجھے بس اسٹینڈ پر ڈراپ کرنے کے لئے پھر سے رختِ سفر باندھا۔ ٹکٹ لائبہ کے چاچو کی مہربانی سے پہلے ہی لی جاچکی تھی جن کا ہسپتال بس ٹرمینل کے بالکل سامنے تھا۔ سو یہ فکر نہیں تھی کہ بس کی روانگی سے آدھا گھنٹہ پہلے پہنچنا ہے۔ وہاں سے سیدھے ہم لائبہ کے چچا کے ہسپتال جا پہنچے۔ اوروہاں ڈاکٹر رابعہ نساء سے ملاقات ہوئی جو میرے لئے سرپرائز تھی۔ پوری فیملی ہی زبردست ہے۔ ملنسار اور انتہائی خوش مزاج۔ تھوڑی ہی دیر میں کوئی تین چار بار ملتان دوبارہ آنے کی دعوت بھی دے ڈالی۔ پتہ نہیں اس دعوت کو قبول کرنے کی نوبت کب آئے گی؟ کوشش تو ہے جلد ان لوگوں سے دوبارہ ملوں اور جن دوستوں سے ملاقات نہ کر پایا ان سے بھی ملتان جا کر ملاقات ہو سکےاور دن کی روشنی میں بھی ملتان کو دیکھ سکوں۔ بس کی روانگی سے کچھ دیر قبل میں بس ٹرمینل پہنچا۔ بس آئی اور لائبہ کو گڈ بائے کہہ کر اپنی سیٹ پر جا بیٹھا۔ واپسی کے لئے میرا ارادہ تھا کہ رانا تنویر عالمگیر کی دی ہوئی کتاب "اسلام کو مولوی سے بچاؤ” کا مطالعہ کروں گا۔ لیکن قسمت کی خوبی دیکھئے کہ میری ساتھ والی سیٹ پر ایک مولوی صاحب براجمان تھے سو میں نے عافیت اسی میں جانی کہ چپ کر کے سو جاؤں۔ رات تین بجے کے قریب بس ٹرمینل پر اترا اور گھر جا کر سو گیا۔

یہ بھی پڑھئے:  یومِ علیؑ ،تکفیری اورقائداعظم

حالیہ بلاگ پوسٹس