میں طبیعتاٌ نرم مزاج اور انسانیت پسند ہوں اور بچے میری کمزوری ہیں ۔ ساحل کی ٹھنڈی ریت ، چٹکتی چاندنی ، سمندر کی لہریں ، دریا کا پانی ، بارش ، پہاڑ ، سبزہ ، رنگ برنگے طائر غرضیکہ کائنات کی ہر خوبصورت شے میرے اندر طمانیت کا احساس پیدا کرتی ہے ۔ بچے بھی دنیا کی ہر خوبصورت چیز کی طرح میرے جمالیاتی ذوق کی تسکین کرتے ہیں جبکہ ان کی معصوم شرارتوں اور باتوں سے میں بے حد محظوظ ہوتی ہوں ۔ بچوں سے ملاقات میں اپنے ہر عمل سے انہیں اعتماد دینا اور باور کرانا کہ دنیا بہت خوبصورت اور رہنے لائق ہے ، میرا اولین مقصد ہوتا ہے جبکہ ان سے متعلق کسی بھی معاملے پر میں غیر معمولی طور پر حساس ہوجاتی ہوں ۔
گزشتہ دنوں فیس بک پر ایک بچے کی دل کو چیرتی ہوئی تصویر نظر سے گزری جس پر لوگوں نے مختلف خیالات کا اظہار کیا تھا ۔تصویر میں ایک نوزائیدہ بچے کو کچرے کے ساتھ سڑک پر پڑے ہوئے دکھایا گیا تھا جس کے خستہ اور زخمی جسم کو دیکھ کر محسوس ہورہا تھا کہ کسی جانور نے بھی اس کے نازک جسم کو نوچ کر اپنی بھوک مٹانے کی کوشش کی ہو ۔ ہمارے معاشرے میں اس طرح نوزائیدہ بچوں کا کچرے کے ڈھیر پر ملنا کچھ نیا نہیں اور اس طرح کے واقعات پر لوگوں کی اکثریت جس طرح کا رد عمل دیتی ہے وہ بھی انوکھا نہیں ۔ بحیثیت معاشرہ خود کو مورد الزام ٹھہرانے کے بجائے لوگ مرد و عورت اور اس سے کہیں زیادہ عورت کو قصوروار گردانتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔اپنی بیٹوں کی تربیت کا فقدان نظر آتا نہیں الٹا لڑکی کو زمانے کی اونچ نیچ سے ڈرایا جاتا ہے ۔ مذکورہ تصویر میں بھی لوگوں کی اکثریت نے مرد و عورت کو برابر کا ذمہ دار قرار دیا جس سے میں بالکل اتفاق نہیں کرتی ۔
بلاشبہ ہم ایسے گھٹن زدہ معاشرے میں رہتے ہیں جہاں عورت چاہتے ہوئے بھی اس بچے کو اون نہیں کرسکتی جسے اس نے اپنی کوکھ سے جنم دیا ہو کیونکہ دنیا کی نظر میں وہ بچہ ناجائز ہے ۔ میں نہیں سوچ سکتی کہ کوئی ماں اپنے جگر گوشے کو یوں اس بے رحم دنیا کے حوالے کرسکتی ہے ۔ مغربی دنیا کو مادر پدر آزاد اور بے حیا کہنے والے بتائیں کہ وہاں کسی نے اس طرح بچوں کو کوڑے کے ڈھیر پر پڑا دیکھا ہے ؟ مغربی معاشرے میں انسانیت بھی ہے اور شخصی آزادی بھی ۔اگر کسی عورت کو بچہ رکھنا ہے تو وہ بخوشی اسے پالتی ہے ، اس پر کسی قسم کا جبر نہیں اور نہ ہی کوئی اسے طعنے دیتا ہے ۔ یہ پھپھوند زدہ معاشرہ جہاں انسانیت کی نعش بھی گل سڑ چکی ہے ایسے واقعات کا براہ راست ذمہ دار ہے ۔ دوسری ذمہ داری مرد پر عائد ہوتی ہے کیونکہ اگر مرد میں اتنی اخلاقی جرات نہیں تو کسی لڑکی کو پیار اور شادی کے سپنے دکھا کر اس حد تک نہ لیجائے ۔ اگر مرد اصل مرد بن کر معاملے کو سنبھال لے تو بات معاشرے تک بھی نہ جائے لیکن افسوس ہوتا ہے کہ مشرقی معاشرے میں ایک طرف تو مردوں کو اپنی برتری کا جھوٹا زعم ہے تو دوسری جانب اس بھرم کو قائم رکھنے کے لئے مرد عورت کا محافظ بننے کے بجائے خود اس کی عزت سے کھلواڑ کرتا نظر آتا ہے ۔دوسرے ہم دیکھتے ہیں کہ پارلیمنٹ کی جانب سے بھی اس مسئلے پر کوئی قانون سازی نہیں کی گئی جبکہ سموسے اور شراب پر ازخود نوٹس لینے والی عدلیہ بھی چپ سادھے بیٹھی ہے ۔
ہمارے معاشرے کی مجموعی سوچ ہی ایسی ہے کہ یہاں مرد ہر عورت پر نظر رکھنا اور اس کا استحصال کرنا اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں ، یہاں تک کہ پارلیمنٹ بھی اس سوچ سے مبرا نہیں ہے جس کا حالیہ ثبوت سندھ اسمبلی میں نصرت سحر عباسی اور امداد پتافی کے درمیان ہونے والی تکرار ہے ۔ اس معاملے پر کچھ مردوں نے کہا کہ نصرت سحر نے بھی مرد رکن اسمبلی کو بہت زیادہ زچ کیا تھا لیکن میرا جواب یہ ہے کہ خاتون رکن اسمبلی نے جو کچھ بھی کہا ، اس پر امداد پتافی بھی کوئی ڈھنگ کی بات کرکے بدلہ لے لیتے لیکن چیمبر میں بلانے کی ذو معنی بات ان کی گری ہوئی ذہنیت کی عکاس ہے۔ اگر نصرت سحر اصرار کر بھی رہی تھی انگریزی میں لکھا ہوا جواب پڑھنے کی تو ایک ایم پی اے کو اتنا قابل ہونا چاہیے کہ وہ انگلش میں جواب دے سکے یا اسے پڑھ سکے ۔ ہم پر جاہل اور جنسی مریض وڈیرے مسلط کئے جائیں گے تو پارلیمنٹ ان کی اوطاق ہی لگے گا ۔سندھ اسمبلی کا ملک کی دیگر اسمبلیوں کے مقابلے میں تحفظ خواتین سمیت دیگر اہم سماجی معاملات پر قانون سازی میں ایک مقام ہے لیکن اس واقعے سے پارلیمنٹ کا احترام مجروح ہوا ہے ۔ ادھر سرکاری نشریاتی ادارے پی ٹی وی میں خاتون اینکر کو مبینہ طور پر جنسی ہراساں کئے جانے کے خلاف قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں پیپلزپارٹی کی خواتین ایم پی ایز نے درخواست جمع کرائی ہے ۔ چند روز قبل کورنگی کی چھ سالہ سویرا کو تین درندوں نے نہ صرف جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا بلکہ تیز دھار آلے کی مدد سے اسے قتل کرنے کی کوشش بھی کی جبکہ ہر وقت معاشرے کی بے حیائی پر ماتم کناں مذہب کے ٹھیکیدار اور انٹر نیٹ کے جہادیوں نے اس واقعے کی مذمت نہیں کی اور نہ ہی مہذب اور تعلیم یافتہ پروفیسرز و بلاگرز کی حمایت میں نکلنے والی ریلیوں کو سبوتاژ کرنے والے ملا اس ظلم کے خلاف میدان میں آئے کیونکہ ملاؤں کا مقصد صرف فساد ہے اصلاح معاشرہ نہیں ۔ یہ معاشرے کی مجموعی سوچ ہے جس سے ہم لڑ رہے ہیں ۔
بات کروں گی ہمسایہ ملک بھارت کی جہاں جولائی دو ہزار پندرہ میں بھارتی سپریم کورٹ کے وکرم اجیت سین اور منوہر سپرے پر مشتمل بنچ نے ایک تاریخی فیصلہ دیا جس میں کہا گیا کہ غیر شادی شدہ عورت اپنے بچے کی تنہا سرپرست بن سکتی ہے اور اس پر شوہر کا نام بتانے کا بھی جبر نہیں ہوگا چاہے وہ بچہ زنا باالجبر کا نتیجہ ہو یا زنا با الرضا کا ۔ فیصلے میں کہا گیا کہ جو شخص ایسی صورت میں عورت کو تنہا اور بے آسرا چھوڑ دے ، اس کا نام افشا نہ کرنا بچے کے بنیادی حق پر بھی اثر انداز نہیں ہوگا ۔دکھ کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں اس معاملے کو انسانی قدروں کے بجائے تنگ نظری اور بے حسی سے ڈیل کیا جاتا ہے جس پر عدالت و پارلیمنٹ کو بھی کبھی بات کرنے کی توفیق نہ ہوئی ۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn