اختلاف رائے آپ کا حق ہے مگر دلیل کیساتھ جو لوگ مکالمے کی بجائے فالتو بحث کو ترجیح دیتے ہیں نتیجہ گالم گلوچ پر تعلقات اختتام پذیر.
بعض لوگوں کا اختلافی معیار صرف ذاتیات تک بعض کا شخصیات تک بعض کا مذہب فرقہ وغیرہ تک ہر کسی کی اپنی اپنی صوابدید. اصولی طور اختلاف یہ ہے کہ کسی کے قول و فعل کو چیلنج کرنا چیلنج کن بنیادوں پر کرنا کہ آیا آپ کی اس میں تعریف نہیں کی گئی آپ کے پسندیدہ ہیرو کی بڑائی نہیں بیان کی گئی آپ کے مذہب،مسلک،فرقے کا نام لیکر تنقید کی گئی ہے وغیرہ وغیرہ. اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے ان تمام تر اختلافات کا آپ کے پاس کوئی ٹھوس جواز ہے یا محض شخصیت پرستی خود پسندی کی وجہ سے سب کچھ …
آج کل چند خودپسند کم فہم حضرات کا ٹولہ سرگرم عمل ہے جس کا کام خوامخواہ کے اختلافات پیدا کرنا فالتو بحث کرنا بے بےجاتنقید کر کے اپنی علمی حیثیت ظاہر کرنا جس سے کبھی بھی نتیجہ خیز نتائج نہیں حاصل کئے جاسکتے. پاکستان میں انسان ایمان و فکر کے جس امتحان میں ہے اس میں یہ لازمی ہے کہ لوگوں میں اختلاف رائے رونما ہو گا۔ یہ اختلاف ہر مذہبی اور غیر مذہبی معاملے میں ہو گا۔ ایسے میں چند آداب ہیں جن کا ابتدائی شعور بھی ہمارے ہاں لوگوں کو نہیں ہے۔ جس کے نتیجے میں لوگ سنگین نوعیت کے اخلاقی جرائم کے مرتکب ہوتے ہیں عرض کر دوں کہ یہ تحریر میں اپنے آپ کو سامنے رکھ کر لکھ رہا ہوں.
بدقسمتی سے ہمارا عام رویہ یہ ہے کہ فرقہ وارانہ اختلاف میں اطمینان قلبی و ذہنی سے لوگوں کو کافر کہتے ہیں ۔ فکری و علمی اختلاف کی شکل میں کسی بھی شخص کو اطمینان کے ساتھ دشمنوں کا ایجنٹ قرار دیتے ہیں.
اختلاف رائے میں ایک دوسری خرابی یہ ہے کہ ہم ہمیشہ اس مفروضے سے بات شروع کرتے ہیں کہ ہم آخری درجے کے حق پر کھڑے ہیں اور سامنے والا باطل ہے. ارے بھائی آپ کسی کو کافر کافر کہیں جائیں اگر اس نے آپ کی تاریخ اٹھا کر سامنے رکھ دی اور اگر وہ تاریخ سچ ہے تو، قصور اس کا نہیں ہمارے ماضی سے اٹھنے والی دھول کا ہے.
اکثر لوگ علم اور تربیت کے بغیر پورے اعتماد سے گفتگو کر رہے ہوتے ہیں ۔ وہ ادب اور زبان کے اسالیب کو گہرائی میں نہیں سمجھتے اور پورے اعتماد سے کلام کے معنی پر گفتگو کر رہے ہوتے ہیں.مجال ہے کوءی دوسرا کلام کرے تو اس پر ایسے فیصلہ دیتے ہیں جیسا کہ وہ اس موضوع پر اتھارٹی ہوں . بہتر طریقے سے اختلاف اور تنقید کا درست طریقہ یہ ہے کہ دیانت داری سے کسی شخص کی پوری بات اور نقطہ نظر کو سمجھا جائے ۔ اعتراض کرنے سے پہلے سوال کر کے بات کو سمجھنے کا عمل کیا جائے ۔ معاملہ علمی ہے تو اعتراض اٹھانے سے پہلے اس موضوع پر نمایاں اہل علم کا نقطہ نظر سمجھا جائے تاکہ ہمارا اعتراض کہیں ہماری جہالت کا آئینہ دار نہ بن جائے ۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn