قائداعظم یونیورسٹی کے ہوسٹل نمبر 2 کے کمرہ نمبر 58 کے 2 مکین تھے، سلمان اور شہادت۔ ستمبر 2006 میں جب میرا ایم فل سائیکالوجی میں داخلہ ہوا تو مجھے ہوسٹل میں رہنے کے لئے کمرا الاٹ نہیں ہو رہا تھا. سلمان اور شہادت نے اُس مشکل گھڑی میں مجھے اپنے کمرے میں تیسرے رومیٹ کے طور پر ایڈجسٹ کیا۔
اُس وقت اُس کمرے میں 2 سنگل بیڈ تھے جو اُن دونوں نے کمرے سے نکلوا کے زمینی بستر کا اہتمام کیا کیونکہ 2 بیڈز پر ہم تین لوگوں کے لئے ایڈجسٹ ہونا ممکن نہیں تھا۔
اب صورتِ حال یوں تھی کہ دروازہ کے بالکل سامنے زمین پر ہم تینوں کے بستر لگے تھے اور دروازہ سے بستر کے درمیان کی تھوڑی سی خالی بچ جانے والی زمین ہمارے جوتوں کے لئے مختص تھی۔ ہمارے بستر پنکھے کے عین نیچے بِچھے ہوتے لیکن گرمی کی شدت اتنی جان لیوا ہوا کرتی تھی کہ ہمیں ہر 2 گھنٹے بعد اپنے بستروں کو پانی سے بھگونا پڑتا تھا۔
گرمیوں کے ایسے ہی ایک دن ملتان سے میرے 2 دوست اچانک پیشگی مطلع کئے بغیر آن وارد ہوئے۔ خیال یہ تھا کہ رات تک وہ واپس چلے جائیں گے لیکن رات ہونے پر انہوں نے یہ انکشاف کیا کہ وہ تو رات ہمارے پاس ہی قیام کرنے کا ارادہ لیے ہوئے ہیں۔ یہ صورتِ حال میرے لیے کافی پریشان کُن تھی کہ ہم تین بھی بڑی مشکل سے اُس چھوٹے سے کمرے میں اپنے قیام کا بندوبست کیے ہوے تھے۔ اگر ہم خود کو بہت زیادہ بھی تنگ کر لیتے تو اپنے بچھے بستروں میں صرف ایک ہی بندے کو ایڈجسٹ کر سکتے تھے۔
سلمان میرے چہرے کی اکتاہٹ اور پریشانی کو بھانپ گیا۔ اُس نے چادر اُٹھائی اور دروازے سے بستر کے درمیان جوتوں کے لئے مختص جگہ پر چادر بِچھا کر لیٹ گیا اور اپنا بستر میرے اُن مہمانوں کے حوالے کر دیا۔
میں اُس غریب منش آدمی سے اسرار کرتا رہا کہ تم بستر پر آ جاؤ، میں وہاں جوتوں کی جگہ لیٹ جاتا ہوں لیکن وہ یہ کہ کر آنکھیں موند کے لیٹ گیا کہ میں بہت تھکا ہوا ہوں تو مجھے یہاں سخت زمین پر یا بستر پر سونے سے کوئی فرق نہیں پڑنا۔
یہ 2007 کی گرمیوں کے وہ دن تھے جب پرویز مشرف کی طرف سے چیف جسٹس افتخار چوہدری کو معزول کیے جانے کے بعد وکلا تحریک اپنے عروج پر تھی۔ شاہراہِ دستور پر منعقد ہر مظاہرے کی روحِ رواں ہوا کرتا تھا سلمان۔ ایک روز خود پر لاٹھی چارج کرنے والے پولیس کانسٹیبل کی لاٹھی بھی چھِین لایا تھا ساتھ۔ روز صبح اُٹھتا اور آمریت کی سیاہ رات کو ہٹا کر جمہوریت کی صبحِ نو کے سورج کو طلوع کرنے کی جدوجہد میں جُت جاتا۔ اِسی مسلسل جدوجہد کی تھکاوٹ تھی جس نے اُس آزاد منش آدمی کو نرم بستر کو چھوڑ کے فرش پر سونے میں بھی کوئی عار اور تکلیف محسوس نہیں ہونے دی۔ ایسے آزاد منش، محب الوطن، انسان دوست، ایثار اور قربانی کے پیکر شخص کو کوئی ہمارے دلوں سے کیسے نکال سکتا ہے؟؟
کچھ باتیں سلمان حیدر کی – پہلا حصہ
سلمان حیدر اور میرے مشترکہ دکھ
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn