پاکستانی سیاستدانوں کی موج لگی ہوئی ہے۔ دنیا بھر میں عموما میڈیا سیاستدانوں کے لیے ایجنڈا سیٹ کرتا ہے اور سیاستدان نہ چاہتے ہوئے بھی اس ایجنڈے کو لے کرچلنے پرتیار ہو جاتے ہیں جس سے ریاست ،حکومت اور عوام کا بھلا ہوتا ہے۔ دینا بھر میں بعض میڈیا گروپس تو اتنے طاقتور بن جاتے ہیں کہ اپنا سیاسی ایجنڈا لے کر چلتے ہیں اور اس گروپ کا سربراہ ملک کا وزیراعظم تک بن جاتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال اٹلی کے حال ہی میں مستعفحی ہونے والے وزیراعظم برلسکونی کی ہے جن کا اپنا بہت بڑا میڈیا گروپ ہے جس کی طاقت سے وہ ایک دن اٹلی کے وزیراعظم بن گئے۔
تاہم پاکستانی سیاستدان زیادہ سیانے نکلے ہیں کہ انہوں نے اپنے میڈیا گروپ شروع کرنے کی بجائے اس طرح کا کھیل کھیلا ہے کہ موجودہ ٹی وی چینل ان کی انگلیوں پر ناچ رہے ہیں۔ پاکستانی ٹی وی میڈیا کو پتہ ہی نہیں چلا کہ کب اور کیسے وہ سب کچھ وہی کر رہے ہیں جو پاکستانی سیاستدان چاہ رہے ہیں اور جب بھی ٹی وی کھولیں اپ کو ہر طرف سیاست اور سیاستدان نظر اتے ہیں۔ عوام اور معاشرہ ان چینلز سے غائب ہو گیا ہے۔ عوام کو تاثرات دو تین منٹ کے کے ٹی وی پر دکھا کر تصور کر لیا جاتا ہے کہ کام ہو گیا ہے۔
ٹی وی کا میڈیا اب ان سیاستدانوں کا محتاج ہو کر رہ گیا ہے کہ صبح سویرے ایک پارٹی کا سیاستدان ایک بیان دے دیتا ہے اور اس کے بعد ہر طرف اگ لگ جاتی ہے۔ سب ٹی وی چینل سب کچھ بھول کر اس سیاستدان کی بریکنگ خبریں اور لایؤ پریس کانفرنس دکھائیں گے۔ ابھی وہ پریس کانفرنس ختم نہیں ہوئی گی کہ ساتھ میں اس کی مخالف سیاسی پارٹی کا ردعمل ایک اور پریس کانفرنس کی شکل میں آنا شروع ہو جائے گا۔ یوں یہ تماشہ شام تک چلے گا۔ الزامات، در الزامات کا ایک سلسلہ چلتا رہے گا۔ ایک دوسرے کو خوب جی بھر کا گالیاں دے کر ابھی یہ سیاستدان فارغ نہیں ہوں گے کہ شام کے ٹی وی شوز کا وقت ہو جائے گا۔ شام سات بجے سے لے کر رات بارہ بجے تک ملک بھر کے دس سے بڑے ٹی وی چینل کل چالیس کے قریب ایک دن میں ٹاک شوز چلتے ہیں۔ انیس بیس سب کا ایک ہی ٹاپک ہو گا اور ایک جیسے سیاسی مہمان ہوں گے۔ یہ پارٹیاں سارا دن ایک دوسرے کے خلاف لڑنے کے بعد شام کو ٹی وی سٹوڈیو میں بیٹھ کر لڑتی ہیں۔ مرغوں کی یہ لڑائی رات گئے جاری رہتی ہے۔ اچھا اور رینٹنگ والا اینکر وہ سمجھا جاتا ہے جس کے پروگرام میں سب سے زیادہ گالی گلوچ اور بدتمیزی کا مظاہرہ ہو۔ اینکرز کو تریبیت دی جاتی ہے کہ اس نے مہمان کوبات پوری نہیں کرنے دینی تاکہ وہ غصے میں آئے اور ایسی باتیں شروع کر دیں جو اسے تماشہ بنائیں۔ میرا اپنا تجربہ ہے کہ یہ سیاسی لوگ ٹاک شوز کے ٹاپک کا بھی اس وقت پوچھتے ہیں جب اینکر پروگرام شروع کرنے لگتا ہے لہذا تیاری کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ پروگرام میں جانے سے پہلے ٹاپک کا علم ہو اور اس پر کوئی ریسرچ بھی کر لی جائے۔ کسی پارٹی کے پاس ریسرچ کا کوئی ونگ نہیں ہے جو اپنی پارٹی کے لوگوں کو کسی بھی ٹی وی شو میں جانے سے پہلے باقاعدہ بریف کرے۔ جو جس کے منہ میں آتا ہے وہ کہہ دیا جاتا ہے اور ٹی وی والے بھی ہر بات چلا دیتے ہیں۔ کسی سیاسی پارٹی نے اس پر بھی کام نہیں کیا کہ کس بندے کو ٹی وی جان چاہیے اور اس کی شخصیت کیسی ہو، بات کرنے کا ڈھنگ اتا ہو اور اپنے ٹاپک کا بھی اسے علم ہو۔
رہ سہی کسر جلسوں نے پوری کر دی ہے۔ آج کل جلسوں کا موسم ہے یوں گھنٹوں تک یہ تقریریں لائیو دکھائی جاتی ہیں۔ تقریوں کے بعد ردعمل کا سلسلہ شروع ہوتا ہے اور پھر ایک دفعہ شام کو اس ایک تقریر پر چالیس سے زیادہ شوز ہوتے ہیں۔
یوں سب چینل ہائی جیک ہو گئے ہیں۔ اس ہائی جیکنگ میں سب خوش ہیں۔ میڈیا خوش ہے کہ انہیں عوام کے لیے کوئی ریسرچ اور حقائق پر مبنی خبریں نہیں ڈھونڈنا پڑتیں۔ انہو ں نے بس ایک ڈی ایس این جی بھیجنی ہوتی ہے اور یوں ایک دن کا بندوبست ہو جاتا ہے۔ اصل ایشوز پر نہ تو شوز ہوتے ہیں اور نہ ہی عوام دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ قومی اسمبلی کو جو رپورٹرز کور کرنے جاتے ہیں وہ بھی وقفہ سوالات میں کوئی دلچسپی نہیں دکھاتے جہاں اصل خبریں ہوتی ہیں اور اس سے حکومت کی جواب طلبی ہوسکتی ہے۔ وقفہ سوالات میں ممبران بھی کوئی دلچسپی نہیں دکھاتے کیونکہ انہیں پتہ ہے کہ میڈیا ان کی سیاسی تقریروں کو کور کرے گا نہ کہ حکومت اور اس کی وزارتوں کے حوالے سے کارگردگی کو جس کا براہ راست اثر عوام پرپڑتا ہے ۔ جونہی وقفہ سوالات کے بعد قومی اسمبلی میں سیاسی تقریروں کا مقابلہ شروع ہو گا، اس کے ساتھ ہی تمام ٹی وی چینلوں پر ٹکرز دھڑا دھڑ چلنا شروع ہو جائیں گے۔ کس نے کیا کہا اور اس کے جواب میں دوسرے نے کیا کہا ۔ یہ سلسلہ شام تک چلتا ہے اور پھر ایک دفعہ وہی سیاسی ٹاک شوز اور ان میں بیٹھے ہوئے وہ روایتی چہرے جو ایک چینل سے اٹھ کر دوسرے پر اور وہاں سے تیسرے سے ہوتے ہوئے رات گئے گھر جاتے ہیں اور جا کر فون کر ون کر اپنی پارٹی کے ٹاپ لیڈروں کو فون کرنا نہیں بھولتے کی آج کس نے کیا طبلہ مارا تھا اور سیاسی مخالفوں کی ایسی تیسی کر دی تھی۔ اور پھر بڑے مطمئن ہو کر سوتے ہیں کہ آج انہوں نے قوم کی باتوں کے زریعے خدمت کر لی تھی۔
اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اپوزیشن اور حکومت کے لیے گورنس اور عوام کی بہتری کوئی بڑا مسئلہ نہیں رہا۔ کسی کے پاس کوئی ایجنڈا نہیں رہا کہ کوئی ان سے ان کا سیاسی پروگرام نہیں پوچھتا اور نہ ہی اس پر کتنا عمل ہوا۔
ان سیاسی لیڈروں کو پتہ چل گیا ہے کہ ٹی وی کو محض بیان بازی اور ایک دوسرے کے خلاف لڑائی کے مناظر کی ضرورت ہے۔ اس سے زیادہ ٹی وی میڈیا کچھ نہیں چاہتا۔ اور یہ ضرورت اب کمرشل بن گئی ہے اور سیاسی لیڈر اب یہ کمرشل ضرورت پوری کر رہے ہیں۔
آپ اگر کسی دن ایک دن میں ہونے والی چالیس ٹاک شوز کو دیکھیں تو آپ حیران ہوں گے کہ صرف پندرہ سے بیس سیاستدان ہیں جو بدل بدل کر روزانہ کسی نہ کسی چینل پر بیٹھے ہوتے ہیں۔ ان کی باتیں ایک جیسی ہیں ۔ اپنے لیڈروں پر تقنید کا ایک فقرہ نہیں سن سکتے اور اگر کوئی گستاخی کر بیٹھے تو ٹی وی پر ہی مار دھاڑ پر اتر آتے ہیں۔ سیاستدان بھی چاہتے ہیں کہ اس ملک میں ہر وقت تماشہ لگا رہے اور لوگ کسی اور طرف نہ سوچ سکیں۔
ٰیوں عوام کو سیاست اور سیاستدانوں سے بیزار کر دیا گیا ہے۔ سیاستدان سمجھتے ہیں کہ وہ میڈیا کو استعمال کر رہے ہیں جب کہ میڈیا سمجھتا ہے کہ وہ ان سیاستدانوں کو اپنا چینل کا پیٹ بھرنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ دونوں کی دوکان ایک دوسرے کی مہربانی سے چل رہی ہے۔ یوں دونوں ایک دوسرے سے خوش ہیں اور اگر اس درمیاں میں عوام اور ملک کا بیڑا غرق ہو گیا تو اس کی کس کو پرواہ ہے !
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn