Qalamkar Website Header Image

سی پیک کا منصوبہ اور گلگت بلتستان کا مقدمہ – شیر علی انجم

وسیع جغرافیے اورقدرتی وسائل سے مالا مال دنیا کے چار عظیم پہاڑی سلسلوں قراقرم، ہمالیہ، ہندو کش ، پامیر اور 7500 میٹر سے بلند بارہ چوٹیوں اور دنیا کے طویل دریاؤں میں سے ایک دریائے سندھ پر مشتمل گلگت بلتستان جس کی سرحدیں چین، انڈیا ، افغانستان، روس اور تاجکستان سے لگتی ہیں۔زمانہ قبل مسیح سے آباد یہ خطہ کئی تہذیبوں کا مرکز رہا ہے۔ قدیم شاہراہ ریشم جو چین اور وسطی ایشیا تک رسائی دیتا تھا۔لیکن خطے کی تباناک تاریخ پر بحث کرنے کے بجائے تقسیم برصغیر کے بعد کی صورت حال کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ قیام پاکستان کے بعد جس طرح دنیا کے نقشے میں تبدیلی آئی بلکل اسی طرح مہاراجہ کشمیر کے ایک فیصلے نے اس خطے میں بغاوت کو جنم دیا نتیجتاً یکم نومبر 1947ء کو یہاں کے عوام نے ڈوگرا راج کو مار بھگایا اور اس خطے کو آزادی دلائی۔ پندرہ دن تک عوامی اسمبلی نے انتظامی امور خود چلائے یوں آزادانہ حیثیت میں ابھی یہ فیصلہ کرنا باقی تھا کہ آیا اس مونومود مملکت کا مستقبل پاکستان کے ساتھ جڑی ہے یا دنیا میں ایک الگ ملک کے طور پر اپنی حیثیت کو برقرار رکھے گی۔ لیکن یہاں بھی برطانوی سامراجی ایجنٹ میجر بروان اور انکے مقامی حواریوں نے یہ فرصت نہیں دیا کہ اس خطے کی مستقبل کے حوالے سے بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں کوئی فیصلہ کرے۔ اس سازش کے نتیجے میں ایک غیرمقامی تحصیلدار کے ہاتھ میں اس خطے کا نظام انصمام تھما کر طویل عرصے تک یہاں ایف سی آر جیسے کالے قانون نافذ رہے۔نہ صرف یہاں کالا قانون نافذ کیا بلکہ اس خطے کو مسئلہ کشمیر کے ساتھ منسلک کر کے ایک متازعہ حیثیت میں دھکیل دیا۔یوں یہ معاملہ جب اقوام متحدہ میں پونچا تو اقوام متحدہ نے پاکستان اور بھارت کو حکم دیا تھا کہ متنازعہ آذاد کردہ خطوں میں خود مختار حکومتوں کے قیام کو یقینی بنائیں لیکن یہ وعدہ بھی آج تک وفا نہیں ہوسکا۔المیہ یہ ہے کہ متنازعہ حیثیت کے باوجود 1970ء میں باشندہ قانون (جو دونوں اطراف کے کشمیر میں آج بھی لاگو ہیں) سٹیٹ سبجیکٹ رُول کا خاتمہ کیا گیا جس کی رو سے یہاں غیر مقامی افراد بھی زمین کی لین دین اور کاروبار کر سکتے ہیں اور اس کے لیے کوئی رائلٹی بھی نہیں دی جاتی۔غریب طبقے کی جماعت بن کر ابھرنے والی پیپلز پارٹی کے عہد میں ذوالفقار علی بھٹو نے اُنیس سو چہترمیں گلگت بلتستان کا دورہ کیا جس میں باقاعدہ ریاستی اداروں کا قیام عمل میں لا یا گیا، مقامی راجہ مہاراجہ سسٹم کو ختم کیا اور گندم اور ٹرانسپورٹ کی مد میں سبسڈی دینے کا آغاز کیا وہیں ذولفقار علی بھٹو نے اکسائی چن جو گلگت بلتستان کا حصہ تھا عوامی رائے جانے بغیر چین کو گفٹ کئے وہیں باشندہ قانون کی خلاف ورزی بھی شروع کی۔دو ہزار نو میں ایک بار پھر اسی پارٹی نے صدارتی حکم نامے کے تحت سیلف گورننس آرڈیننس یعنی عارضی صوبائی سیٹ اپ کے ذریعے قانون ساز اسمبلی اور جی بی کونسل متعارف کیا تا ہم قومی اسمبلی میں اس خطہ کو کوئی نمائندگی نہیں دی گئی لیکن یہاں گورنر وفاق سے تعینات ہوتے رہے۔ بیس لاکھ آبادی والے اس خطے کا حالیہ بجٹ تینتیس ارب ہے جس میں صرف تیرہ ارب کے قریب ترقیاتی کاموں، صحت، تعلیم، معدنیات، سیاحت، زراعت، توانائی، ٹرانسپورٹ اور رہائش وغیرہ کے لئے مختص ہیں۔ایک اندازے کے مطابق یہاں فی کس اوسط آمدن بچاس ہزار سالانہ کے لگ بھگ ہے یہاں آج کئی لاکھ نوجوان بے روزگار ہیں۔کہا یہ جاتا ہے کہ خطے شرح خواندگی صرف چالیس فیصد ہے اور آج کی تاریخ میں ذیادہ تر تعلیمی ادارے پرائیویٹ شعبے سے منسلک ہیں۔ صحت کا شعبہ بھی وسائل کی شدید کمی سے دو چار ہے۔ ایک اعداد شمار کے مطابق دوران زچگی ایک لاکھ میں سے ایک ہزار خواتین موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ سابق اور موجودہ حکومت ان تمام مسائل کی دیرپا حل کیلئے کوشش کرنے کے بجائے صرف اخباری بیانات کے ذریعے ہی نظام کو چلایا جارہا ہے ،سرکاری ٹھیکوں سے لیکر نوکریاں تک مسلکی اور علاقائی بنیادوں پر تقسیم ہونے کی خبر آج بھی ایک حقیقت ہے۔ مقامی حکومت کی بیڈ گورنینس کی وجہ سے جہاں گلگت بلتستان کے عوام کو مقامی سطح پر بہت سے مسائل کا سامنا ہے وہیں سی پیک جیسے گیم چینجرمنصوبے میں بھی اس خطے کے عوام کو مقامی حکومت کی طرف میں اندھیرے میں رکھ کر سیاسی بیانوں اور دعووں کی بنیاد پر اس عظیم منصوبے سے بھی گلگت بلتستان کو دور رکھنے کی سازش ہورہی ہے ۔ یہ بات میں کوئی شک نہیں کہ گلگت بلتستان کے عوام پاکستان سے بے پناہ محبت کرتے ہیں اس ملک کی بقاء کیلئے اس خطے کے عوام تن من دھن کی قربانی دینے پر فخر محسوس کرتے ہیں اور پاکستان کی بھی خواہش ہے کہ یہ خطہ کسی بھی طرح سے آئینی اور قانونی طور پاکستان کا حصہ بن جائے لیکن ماضی کے غیر سنجیدہ فیصلوں اور سازشوں نے اس عظیم خطے کو آج بھی آئینی اور قانونی طور پر پاکستان کا حصہ بننے کی راہ میں بین الاقوامی قوانین ،خارجہ پالیسی پاکستان کیلئے طوق بنا ہوا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ وفاق پاکستان کے کئی اہم رہنما کئی بار اس بات کا برملا اظہار کر چُکے ہیں کہ آئینی طور پر آج بھی گلگت بلتستان پاکستان کا حصہ نہیں۔سی پیک کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ یہ اہم منصوبہ نہ صرف پاکستان کیلئے ایک گیم چینجر ثابت ہوگا بلکہ اس عظیم منصوبے سے چین ، جنوبی ایشیا اور وسط ایشیا ء کے تقریباََ تین ارب افراد کو فائدہ پہنچے گایعنی اس منصوبے کے ذریعے مخصوص تجارتی رہداریوں کی تعمیر سے بر اعظم ایشیا ء کی تقریباََ نصف آباد ی پر مثبت اثرات مرتب ہونگے۔اس معاہدے کے تحت پاکستان اور چین کی اشتراک سے گوادر کی بندرگاہ کو ہائی ویز، ریلوے اور پائپ لائنوں کے ذریعے چین کے جنو ب مغربی علاقے شن جیانگ سے مربوط کیا جا رہا ہے اسی طرح پائپ لائنوں کے ذریعے تیل اور گیس دونوں ملکوں کے درمیان منتقل ہوں گے یہی وجہ ہے کہ چین اور پاکستان کی اعلیٰ قیادتیں اس منصوبے کی تکمیل میں ذاتی دلچسپی لے رہیہے۔ لیکن افسوس اس بات کی ہے کہ بلند بانگ دعوں کے باجود گلگت بلتستان کو سی پیک میں کچھ بھی نہیں مل رہا اور اگر کسی کو اس بات پر ذرا بھی شک ہے تو برائے کرم سی پیک کے افیشل ویب سائٹwww.cpec.gov.pk اور www.cpecinfo.com پر جاکر پروجیکٹس کی مکمل تفصیلات چیک لیجئے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اس وقت مقامی حکومت ،اپوزیشن اور عوام کو سیاست سے بالائے طاق ہوکر خطے کی مستقبل کے بارے میں سوچ بچار کرنے کی ضرورت ہے اور اس بات کو عہدوں اور نوکریوں کی مجبوریوں سبب رد کرنے کے بجائے یہ بات منوانے ہونگے کہ اس اہم بین الاقوامی پروجیکٹ میں گلگت بلتستان کی متازعہ حیثیت کے سبب ایک فریق کا کرادر ہونا چاہئے۔یہاں ایک بات کا اضافہ کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کیونکہ مقامی حکومت کی جانب سے مقپون داس کے مقام پر اکنامک زون بنانے کے حوالے سے دعوی سامنے آیا ہے لیکن ایک تو یہ جگہ عوامی ملکیت(جسے مقامی لغت میں خالصہ سرکار کہا جاتا ہے)اور متازعہ ہے لہذا پہلے اس مسلے کو حل کر نے کی ضرورت ہے، دوسری جانب افیشل ویب سائٹ میں اس پروجیکٹ کا کوئی ذکر نہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ گلگت بلتستان کی سرزمین کو استعمال کئے اس جامع منصوبے کو پایہ تکمیل تک پونچانا بھی ممکن نہیں لہذا گلگت بلتستان کو اس اہم پروجیکٹ میں متازعہ حیثیت کے سبب فریق بنائے بغیر راہداری گزارنے سے جہاں پاکستان مخالف قوتوں کو بولنے کا موقع مل سکتا ہے تو وہیں گلگت بلتستان کے عوام میں بھی احساس محرومی کا اضافہ ہوگا۔ان تمام تر صورت حال کو دیکھنے کے بعد لگتایوں ہے کہ ماضی کی طرح ایک مرتبہ پھر گلگت بلتستان کو متنازعہ قرار دے کر اقتصادی راہداری منصوبوں کے راستے اپنے لئے صاف کئے جا رہے ہیں۔ دوسری طرف المیہ یہ ہے کہ وفاقی گورنر اور افسر شاہی کی تقرری اور وسائل کے استعمال جب بات ہوتی ہے تو اس خطے کے پاکستان کی شہ رگ ہونے کے قصیدے پڑہے جاتے ہیں مگر آئینی حقوق، حصہ داری اور عوامی مسائل کی بات آئے تو متنازعہ ہونے کا نوحہ سنا دیا جاتا ہے۔ لہذاسی پیک منصوبے کے حوالے سے عوامی تحفظات کو دور کرنے میں غیر سنجیدگی سے کام لینے والے طبقے کوسے سوچنا ہوگا کہ اس حوالے سے قومی سوال دن بہ دن سلگ رہا ہے۔

حالیہ بلاگ پوسٹس