Qalamkar Website Header Image

مذہب کے نام پر قتل – میر احمد کامران مگسی

انسانی تاریخ ایسے ہزارہا واقعات سے عبارت ہے کہ ایک انسان کا کسی دوسرے انسان کو قتل کرنے کیلئے سب سے مضبوط ہتھیارعقیدے اور مذہب کے نام سے فرد جُرم لگا کر اسے ختم کردینا رہا ہے۔مذہب اور عقیدے کی بنا پر انسانی نسل کشی کے واقعات ہر تہذیب اور ہر مذہب میں بکثرت اور تسلسل کے ساتھ ملتے ہیں۔ صلیبی جنگیں ہوں نام نہاد ہولوکاسٹ ہو یابالخصوص انڈیا اور افریقہ میں مخالف قبیلے اور خاندان کے افراد کو جادوگر یا چڑیل قرار دیکر جلانے کی رسوماتِ بد ہوں،چین وہند کی قدیم اندرونی وبیرونی جنگیں ہوں ان سب کے اندر ایک ہی جذبہ کارفرما ہوتا ہے یعنی اپنے عقیدہ کی بالادستی اور دوسرے کے عقیدہ کی بیخ کنی کرنا۔عقیدے تو شاید بالادست ہوجاتے ہیں ،لیکن انسانیت کہیں انتہائی پستی میں جا گرتی ہے کیونکہ جبر اور قہر کے آگے بڑے بڑے پناہ مانگتے نظر آئے ہیں۔
ایسا کیوں ہے؟ ہر مذہب اور عقیدے کے تحت اس طرزِ عمل کی اپنی توجیہات ہونگی۔لیکن ایک مسلمان ہونے کے ناطے آج کل کے متشددانہ ماحول اور مذہبی انتہا پسندی کے نام پر قتل عام کی وجہ جاننے کیلئے جب ہم تاریخ کے اوراق پلٹتے ہیں ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس معاملہ میں ہماری اپنی تاریخ بھی ماشاء اللہ بڑی زرخیز رہی ہے۔ ہمارے اکثر ملوک (شہنشاہ/خلیفۃالمسلمین) ملاں کی مدد سے فروعی اختلافات کو اپنے مقصد کے حصول کیلئے استعمال کرتے نظر آتے ہیں۔وہ کسی ایک فرقہ یا مذہب کی تقلید کو حاصلِ ایمان اور آئینِ مملکت کا لازمی جزو سمجھنے لگتے ہیں۔کیونکہ اس میں خود ان کے استحصالی مقاصد کی تکمیل کا راز پنہاں ہوتا ہے۔ نفاذِ اسلام کا ابتدائی دور چونکہ عبوری نوعیت کا ہے اسکے اِکادُکا واقعات کو صرفِ نظر کرتے ہوئے جب ہم تاریخ کے اس موڑ پر آتے ہیں جہاں اسلامی ریاستیں مستحکم ہیں اور وسعت پذیری کے مراحل طے کر رہی ہیں۔ہم دیکھتے ہیں کہ سلطان صلاح الدین ایوبی (1191ء) با ایں زہد و نیک نامی مذہب کے بارے میں کھلاظرف نہیں رکھتے تھے۔انہوں نے خالص گروہی بنیادوں پر الازہر یونیورسٹی کو شیعہ دبستان رہنے دینے کی بجائے شافعی گہوارۂ فکر میں تبدیل کرنا مناسب جانا۔ بزورِ شمشیر مصر، شام، عراق اور حجاز کے حنفیوں کو جبر کا نشانہ بنایا اور ہزاروں مسلمانوں کو تہہ تیغ کر ڈالا۔اسی طرح موقع ملنے پر ترکی کے سلطان سلیم اوّل(1520ء) کا جب دور آیا تو اس نے اِسی مثال کو سامنے رکھتے ہوئے بذریعۂ تیغ شام ،عراق ، فلسطین اور حجاز سے شافیعت کو چلتاکیا اور حنفیت کو مملکت کا مذہب قرار دے ڈالا۔ یہاں بھی مخالفین کی گردن زنی کیلئے ایک ہی ہتھیار یعنی ارتداد کے الزام کا سہارا لیا گیا ۔ ایران کے بنی بویہ (932ء تا 1055ء) اور ترکی کے آلِ عثمان (1326ء تا 1516ء( کی صدیوں پر پھیلی ہوئی مذہبی جنگیں اس مہلک ہتھیار کے تخریبی نتائج کی گواہ ہیں۔ ان جنگوں میں ایک مسلمان نے دوسرے مسلمان کو محض مسلکی اختلاف کی بنا پر ہی فنا کے گھاٹ اُتارا ۔ حتیٰ کہ مسلمانوں کے مجتہدین ، اکابرینِ اُمت امام احمد بن حنبل ؒ ، امام مالک ؒ ، امام ابو حنیفہ جیسے نابغۂ رُوزگار بھی عقیدہ کے اس مہلک وار سے اپنی جان نہ بچا سکے۔مخالف کو تکفیر کا الزام لگا کر قتل کرنے کا یہ سلسلہ یہاں پر رکنے کی بجائے فتوحات کے مراحل طے کرتا ہوا برصغیر بھی آ پہنچا ۔ دین دار شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر کو بھی اپنے انتہائی زیرک، عالمِ دین اور ہر دلعزیز بھائی دارا شکوہ کو تختِ دلی کی جائز وارثت سے محروم کرنے کیلئے اسی مہلک ہتھیار کا استعمال کرنا پڑا۔
ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ شہنشاہی اور سامراجی قتل پر احتجاج تو کیا جاسکتا ہے ، آنسو تو بہائے جا سکتے ہیں۔لیکن مذہبی خونریزی پر نہ تو آپ لب کشائی کر سکتے ہیں اور نہ ہی احتجاج کہ ازروئے شریعت آپ واجب القتل ٹھہرائے جاتے ہیں۔ملّا شاہوں سے زیادہ تنگ نظر ،زیادہ جابر، اور زیادہ شکی مزاج ہوتے اوراپنے ایجنٹوں(قادریوں) کے ذریعہ مخالفوں کو زندگی سے محروم کرنا ان کا وطیرہ بن جاتا ہے یہاں تک کے پیپلز پارٹی جیسی بااثر عوامی پارٹی کو اپنے دورِ حکومت میں اپنے ہی گورنر سلیمان تاثیر کے قتل پر پسپائی اختیار کرنا پڑی۔(بقول ایاز امیر کوئی بھی سمجھدار معاشرہ مولوی یا مبلغ کو اس طرح کی طاقت عطا نہیں کرتا۔کسی پادری کو طاقت دیکر دیکھ لیں وہ چڑیلیں تلاش کرنے اور ان کو سزا دینے کے نام پر ہزاروں کو پھانسی کے تختے پر لٹکا دے گا۔ بد عقیدہ افراد کو زندہ جلا دے گا) الغرضمسجد اورمنبر نے مسلمانوں کی حرّیتِ فکراوروحدت کی علامت بننے کی بجائے فرقوں کی ’’پہچان‘‘ کا روپ اختیار کر لیا ہے۔گذشتہ پچاس ساٹھ سال سے اسکا مشاہدہ کیا جا رہا ہے کہ مذہب نے بڑی بڑی حکومتوں کے تختے اُلٹ کر باصلاحیت حکمرانوں کا نام و نشان ہی مٹا دیا۔افغانستان کے امیر عبدالرحمان(1880ء) ،اسکے بیٹے امیر حبیب اﷲ(1901ء) اور پوتے غازی امان اﷲ کا انگریزوں سے غیر مصالحانہ رویہ تھا وہ انگریز سامراج سے مفاہمت پر آمادہ نہ ہوتے تھے۔انگریز ہشیار لوگ تھے،انہوں نے اس خطے کے لوگوں کی مذہبی نفسیات کا جائزہ لے کر ۔ افغانوں کو رام کرنے کیلئے مذہب ہی کی خدمات حاصل کیں اور ان کی مردم شناس نظروں نے جناب نور المشائخ اورافغانی فوج کے ایک سپاہی نادر کوتاڑ لیا اور اپنے پونڈوں کے ذریعہ اعتماد میں لے کر امان اﷲ کے خلاف بغاوت کرادی۔اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے ۔ انڈونیشا میں عبدالرحیم سوئیکارنو مغربی سامراج کیلئے خندقیں کھود چکا تھا مگر سامراج نے یہاں بھی اپنے حلیف مذہب ہی کا سہارا لیکر اپنے زعم میں اسلامی قدروں کا احیاء کرنے والی ’’نہضۃ العلماء‘‘ اور ’’مسجومی پارٹی‘‘ کو بے پناہ ڈالرفراہم کرکے خانہ جنگی کرادی۔دس لاکھ انڈونیشی مارے گئے اور اس طرح دُنیا نے دیکھ لیا کہ ’’سکارنو‘‘ بمع ساتھیوں کے جیل میں تھے اور سامراج کے نمائندہ ’’سہارتو‘‘ قوم کے سرخیل تھے۔اس طرح بھٹو کو ملّاں اور ڈالر کی توانائی سے تختۂ دار پر لٹکا کر اسلام اور نظریۂ پاکستان کا نام نہاد بھرم رکھا گیا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ حاملینِ مذہب دو دھاری تلوار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ جب بھی اپنے مفاد کی خاطر عوام سے مل جاتے تو حکومتوں کا تختہ الٹ جاتا اور اگر ملوکیت کے حلیف بنتے ہیں جو کہ ہمیشہ سے بنتے چلے آئے تو عوام کی غلامی کو مستحکم کر دیتے۔تاہم مجموعی طور پر ان کا کام اپنے مقاصد کی خاطر مذہب ہی کو اکسپلائیٹ(Exploit)کرنا ہے۔
ناحق کے لئے اُٹھے تو شمشیر بھی فتنہ
شمشیر ہی کیا نعرۂ تکبیر بھی فتنہ
اقبال ؒ
پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی اور قتل و غارت گری کے موجودہ رجحانات دراصل اسی پالیسی کا ہی تسلسل ہیں۔ اسکو عروج اس وقت حاصل ہوتا ہے جب امریکہ کے ایماپر سعودی عرب اور ضیاء الحق کی ناجائز حکومت کا گٹھ جوڑ ہوتا ہے۔ اس نام نہاد اسلامائیزیشن کا مقصد ایک مخصوص فرقہ کی بالا دستی جبکہ دیگر فرقوں اور غیر مسلم اقلیتوں سے سرزمین پاکستان کو پاک کرنا مقصود تھا۔ اس مقصد کیلئے ہر ہتھکنڈہ ریاستی سرپرستی میں اختیار کیا گیا۔ خود رَو مشرومز کی طرح سے مدرسے قائم کئے گئے جہاں یکجہتی کی بجائے نفاق و نفرت کی فصل کاشت کی جاتی رہی۔ بھائی کو بھائی سے لڑانے کی ہر ممکن سبیل پیدا کی گئی۔ نتیجہ کے طور پر نوبت بہ ایں جا رسید کہ پاکستان میں تمام اقلیتوں کے علاوہ نہ تو آج شیعہ محفوظ ہیں نہ ہی مساجدنہ امام بارگاہیں نہ مدرسے نہ بازار و تفریحی مقامات اورنہ ہی سکول محفوظ ہیں ۔ آج پاکستان میں رہنے والی اقلیتیں عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ وہ لوگ سوال کرتے ہیں کیااس لئے پاکستان کی تحریک میں ہمارے اکابرین نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا کہ آج ہم پر عرصۂ حیات تنگ کردیا جائے۔ قرائین گواہ ہیں کہ قرار دادِ پاکستان (1940ء) کے مطابق پاکستان نے ایک اسلامی ریاست بننا تھا۔ مذہبی ہرگز نہیں۔ قائدِ اعظم جن کا بذاتِ خود تعلق ایک اقلیتی جماعت سے تھا وہ پاکستان کو کسی مخصوص فقہ یامسلک کی اساس پر بنانے کا ارادہ ہرگز نہیں رکھتے تھے۔ اگر ایسا ہوتا تو تعمیر پاکستان میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ آل انڈیا کرسچن لیگ، مسٹر جوگندر ناتھ منڈل کی آل ا نڈیا اچھوٹ فیڈریشن،دادا امیر بھائی کی آل انڈیا کیمونسٹ پارٹی ،شیعہ، اسماعیلی حضرات اور دیگر اقلیتی فرقے تحریکِ پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ نہ لیتے۔انہوں نے ہمہ قسم کی اخلاقی، ادبی، اور صحافتی امداد بہم پہنچائی۔ ان کا خیال تھا کہ ہندوستان کے سرمایہ دارانہ نظام میں اُنہیں نہ عزت ملی اور نہ وقار، لیکن چمنستان پاک میں اُنہیں عزت بھی ملے گی اور وقار بھی۔اس کے علاوہ مسلمانوں کے اپنے اندر بھی بے پناہ فرقے موجود ہیں ۔ آئینی طور پر یہ سب پاکستان کے شہری ہیں۔ ان کی جان، مال عزت ،روزگار کا تحفظ ریاستِ پاکستان کی ذمہ واری ہے۔ لیکن موجودہ صورتحال میں ریاست ہمیں بے بس نظر آ رہی ہے۔
مذہبی ہم اہنگی کے فروغ کیلئے اور باہم مذہبی جذبات کو مجروح ہونے سے بچانے کیلئے 1860ء میں برٹش حکومت نے آئین میں دفعہ 295کو شامل کیا۔ یہ ایک اچھا اقدام تھا جس کے تحت برّ صغیر میں موجود تمام مذاہب کی عبادت گاہوں کو بلا تخصیص تحفظ فراہم کیا گیا۔ اس جمہوری اور سیکولر شق نے برِ صغیر میں امن عامہ قائم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس قانون کی خلاف ورذی کی سزا دو سال قید،یا قید اور جرمانہ تھی۔ بعدازاں تحریکِ آزادی زور پکڑ گئی ۔ہندو مسلم فسادات پر قابو پانے کیلئے 1927ء میں اس دفعہ میں ترمیم کرکے 295-A کی شکل دی گئی۔جس کے تحت کسی بھی مذہب کے ماننے والوں کے جذبات کو مجروح کرنے کی سزا اس میں شامل کی گئی اور سزا کو دو سال سے بڑھا کر دس سال قید اور قید بمع جرمانا کیا گیا۔ پچپن سال بعد 1982ء میں ضیاء الحق نے اس قانون میں دوسری ترمیم(295-B) کرکے اس میں پاکستان میں رہنے والے ایک سٹیک ہولڈر یعنی صرف مسلمانوں کی مذہبی کتاب قرآنِ پاک کی توہین کی سزا عمر قید شامل کر دی۔ پاکستان مختلف المذاہب لوگوں کا ملک ہے جس میں تمام مذاہب کے پیروکاروں کی مقدس کتابوں اور مذہبی جذبات کو بھی اتنا ہی تحفظ درکا ر تھا جتنا مسلمانوں کی مذہبی کتاب کو حاصل ہے۔ یہ ترمیم عدم توازن کی ایک مثال ثابت ہوئی ۔تاہم قیامِ پاکستان سے لیکر1986ء تک اس دفعہ(295-B) کے تحت صرف14مقدمات رجسٹرڈ ہو سکے۔ معاملہ یہیں پر رُکا نہیں جنرل ضیاء الحق پر امیر المؤمنین بننے کا خبط سوار تھا۔ اس نے ایک مرتبہ پھر1986ء میں اسی آئینی دفعہ میں تیسری مرتبہ ترمیم کرکے اسے295-Cکی شکل میں نافذ کردیا۔ جسکے تحت پیغمبرِ پاک حضرت محمد صلے اﷲ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی سزا موت یا عمر قید اور جرمانہ مقرر کی گئی۔ اس ترمیم کے نافذ ہونے سے لیکر 2014تک تقریباً 1300کے لگ بھگ لوگ اس دفعہ کی زد میں آئے ہیں۔ یہ ترمیمی قانون اقلیتوں کے ساتھ ساتھ مخالف فرقہ کے لوگوں کیلئے ایک مہلک ترین ہتھیار کی شکل میں سامنے آیا ہے۔ اِن درج مقدمات میں 70کے قریب لوگوں کو عدالتی ٹرائل سے پہلے ہی صفائی کا موقعہ دئیے بغیر موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا ہے مسیحوں کی بستیاں جلا دی گئیں۔کئی افراد کو زندہ جلا دیا گیا۔ خود کش بمباروں کو اگر پھٹنے پر مجبور کیا جاتا ہے تو اس کے پسِ پشت بھی مخالف فرقہ کو مار کر جنت میں حوروں سے فیض یاب ہونے کا جذبہ کارفرما ہوتا ہے۔ اگر ہم اس ترمیمی دفعہ کے تحت درج مقدمات کا جائزہ لیں تو بیشتر کے پس منظر میں ہمیں ذاتی مخاصمت، لین دین کا تنازعہ، اور جائیداد پر قبضے کے جھگڑے نمایاں نظر آتے ہیں۔ہر مقدمہ اپنے اندر ایک داستان رکھتا ہے۔ چند مثالوں سے واضح کرتا ہوں۔ ایوب مسیح ایک بھٹہ مزدور تھا۔ اسکااپنے پڑوسی کے ساتھ زمین کا تنازعہ چل رہا تھا ۔پڑوسی کی شکایت پراسے 295-Cکے تحت گرفتا رکیا گیا۔ 1998ء میں اسے سزائے موت سنائی گئی۔ اس فیصلہ پر احتجاج کے طور پر بشپ جان جوزف نے خود کشی کر لی۔ سیموئل مسیح جو کہ ٹی بی کا دیرینہ مریض تھا۔ مسجد کی بیرونی دیوار پر تھوکنے کے الزام میں295-Cکے تحت گرفتار ہوا۔ بیماری کے باعث جیل کے ہسپتال میں زیر علاج تھاکہ ایک پولیس آفیسر فریاد علی نے خدا کی رضاکو پانے کیلئے دوسرے افسران کی موجودگی میں اسکے سر پر ہتھوڑے کے پے در پے وار کرکے ہلاک کر دیا ۔ اس طرح کے بیسیوں واقعات ہمارے سامنے ہیں۔ سانحۂ گوجرہ ہو یا کوٹ رادھا کشن میں زندہ جلائے جانے والے مسیحی جوڑے شہزاد اور اسکی حاملہ بیوی شمع کا توہین کے نام پر بیہمانہ قتل تو ابھی کل ہی کی بات ہے۔
1990ء میں وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کی روشنی میں پارلیمنٹ نے اس جُرم پر عمر قید کی سزا کو حذف کرکے صرف سزائے موت کو برقرار رکھا۔حالانکہ فقہائے اُمت کے درمیان ہر دور میں اس موضوع پر اختلافِ رائے رہا ہے۔ اسی طرح اس کیس کی سماعت کے دوران بھی متعدد اہلِ علم حضرات نے اختلافی بیان قلم بند کروائے کہ معروف دستور کے مطابق ملزم کو توبہ کا موقعہ ضرور ملنا چاہیے۔ان اہل علم حضرات میں دیو بندی مکتبۂ فکر سے دارالعلوم کراچی کے شیخ الحدیث سبحان محمود، بریلوی مکتبۂ فکر کے غلام سرورقادری اور اہلحدیثوں کے حافظ صلاح الدین نے سزائے موت کے حوالہ سے اختلافی مؤقف اختیار کیا۔ لیکن بد نیتی کے تحت پارلیمنٹ میں بحث کے دوران اس اختلافی مؤقف کو پیش نہ کیا گیا۔ تاہم وفاقی حکومت نظرِ ثانی کیلئے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں لے گئی۔ لیکن موجودہ اور اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے یہ اپیل واپس لینے کا حکم دیدیا اور کہا کہ ’’ اس جرم کی سزا اگر موت سے بڑھ کر ہو تو وہ تجویز دی جائے‘‘۔ اندازہ لگائیے ان کے عزائم وقت آنے پر سامنے آئے ۔اسی ترمیم کی بدولت میاں برادران کے بدترین ناقد اور گورنر وقت سلیمان تاثیر سے نجات ملی۔یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ مذکورہ فیصلہ صادر کرنے والی وفاقی شرعی عدالت کے بنچ میں کوئی باقاعدہ عالمِ دین بھی شامل نہیں تھا۔
تاہم اب یہ موضوع انتہائی حساس رُخ اختیار کر چکا ہے۔ اس موضوع پر بحث کرنے سے پہلے ہم مختلف فقہی آرا کو دیکھتے ہوئے سیرتِ نبوی صلے اﷲ علیہ وسلم سے معلوم کرنے کی کوشش کریں گے اور آخر میں قرآن پاک کی پالیسی پر نظر ڈالیں گے۔ فقۂ حنفی کے مطابق گستاخِ رسول کی سزا موت ہے۔ لیکن اس کیلئے امام ابن حجرؒ کی جس روایت کا حوالہ دیا جاتا ہے اس کے مطابق دراصل یہ متعین سزا ارتداد یعنی دین سے پھر جانے کی ہے۔ ارتداد اور گستاخئ رسول کے مفہوم میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
(فتح الباری۱۲/۲۸۱/ ۱۲ تا ۱۶).
انہی فقہا کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے ہم یہ فرض کر لیتے ہیں کہ مُرتد یعنی اسلام سے منحرف ہونے کی سزا تو موت ہے لیکن غیر مسلم پر یہ متعین سزا کیونکر لاگو ہو سکتی ہے۔ جبکہ ارتداد کے حوالہ سے بھی فقہا کے دو مختلف فیصلے موجود ہیں۔ جن میں پہلا تو حتمی موت ہے۔ جبکہ قرآنِ پاک موت کی نفی کرتے ہوئے اُسے زندہ رہنے کا حق دیتا ہے۔ اپنے بلیغ اسلوبِ میں دشمنانِ رسول صلے اﷲ علیہ وسلم کے لئے جسمانی سزا کا اشارہ تو نہیں فرماتا ، بلکہ اس بدبخت کو دخولِ جہنم کی بدخبری ضرور دیتا ہے۔
وَمَنْ یُّشَا قِقِ الرَّسُْوْلَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہٗ الْھُدٰی وَ یَتَبِعُ غَیْرَسَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنِ نُوَ لِہٖ مَا تَوَ لٰی وَ نُصْلِہٖ جَھَنَّمَ سَآءَ تْ مَصِیْراً۔
سچائی واضح ہونے کے بعدجو کوئی (ہمارے رسول صلے اﷲ علیہ وسلم )کی مخالفت کرتا اور غیر مسلموں کی راہ چلتا ہے تو وہ جہاں کا رُخ کریگا اسی پر چلا جائیگا۔
اور انجام کار اُسے جہنم کا مزا چکھایا جائے گا۔ اور یہ بہت ہی بُرا انجام ہے۔ (نساء۔ ۱۱۵)
آیہ مبارکہ میں پہلا حرف ’’من‘‘ عموم کا متقاضی ہے۔ یعنی مخالفتِ رسول کا مرتکب کوئی بھی ہو خواہ یہودی، مجوسی مسیحی، ہندو یا پھر مسلمان اسکی سزا جہنم کا بد ترین انجام ہے۔ قرآنِ پاک کی واضح پالیسی کی روشنی میں جسمانی سزا کو جہنم کی سزا میں بدل کر بات ختم کر دی گئی ہے۔ ویسے بھی ایک انسان جب تک مسلمان ہے گستاخِ رسول صلے اﷲ علیہ وسلم ہو ہی نہیں سکتا۔ ہاں اگر کسی بد نسل، بدبخت کا دماغ آؤٹ ہو ہی جاتا ہے اور وہ طیش میں آکر اپنی بد زبانی کا نشانہ ذاتِ خداوندی اور شانِ رسولِ اقدس کو بناتا ہے یا قرآنِ پاک کو زمین پر پٹخ دیتا ہے ایسے خفیف الدم (ہلکے) انسان کی بکواس یا عمل پر اسے سزائے موت یا عمر قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔ لیکن اس کیلئے بھی فقہاء کا دوسرا نقطۂ نظر دیکھنا ضروری ہے۔ امام ابوحنیفہ ؒ کے براہ راست شاگرد امام یوسف ؒ کی ’’کتاب الخراج‘‘ جو کہ درحقیقت عباسی خلیفہ ہارون الرشید کے نام ایک خط ہے ،جسکا مخاطب ریاست ہے۔ اس کے مطابق
’’جو مسلمان مرد بھی نبی کریم صلے اﷲ علیہ وسلم کو بُرا بھلا کہے آپ کی تکذیب کرے آپ کی عیب جوئی کرے یا آپ کی تنقیص کرے تو اس نے اللہ کے ساتھ کفر کیا۔ اس کی بیوی اس سے جدا کر دی جائے اگر وہ توبہ کر لے تو ٹھیک ہے وگرنہ اسے قتل کر دیا جائے۔ یہی حکم عورت کا ہے۔ تاہم امام ابو حنیفہ ؒ کے مطابق عورت(توبہ نہ کرنے کے باوجود بھی) قتل نہ کی جائے گی‘‘۔
(کتاب الخراج ۔ص ۱۸۲ مطبوعہ ادارۃ القرآن کراچی)
جبکہ ہمار اموجودہ قانون فقۂ حنفی کی بجائے امام ابن تیمیہؒ کی رائے کی نمائندگی کر رہا ہے۔ لہذا ضروری ہے کہ ایسی قانون سازی کی جائے جس پر تمام فقہائے ملت کا اتفاق ہو۔یہاں یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ دورِ رسالت کے جن واقعات کو جواز بنا کر گستاخِ رسول صلے اﷲ علیہ وسلم کی سزا سر تن سے جدا کا حوالہ دیا جاتا ہے ان سزا پانے والوں میں سے تو کچھ لوگ ایسے بھی تھے جن کا اسلامی ریاست کا شہری ہونا ثابت ہی نہیں ہے۔ بعض حالتِ جنگ میں مارے گئے۔ بعض پر گستاخیئ رسول صلے اﷲ علیہ وسلم کے علاوہ دیگر جرائم بھی ثابت تھے۔ بعض بدبخت گستاخی کا جُرم ایک آدھ بار نہیں بلکہ تقرار کے ساتھ کر رہے تھے۔ اس حوالہ سے امام الہند مولانا ابو الکلام آزادؒ سورۂ نساء کی آیت 90کا بیان کرتے ہیں۔
َفَاِنِ اعْتَزَلُوْکُمْ فَلَمْ یُقَاتِلُوْکُمْ وَ اَلقَوْ اِ لَیْکُمُ السَّلَمَ۔فَمَا جَعَلَ اللہُ لَکُمْ عَلَیھِمْ سَبِیْلاً۔
(ترجمہ): پس اگر وہ تم سے (اور تمہارے دین سے) کنارہ کش ہو گئے۔ پُر امن رہے اور صلح وسلامتی کا پیغام بھی بھیج بیٹھیں۔
تو پھر خدانے تمہارے لئے کوئی گنجائش نہیں رکھی کہ اُنہیں چھیڑو۔ (نساء۔۹۰)
امام الہندؒ اس آیہ مبارکہ کی تشریح میں فرماتے ہیں کہ ،
’’یاد رہے قرآن نے دو حالتوں کے سوا کسی حال میں بھی قتلِ نفس کو جائز نہیں رکھا ہے ۔یا تو لڑائی کی حالت ہو۔ یا قانون کی رُو سے کسی مجرم کو سزا دی جائے مثلاً قتل کے بدلے قتل کیا جائے گا‘‘۔ (ترجمان القرآن جلد اوّل ص ۳۸۴ و ۳۸۵۔ طبع لاہور)
اسی طرح امام الہند ؒ سے ایک ہندو اہلِ علم نے راجپال آریہ سماجی کے توہین رسالت کی مد میں کئے گئے قتل پر استفسار کیا کیا یہ فعل اسلام کی پالیسی سے تعلق رکھتا ہے۔ مولانا نے بڑا مدّلل جواب مُرحمت فرمایا جسکا خلاصہ یہ تھا کہ
’’قتل کے جس واقع کے پس منظر میں سوال کیا گیا ہے اسلام کی نسبت ایسی مجنونانہ تعلیم کا تصور کرنا بھی اسکے خلاف ہے۔ سخت سے سخت اتہام (بہتا ن) ہے۔نعوذ باللہ اگر اسلام کی ایسی تعلیم ہو ۔ اور اس نے اپنے پیروؤں کو قتلِ انسانی کا پروانہ دے رکھا ہو۔ (مکالمات ابوالکلام طبع دکن ۱۹۴۶۔ص ۲۰۹)
دُ نیا کے دیگرمسلم ممالک میں توہینِ رسالت کے قانون پر نظر ڈالیں تو اس کے لئے اُنہوں نے شرعی قانون کی بجائے ریاستی قانون پر عملدرآمد کو اختیار کیا ہوا ہے۔ جیسا کہ انڈو نیشیاء میں اس پر زیادہ سے زیادہ پانچ سال کی سزا دی جاتی ہے۔توہینِ رسالت ہو خواہ توہین مذاہب یہ سنگین نوعیت کے جُرم ہیں اور ان کی سزا رائج ملکی قانون کے تحت یقیناً ملنی چاہئے لیکن اس ساری بحث کے دوران یہ کہاں لکھا ہے کہ اس جُرم کے مرتکب افراد کو سزا دینے کا اختیار ریاست کی بجائے افراد کو حاصل ہے؟ اس حوالہ سے علماء کی خاموشی معنی خیزہے۔ مولانا طارق جمیل اور اس قبیل کے دوسرے افراد گریہ کرکے جنید جمشید کی گستاخی کو توبہ کا موقع دلاسکتے ہیں جبکہ اسی نوعیت کے دیگر واقعات میں اُنکی خاموشی اور اُنکا طرزِ عمل کہیں اس شبہ کو تقویت تو نہیں دے رہا کہ معاملہ عقیدے سے زیاد ہ سیاسی اور ذاتی نوعیت کا ہے۔
اس بحث کو سمیٹتے ہو ئے ہم سیر ت النبی صلے اﷲ علیہ وسلم سے کھوج لگاتے ہیں کہ آپ نے کسی بھی وقت اپنے گستاخ کا سر قلم کروایا؟
ہمارے ایمانیات کا بنیادی ماخذ قرآن پاک کے بعد آپ صلے اﷲ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ ہی ہے۔
) صحیح بخاری میں انس بن مالکؓ اورعائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ یہودیوں کا ایک وفد رسول اکرم صلے اﷲ علیہ وسلم سے ملنے بارگاہِ رسالت میں آیا اور کہا السام علیک(تم پر موت مسلط ہو، تباہی وارد ہو ) اس پر صحابہ کرامؓ نے کہا یا رسول اللہ صلے اﷲ علیہ وسلم کیا یہ ممکن ہے کہ ہم ان نابکاروں کو قتل کر دیں۔
آپ صلے اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا قتل نہیں کرو بس یہ کرو کہ اہلِ کتاب جب تمہیں سلام کریں تو جواب میں صرف علیکم کہو۔ آگے نہ بڑھو۔یعنی السلام نہ کہو۔
) اسی طرح جنگِ بدر میں فتح حاصل کرنے کے بعد ایک گستاخِ رسول صلے اﷲ علیہ وسلم سہیل بن عمرو کو آپ صلے اﷲ علیہ وسلم کے حضور پیش کیا گیا۔یہ آپ
کے خلاف پُراشتعال اور نفرت انگیز تقریریں کیا کرتا تھا اور توہین آمیز اشعار بھی پڑھتا تھا۔ اس سے بڑھ کر گستاخ کون ہوسکتا تھا۔ حضرت عمرؓ نے تجویز
دی میں اسکے دو نچلے دانت نکال دیتا ہوں۔ یہ اسکے بعد شعر نہیں پڑھ سکے گا۔ آپ صلے اﷲ علیہ وسلم نے تڑپ کر فرمایا میں اس کے اعضاء بگاڑ دوں تو اللہ
میرے اعضاء بگاڑ دیگا۔ سہیل بن عمر گڑگڑانے لگا میری پانچ بیٹیاں ہیں مجھے فدیہ کے بغیر رہا کر دیا جائے۔آپؐ نے رحم کی اپیل سن کر اس گستاخ کو بغیر کسی
سزا کے رہا کرنے کا حکم جاری کر دیا۔
) ثماثہ بن اثال نے رسول اللہ صلے اﷲ علیہ وسلم کو قتل کرنے کا اعلان کر رکھا تھا۔ یہ گرفتارہو گیا۔ اسے اسلام قبول کرنے کی دعوت دی گئی۔ اُس نے انکار کر
دیا۔ یہ تین دن قید میں رہا ۔اُسے تین دن دعوت دی جاتی رہی۔ یہ مذہب بدلنے پر تیا نہ ہواتو اسے چھوڑ دیا گیا۔ (کہ لا کرہ فی الدین) اُس نے راستے
میں غسل کیا نیا لباس پہنا۔واپس آیا اوردستِ مبارک پر بیعت کر لی۔
) گستاخئ رسول صلے اﷲ علیہ وسلم کا ایک اور واقعہ ملاحظہ کیجئے۔ حضرت عاشہ صدیقہؓ نے ایک دن رسول اللہ صلے اﷲ علیہ وسلم سے سوال کیا ۔آپ ؐ کی زندگی کا مشکل ترین دن کونسا تھا؟ فرمایا وہ دن جب میں طائف میں گیا۔اور طائف کے سردار ابن عبدیا لیل بن عبد کلال نے شہر کے بچے جمع کرکے مجھ پر پتھر برسائے۔ میں اس دن کی سختی کو نہیں بھول سکتا۔اس بدبخت نے آپ صلے اﷲ علیہ وسلم پر اتنا ظلم کیا کہ رحمتِ خداوندی بھی جوش میں آگئی۔جبرائیلِ امین ؑ تشریف لائے اورعرض کی اگر اجازت دیں اِس پورے شہر کو دو پہاڑوں کے درمیان پیس کر رکھدوں۔ آپ نے ایسا کرنے سے نہ صرف منع کیا بلکہ بعد ازاںیہی ابن عبدیالیل طائف کے لوگوں کا وفد لیکر مدینہ منورہ آیا۔آپ صلے اﷲ علیہ وسلم نے اس گستاخ کی نہ صرف تکریم کی بلکہ مسجدِ نبویؐ میں اس کا خیمہ لگوایا اور اسکی ہرممکن دلجوئی کی۔
) رئیس المنافقین عبداللہ بن اُبی جس نے آپ صلے اﷲ علیہ وسلم کے خلاف اتنا سخت جملہ بولا کہ سورۃ المنافقون میں یہ جملہ نقل کیا گیا۔اسکی وفات پر آپ ؐ نے نہ صرف اسکا جنازہ پڑھایا بلکہ فرمایا میری ستر دُعاؤں سے اگر اسکی مغفرت ہو سکتی تو میں ستر مرتبہ سے زیادہ اسکے لئے دُعا کرتا۔
اس کے علاوہ مکہ کی پوری زندگی میں بعض اوقات آپ صلے اﷲ علیہ وسلم کا نام تک بگاڑا گیا۔آپ ؐ پر غلاظت سے بھرپور اوجڑی پھینکی گئی، راستے میں کانٹے بچھائے گئے۔طنز و تشنیع کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا گیا۔ لیکن مجال ہے کہ آپ صلے اﷲ علیہ وسلم کی رحمت اور عفو و درگزر میں کوئی کمی آئی ہو۔ الغرض آپ صلے اﷲ علیہ وسلم نے اپنے ہر طرزِ عمل سے ایک مثالی انسان ہونے کا ثبوت دیا۔ آپ صلے اﷲ علیہ وسلم کی زندگی کے ان واقعات میں گستاخِ رسولؐ کوسزا دینا تو درکنار ہر جگہ ہمیں آپ ؐ کی رحمت کا سمندر ٹھاٹھیں مارتا دکھائی دیتا ہے۔تاہم ایک کمزورروایت اُمِ مروان کے مرتد ہونے پرقتل کرنے کی پیش کی جاتی ہے۔ امام احمد ؒ کے مطابق اسکا راوی عبداللہ بن اُذینہ کذاب اور وضاع حدیث تھا۔اور احناف اسے قصاص کا قتل قرار دیتے ہیں۔
خلاصۂ بحث یہ ہے کہ رحمتِ عالم آقائے نامدار حضرت محمد صلے اﷲ علیہ وسلم تھیا کریسی کی تاریک راہ میں حرّیتِ فکرکی صبحِ درخشاں بن کر تشریف لائے تھے۔جنہوں نے عقیدے کی بنیادپر انسان اور انسانوں کے درمیان ہر قسم کی تفریق کو باطل قرار دیا تھا۔ اور ایک انسان کو دوسرے انسان کے ریاستی اور مذہبی جبر سے نجات دلانے کیلئے اللہ کی غیر جانبدار حاکمیت کا احساس دلایا کہ اسلام کی اخلاقیات منظم ، مربوط ،آرگنائزڈ ،سیکولر اور آفاقی ہیں ۔ اسے جبراً وقہراً فرقہ ورانہ قومیت کے مفہوم میں محدود کرنا نفسیاتِ وحی سے کھلا انحراف ہے۔ اسلام نوح علیہ السلام سے لیکر سیّدنا محمد رسول صلے اﷲ علیہ وسلم تک تمام انبیاء کا مشترکہ آہنگ رہا ہے۔ اسکا کردار ہر دور میں باطل کے حریف کا رہا ہے۔ یہ آئینِ خداوندی ہے اور قرآن پاک اس آئین کا حتمی اور فائنل ورژن ہے۔جس میں خود قرآن پاک کو ’’ھدی للناس‘‘ (البقرۃ۔۱۵۸)یعنی کل کائناتِ بشری کی راہنمائی والی کتاب قرار دیا گیا ہے۔ اور اسی طرح ’’رب العالمین ‘‘ کے دلآویز اور معنی خیز الفاظ کے ذریعے اللہ رب العزت کا تصور پیش کیا گیا ہے۔
آپ صلے اﷲ علیہ وسلم کے بارے میں قرآنِ پاک کا ارشاد ہے کہ
وَمَا اَرْ سَلْنٰکَ اِلَّا کَآفَّہً لِلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّ نَذِیْرًا۔
اے محمدؐ ہم نے آپ کو تمام لوگوں کیلئے خوشخبری سنانے اور نتائجِ بد سے آگاہ کرنے والا بنا کر بھیجا ہے۔ (سباء۔ ۲۸)
لیکن اب افسوس تو اس بات کا ہے کہ صدیوں سے پھیلے ہوئے غلط اندازِ فکر نے اسلام کے حقیقی آفاقی کردار کو محدود کرکے فرقہ ورانہ عقائدمیں سمیٹ کر رکھ دیا ہے۔
بھرے مجمعوں میں جذباتی تقریریں کر کے لوگوں کے جذبات کو ابھارنا تو بہت ہی آسان ہے۔ لیکن ان جذبات کے ردعمل کے نتیجہ میں اہلِ اسلام کو دُنیا بھر میں جن مشکلات اورتکالیف کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اُن کو کنٹرول کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔مذہبی انتہا پسندی اور اُمتِ مسلم کے روز افزوں محدود ہوتے ہوئے کردار کے باعث مغرب کی فکری اور ثقافتی یلغار کے بھرپور حملے ہورہے ہیں۔ یہ حملے چارلی ہیبڈو کی شکل میں ہوں یا ملعون پادری ٹیری جونز کی صورت میں ہو۔ ایسے بیسیوں واقعات میں شدت کے ساتھ اضافہ ہو رہاہے۔ اہلِ مغرب کے شر پسند اور بیمار ذہن کے حامل افراد توہین رسالت کی صورت میں حُبِ رسول صلے اﷲ علیہ وسلم کے حوالہ سے مسلمانوں کیجذباتی وابستگی کو چیلنج کر رہے ہیں۔ یورپ کا اسلاموفوبیا روز بروز بڑھتا جارہا ہے۔ سوشل میڈیا پر باقاعدہ ایک مہم کی صورت میں توہین رسالت کی جارہی ہے۔ اس پر مستزاد امریکی نرسری میں پلنے والی انتہا پسندتنظیمیں القائدہ ، طالبان، آئی ایس ٓئی ایس ہو یا بوکو حرام ،انکی جانب سے اپنے ہی مسلمانوں اور عیسایوں کے اجتماعی قتلِ عام کی ویڈیو کلپس نے عالمی سطح پرمسلمانوں کے خلاف ایک عجیب ہیجانی جذبات پیدا کر دیئے ہیں۔ ایسی صورت میں جذباتی انداز فکر اختیا کر کے اپنے ہی اموال اور ملک کا امن و امان برباد کرنے کی بجائے ہمیں سورۃ النساہ سے راہنمائی کا راستہ ملتا ہے۔
وَقَدْ نَزَّلَ عَلَیْکُمْ فِی الْکِتٰبِ اَنْ اِذَا سَمِعْتُمْ اٰیٰتِ اللہِ یُکفَرُبِھَا وَ یُستَھْزَاُبِھَا فَلَاتَقْعُدُوا مَعَھُمْ حَتیّٰ یَخُوْضُوْا فِیْ حَدِیْثٍ غَیْرَہَ اِ نَّ کُمْ اِذًا مِثْلُھُمْ۔
حالانکہ تم (مسلمانوں) پر اللہ اپنی کتاب میں یہ حکم نازل کر چکا ہے کہ جب تم (اپنے کانوں سے ) سن لو کہ اللہ کی آیتوں سے انکار کیا جا رہا ہے اور انکی ہنسی اڑائی جا تی ہے
تو ایسے لوگوں کے ساتھ مت بیٹھو یہاں تک کہ وہ کسی دوسری باتوں میں لگ جائیں بصورتِ دیگر تم بھی ان جیسے کافر ہو جاؤ گے۔ (النساء۔ ۱۴۰)
اس آیہ مبارکہ کے بعد کوئی بات کہنے کو رہ نہیں جاتی کہ غیر مسلموں کی بدمعاشیوں کا کیسے جواب دینا ہے۔ تاہم اپنی صفوں کی درستگی کے لئے اتنا کہنے کی جسارت ضرور کروں گا کہ کیا ہم واقعی رحمۃ العالمین ؐ کی سیرتِ طیبہ کی درست طریقے سے تصویر کشی کر رہے ہیں؟ہم یہ سب کچھ حُبِ رسول صلے اﷲ علیہ وسلم میں اور نیک نیتی کے ساتھ کر رہے ہیں۔ لیکن غیر شعوری طور پر اپنے نتائج کے اعتبار سے آنحضرت صلے اﷲ علیہ وسلم کے خلاف مغرب کے ملعون کارٹون سازوں اور اسلام دشمن عناصر کے مقاصد کی اس سے تائید تو نہیں کر رہے۔جہاد اور قتال جو کہ قرآن کی روشنی میں جائز ہے اس کا حق صرف اور صرف ریاست کے پاس ہے۔ آج پاکستان میں منور حسن کے فتویٰ جہاد کے تحت نہ تو کوئی اقلیت محفوظ ہے اور نہ ہی کسی فرقہ کو تحفظ حاصل ہے۔ نہ ہی کسی جگہ پر انسانیت کو پناہ حاصل ہے۔ علمی اور منطقی گفتگو کرنے کی ہمارے ہاں ہرگز گنجائش نہیں ہے۔ یہ مباحث کفر اور اسلام کے معرکہ کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ اختلاف کرنے والوں کیلئے ہمارے پاس لادینیت اور گمراہی سے کم کوئی فتویٰ سرے سے ہے ہی نہیں۔ توہینِ رسالت کے ارتکاب کو روکنے کیلئے عالمِ اسلام کو چاہیے کہ بین الاقوامی سطح پر ہم آہنگی پیدا کرنے کیلئے اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔ اور یورپ کے اسلاموفوبیا کے خاتمہ کیلئے اسلام کی حقیقی اور آفاقی تصویر پیش کریں۔اپنی صفوں میں گھسی کوتاہ نظرکالی بھیڑوں کی پہچان کریں۔جن کی نظر میں ہر مخالف فرقہ گستاخ ، کافر اور واجب القتل ہے۔ اس ہزیان کاخاتمہ از حد ضروری ہے۔ مذہبی نصاب میں رائج تقاضوں کے مطابق تبدیلی ناگزیر ہے۔ تاکہ ہماری آنے والی نسلیں شاہ دولہ کے چوہے بن کر دُنیا کے سامنے نہ آئیں۔ آخر میں ایک جملہ
’’حُبِ رسول صلے اﷲ علیہ وسلم ہر مسلمان کا حاصلِ ایمان ہے ۔لیکن اسے کاروباری مقاصد کیلئے تجارت کا مال بنانا بجائے خود ایک گستاخی ہے‘‘۔

حالیہ بلاگ پوسٹس