Qalamkar Website Header Image

مادھو لعل ؒ کے شہر سے سندھ کنارے تک(2) -قمر عباس اعوان

qamar abbas awanکوٹ ادو کے سفر کے دوران دوسرے دن میں کہہ بیٹھا کہ اس سفر کی داستان میں دو قسطوں میں تحریر کروں گا۔ مجھے نہیں پتہ تھا کہ عامر حسینی اس پر پکے ہو جائیں گے اور اپنی تحریر میں اعلان کر دیں گے کہ قمر دو قسطوں میں اس سفر کی روداد لکھے گا۔ میں تھوڑا ہچکچا اس لئے بھی رہا تھا کہ قلم کار کی ذمہ داریوں میں مجھے بہت کم وقت ملتا ہے کہ خود کچھ لکھ سکوں۔ میرا یہی ارادہ ہوتا ہے کہ جتنا وقت اپنی تحریر لکھنے میں لگانا ہے اس میں کسی دوسرے قلم کار کی تحریر لگا دوں۔ خیر جیسے تیسے کر کے میں نے کچھ حصہ لکھ ہی دیا۔ سوچا تھا اس کے بعد یار لوگ بھول جائیں گے کہ دوسرا حصہ بھی آنا ہے۔ لیکن یہ جو نیا نیا دوست ہے ناں ناظم شاہ یہ ہر دوسرے تیسرے دن مجھے انباکس میں یاد کرواتا رہتا ہے کہ ملک صاحب ہمیں دوسرے حصے کا انتظار ہے۔ خیر اتنے دن ٹالنے کے بعد جب کل رات دوبارہ میسج ملا تو سوچا لکھ ہی دوں کہ دوست ناراض ہی نہ ہو جائیں۔
جس دن صبح ہم کوٹ ادو پہنچے راستے میں ہمارا پروگرام تھا کہ ناشتے کے بعد نیند پوری کریں گے اور پھر تازہ دم ہو کر بیٹھک ہو گی۔ اور خوب باتیں ہوں گی۔ لیکن ناشتے کے بعد باتوں کا سلسلہ کچھ ایسا چلا کہ رک نہ پایا۔ اس میں زیادہ ہاتھ رضوان گورمانی اور صدیف گیلانی کا تھا۔ ان دونوں نے تو رات بھر نیند کے مزے لوٹے ہوئے تھے اس لئے تازہ دم ہی تھے۔ باتیں کرتے کرتے طے ہوا کہ رضوان کے ڈیرے سے اٹھا جائے اور صدیف کے ڈیرے پر چلتے ہیں۔ وہاں باتیں بھی ہوں گی اور ہم وہاں ہی سو جائیں گے۔ اتنے میں صدیف کو "ہیڈ کوارٹر” سے کال آ گئی۔ ہمیں کہتا کہ میں جا کر بندوبست کر کے آتا ہوں۔ ہم نے بہت روکا کہ نہیں اکٹھے چلیں گے رک جاؤ۔ لیکن تھوڑی دیر بعد سختی سے آرڈرز موصول ہوئے تو زبردستی روانہ ہو گیا۔ 20 منٹ کا کہہ کر گیا تھا لیکن 120 منٹ بعد آیا۔ اور آتے ہوئے بھنی ہوئی مونگ پھلی اٹھا لایا۔ دھوپ میں بیٹھے مونگ پھلی کھانے لگے۔ ساتھ ساتھ ہی باتیں بھی چل رہی تھیں۔ صدیف گیلانی اور رضوان گورمانی بار بار کوشش کر رہے تھے کہ عامر حسینی اور مرشد حیدر جاوید سید فلسفیانہ گفتگو کریں۔ مرشد تو چونکہ میرے ساتھ مل کر خود عامر حسینی کو کہہ چکے تھے کہ دانشوری نہیں دکھانی وہاں صرف لطف اندوز ہونا ہے۔ تو مرشد نے حتی الامکان خاموشی اختیار کی۔ لیکن عامر بھائی نے بھی ایسا پاس رکھا اس بات کا کہ زندگی میں اب صدیف گیلانی بالخصوص اور رضوان گورمانی بالعموم اس دانشوری کو سننے سے دور بھاگیں گے۔ گورمانی کیونکہ خبریں ملتان میں کالم نگار ہے اور صدیف گیلانی بھی متمنی ہے کہ پارٹ ٹائم رائٹر کی بجائے فل ٹائم کالم نگار بنے اس سلسلے میں دونوں نے بار بار اصرار کر کے عامر حسینی سے مشورے مانگے۔ عامر بھائی نے بہتیرا سمجھایا کہ یار ابھی تم لوگوں کی عمر ہی کیا ہے۔ زندگی کو انجوائے کرو۔ چھوڑو اس جھنجٹ میں نہ پڑو۔ لیکن یہ دونوں تھے کہ ماننے پر راضی نہ تھے۔ بالآخر عامر بھائی نے ان دونوں کو ایک مشورہ دیا۔ بالخصوص صدیف گیلانی کو اس عمل پر زیادہ عمل کرنے کو کہا۔ اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ عمل کیا ہے۔ تو وہ عمل ہے "شنٹو”۔ خبردار اگر کسی نے میرے سے پوچھنے کی کوشش کی کہ یہ شنٹو کا عمل کون سا ہے۔ میں عملیات پر یقین نہیں رکھتا اس لئے کسی کو یہ عمل نہیں بتاؤں گا۔ ہاں عامر حسینی اگر چاہیں تو وہ آپ کو بتا سکتے ہیں۔ اور اگر رضوان گورمانی اور صدیف گیلانی کو اس عمل سے کوئی "فائدہ” ہوا ہے تو وہ بھی بتا سکتے ہیں۔ اس لئے میرے سے پوچھنے کی کوشش فضول ہی ثابت ہو گی۔ اور مرشدی حیدر جاوید کو فون کر کے منع کر دیا ہے کہ وہ بھی کسی کو نہ بتائیں۔ کیونکہ "عملیات شنٹو ” کتاب کہاں سے ملے گی یہ مرشد کو بخوبی پتہ ہے۔ ( ویسے یہ بتا دوں مارکیٹ بے شک ساری ڈھونڈ لیں آپ لوگوں کو بنا مستند پتے کے کہیں نہ ملے گی)۔
دوپہر کے کھانے کا انتظام گورمانی کی طرف سے ہی تھا۔ کھانا کھا کر ہم لوگ صدیف کے گھر روانہ ہوئے۔ وہاں جا کر چائے پی اور کچھ دیر بعد ہم نے فیصلہ کیا کہ رہائش کے لئے ہوٹل چلا جائے۔ ہوٹل جا کر چائے کا ایک اور دور چلا۔ چائے کے دور کے دوران عامر حسینی نے صدیف کو "شنٹو "کے کچھ اعمال دوبارہ تفصیل سے سمجھائے۔ پھر ہم نے صدیف اور گورمانی کو رخصت کیا کہ اب آرام کر لیں۔ رات کا کھانا صدیف کی طرف تھا۔ اس نے کافی پرتکلف انتظام کیا ہوا تھا۔ رات کے کھانے کے بعد صدیف کے والد صاحب سے ملاقات ہوئی۔ انتہائی سادہ آدمی ہیں لیکن سیاست سے گہری دلچسپی اور نہ صرف دلچسپی بلکہ علاقے کی سیاست پر بالخصوص اور ملکی سیاست پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں۔ وہاں کافی سیاسی باتیں بھی زیرِ بحث آئیں جو کہ آپ لوگ عامر حسینی بھائی اور مرشد حیدر جاوید سید کے کالمز میں پہلے ہی پڑھ چکے ہیں۔ ہوٹل آ کر پھر گفتگو کا ایک اور دور چلا۔ اور اگلی صبح کے پروگرام کے بارے میں بات کی گئی۔ ڈاکٹر عباس برمانی صاحب ڈی جی خان سے تشریف لا رہے تھے اس ملاقات کے لئے۔ اصغر گورمانی بھی فیصل آباد میں تھے وہ وہاں سے آرہے تھے۔ اور ملاقات کے لئے وقت صبح 10 بجے کا طے تھا۔ سو ہم نے بھی پروگرام فائنل کر کے نیند پوری کرنے کی ٹھانی تاکہ صبح وقت پر پہنچ سکیں۔ چونکہ قبلہ حیدر جاوید سید نے تو اگلے دن واپس جانا تھا لیکن مجھے اور عامر بھائی کو اتوار کو ہی واپس نکلنا تھا اس لئے ہمیں زیادہ فکر تھی کہ سارے کام وقت پر انجام پائیں اور ہم وقت پر واپس چلے جائیں۔
جاری ہے۔

حالیہ بلاگ پوسٹس