Qalamkar Website Header Image

بکرا – سید جاوید حیدر

جب میں پیدا ہوا تو صحیح طور پر کھڑا نہیں ہو سکتا تھا مجھے بچوں نے گود میں اٹھا لیا یہ ہمارے مالک کے بچے تھے مجھے بے حد پیار کرنے لگے میں بہت خوبصورت تھا لیکن رنگ کالا تھا کہیں کہیں سفید دھبے ستاروں کی مانند لگ رہے تھے فطرتی طور پر میں اپنی ماں کو ڈھونڈنے لگا اور چھلانگ لگا کر گرتا سنبھلتا اپنی ماں کے پاس دوڑا اور اس کے تھنوں سے دودھ پینے لگا۔ آہستہ آہستہ بڑا ہونے لگا اب میں بڑی پھرتی سے اونچی نیچی جگہوں پر دوڑتا اٹھکیلیاں کرتا ، اب آسانی سے بچوں کے ہاتھ بھی نہیں آتا تھامیرا ایک بھائی جو مجھ سے عمر میں کافی بڑا تھا ایک دن کچھ لوگ آئے اور اسے خرید کر کہیں لے گئے ۔ زندگی بہت حسین گزر رہی تھی، ایک روز بچے بیمار ہو گئےرات کسی ہوٹل میں کھانا کھانے گئے تھے ہمارا مالک کسی سے بات کر رہا تھا کہ ہوٹل والوں نے گدھے کا گوشت پکایا ہوا تھا جس پر چھاپہ پڑنے سے خبر پھیلی۔ ’’بہت ظالم انسان ہیں‘‘۔ مجھے کچھ تعجب ہوا لیکن میں کھیل میں مصروف ہو گیا۔ کچھ عرصے کے بعد ہمارا مالک ایک گائے کا بچھڑا خرید کر لایا جو بہت پیارا تھا بچوں نے اسے خوب سجایا اور اپنے محلے کے دوستوں کو دیکھانے لے گئے۔ روزانہ اس کی خدمت ہوتی اور بچے سکول سے آتے ہی اس کی دیکھ بھال میں لگے رہتے ایک روز سب نے نئے لباس پہنے اور صبح سویرے نماز پڑھنے چلے گئے جب واپس آئے تو ان کے ساتھ ایک بڑی بڑی مونچھوں والا آدمی ہاتھ میں کچھ اوزار لئے آیا سب اس بچھڑے کے گرد جمع ہو گئے میں یہ منظر بڑے انہماک سے دیکھ رہا تھا اس آدمی نے پہلے اس کی ٹانگیں باندھی اور پھر اسے دھڑام سے نیچے گرایا سب ایک طرف کو ہو گئے آدمی نے بڑی پھرتی سے اس کے گلے پر چھری چلائی، خون کا فوارا چھوٹا اور بچھڑا تڑپنے لگا، میں یہ منظر دیکھ کر سہم گیا دوڑ کر اپنی ماں کے پاس پہنچ گیا میرے دل کی دھڑکن بہت تیز ہو رہی تھی بہت ڈر لگ رہا تھا۔ اب میں زیادہ کھیلنا بھی پسند نہیں کرتا تھا بچے بھی اپنی پڑھائی میں مصروف رہتے ویسے بھی اب بچے میرے ساتھ کم ہی کھیلتے تھے شائد اب تھوڑا بڑا جو ہو گیا تھا ایک روز ہمارے مالک کی بیوی شدید بیمار پڑ گئی بہت علاج معالجے ہوئے لیکن افاقہ نہ ہوا پھر انہیں کسی نے بتایا کہ فلاں پیر صاحب ہیں جو ہر بیماری کا علاج کرتے ہیں ڈاکٹرجسے لا علاج کہ دیتے ہیں یہ پیر صاحب اسکا بھی علاج کر دیتے ہیں۔ اب پیر صاحب نے بھی اپنا منتر اور علاج شروع کردیا لیکن کچھ فرق نہ پڑا۔ ایک روز جب پیر صاحب کے ہاں سے واپس آئے تو میں صحن میں کھیل رہا تھا سب بڑے پریشان تھے مالکن ادھر صحن میں پڑی چارپائی پر لیٹی ہوئی تھی ۔ کچھ دیر بعد مالک ایک آدمی کے ساتھ گھر میں داخل ہوا جس نے کپڑے میں کچھ لپیٹا ہوا تھا ۔ مالک میرے قریب آیا اور مجھے پیار کرنے لگا اس سے پہلے اس نے مجھے ایسا پیار نہ کیا تھا مجھے کان سے پکڑ کر اس آدمی کے پاس لے آیا آدمی کپڑے میں لپٹی ہوئی چھریوں کو باہر نکال کر تیز کرنے لگا۔ میں گبھرا گیا اور جان چھڑانے کے لیے جست لگائی لیکن مالک نے مجھےسختی سے دبوچ لیا مالک کے بڑے بیٹے نے میری ٹانگیں باندھنا شروع کی مجھے بھی زبردستی زمین پر لٹایا گیا میں نے جان چھڑانے کے لیے بہت زور آزمائی کی لیکن بے سود۔ مالک اس آدمی سے کہ رہا تھا کہ’’ پیر صاحب نے کالا بکرا صدقہ کرنے کو کہا ہے کسی نے ہمارے گھر پر کچھ کالا علم وغیرہ کر رکھا ہے‘‘ اتنے میں تیز چھری میری گردن پر چلی اور میں بلبلاتا چلا گیا۔

حالیہ بلاگ پوسٹس