شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال برِصغیر کا وہ سورج جس کی روشنی نے پورے پاک و ہند میں اجالا کر دیا۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی مسلمانوں کی مذہبی عزت کو للکارا گیا،جب بھی ان کی آزادی پربری نظر ڈالی گئی انہوں نے اینٹ کا جواب بھی پتھر سے دیالیکن جب اپنوں سے ملے تورحماء بینھم کی عملی تفسیر بن گئے۔
ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزمِ حق و باطل ہو تو فولادہے مومن
لیکن مقامِ افسوس ہے کہ آج مسلمان باہم انتشار و افتراق کے بگولوں میں جل رہے ہیں۔ قومِ فاران کا شیرازہ بکھر رہا ہے۔مسلم ریاستیں نا اتفاقی کے بحر بیکراں میں غرق ہو چکی ہے۔ بھائی، بھائی کے سینے میں خنجر گھونپ رہا ہے۔ اسرائیل امریکہ کی شہ پر عربوں کی پشت پر پنجے گاڑھ رہا ہے۔ سعودی عرب یمن کو نوچ رہا ہے۔بھارت پاکستانیوں کوآنکھیں دکھا رہا ہے اور نہایت افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ ملک کا مستقبل پہ نوجوان اپنے بزرگوں سے بھی زیادہ نفرتوں میں بٹ چکے ہیں ۔بنتِ حوا طبلہ کی تھاپ پر ناچ رہی ہے۔فرقہ واریت، ذات پات اور غربت کے نام پر قتل ہو رہے ہیں۔کشمیر لہو لہو ہے، فلسطین خاک و خون میں لوٹ رہا ہے۔آئی ایم ایف قرضے دے دے کر ہمیں زنجیروں میں جکڑ رہا ہے۔
ارضِ وطن کی زمین قیمتی پتھروں ، اہم ترین جواہرات، سونے چاندی ، پٹرول اور تیل سے مالا مال ہے۔ گلگت اور سوات کے دریاؤں میں بہہ کر آنے والا سونا لاہور، کراچی اور راولپنڈی کے بازاروں میں آ کر بکتا ہے جسکا منبع ہم آج تک تلاش نہیں کر سکے۔ سوچنے کا مقام ہے غریب اور غریب اور امیر ، امیر تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ مڈل کلاس ختم ہوتی جا رہی ہے۔سیاستدان لیاقت باغ، موچی دروازے اور قصہ خوانی جیسی جگہوں پر جانے سے گبھراتے ہیں۔ ہر سطح پر غذائی ملاوٹ کا انتظام موجود ہے جسے کوئی روکنے والا نہیں۔
آج اقبال کے شاہین جنہوں نے ستاروں پر کمندیں ڈالنی تھیں کچھوؤں کے جوتے پہن کر ماؤنٹ ایورسٹ کو سر کرنے چلے ہیں۔ کاغذ کی کشتی کو سدا بہانے چلے ہیں۔ہم ہاتھ میں کشکول اٹھائے خدا کے سامنے جھکنے کی بجائے اغیار کے سامنے جھکے ہوئے ہیں۔
اے طائرِ لاہوتی، اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
پہاڑ ہمارے پاس، سرسبز اونچائیوں کے ہم مالک، ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہمارے سینہِ ارض میں دفن، بے بہا خزانوں کے مالک ہم، لیکن افسوس ہم پیغمبرِ حق کے ماننے والے اپنی ضروریات کی تکمیل کے لیے اغیار کے سامنے کشکول پھیلاتے ہیں۔
بتوں سے تجھ کو امیدیں، خدا سے نومیدی
مجھے بتا تو سہی او ر کافری کیا ہے
ہم نوجوان ملتِ اسلامیہ کا آخری سہارا ہیں۔ ہمیں ملت کے ناسور کی شافی دوا بننا ہے۔اللہ نے بے پناہ صلاحیتیں ہمیں عطاء کی ہیں گلشن کی بہار ہم سے ہے، اگر ہم پر عزم ہو گئے تو ہمارا عزم مشکلات کو ریت کی دیوار بنا دے گا۔یقینِ محکم سے کام لیں اتحاد و اتفاق کے پیغام کو گلی گلی، نگر نگر پھیلا کر رنجشوں کو مٹا کر ، فرقہ پرستی کو جڑ سے اکھاڑ کر ایک تسبیح کے دانے ہو جانے میں ہی سمجھداری ہے۔
خداد وسائل کو بروئے کار لا کرامریکہ، روس اور برطانیہ کو اپنا دستِ نگر بناؤ، خدا کے حضور جھک کر سب سے بے نیاز ہو جاؤ۔
اگر جواں ہوں میری قوم کے جسور و غیور
قلندری مری کچھ کم سکندری سے نہیں
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn