Qalamkar Website Header Image

سپریم کورٹ ایک بار پھرنظریہ ضرورت کے راستے پر؟ – انور عباس انور

rp_Anwar-Abbas-Anwar-new-291x300.jpgدوہزار بارہ کے مہینہ ستمبر کی یکم ہے،” سپریم کورٹ کے چیف جسٹس انور طہیر جمالی اور امیر ہانی مسلم پر مشتمل دو رکنی بنچ نے چیف سکریٹری سندھ کی جانب سے خلاف ضابطہ ترقیوں پر عدالتی احکامات نظر انداز کرنے پر برہمی کا اظہار کیا ہے، ڈیپوٹیشن پر آئے افسران سکریٹری بلدیات علی احمد لوند اور ڈپٹی ڈائریکٹر اینٹی کرپشن ذوالفقار نظامی کو فوری طور پراپنے اپنے محکموں میں رپورٹ کرنے کی ہدایت کی۔”
اخبار کے اسی صفحہ پر پیپلز پارٹی کے راہنما سینٹر اعرزاز احسن کا بیان شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے کہا کہ” وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کا جانا ٹھہر گیا ہے عدالتیں امتیاز نہیں کر سکیں گی خط کے حوالے سے کوئی درمیانی راستہ نکلنے کا کوئی امکان نہیں۔راجہ پرویز اشرف بھی یوسف رضا گیلانی کی طرح نا اہل ہوں گے” 
اخبار کے صفحہ آخر پر ایک خبر چھپی کہ” سپریم کورٹ میں مقامی میگزین کے چیف ایڈیٹر محسن جمیل نے” رجسٹرار سپریم کورٹ کا آئینی حدود سے تجاوز” کے عنوان سے شائع شدہ خبر پر ملنے والے نوٹس کا جواب جمعہ کو داخل کردیا ہے،جس میں انہوں نے صرف خبر کی وضاخت چھاپنے سے انکار کیا ہے، بلکہ واضع کیا ہے کہ رجسٹرار کی جانب سے ارسلان افتخار کے معاملے کے حوالے سے لندن کی کمپنیوں کو بھیجی گئی ای میل حقیقت ہے،جس کی تصدیق حکومت کے متعلقہ ادارے سے کرائی جا سکتی ہے کہ یہ ای میل پاکستان میں تیار کی گئی یا ملک سے باہر تیار ہوئیں ، جواب میں مزید کہا گیا ہے کہ عدالت چھپنے والی رپورٹ کے حوالے سے اس بات کی بھی وضاحت کرے کہ کہیں ای میل کا معاملہ محض رجسٹرار کی ملازمت میں توسیع سے توجہ ہٹانے کے لیے تو نہیں اٹھایا گیا،رپورٹ کی اشاعت پلس میگزین کا اخلاقی فرض تھا تاکہ قارئین تک حقائق پہنچائے جا سکیں۔”
یکم ستمبردوہزار بارہ کے اخبار کے صفحہ اول پر ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل پاکستان کی جانب سے وزیر اعظم پاکستان سے کہا گیا کہ 91 کروڑ روپے کے گولان گول پن بجلی منصوبے( ہائیڈرو پاور پروجیکٹ) کا ٹھیکہ فوراََ روکا جائے، کیونکہ واپڈا پبلک پروکیورمنٹ رولز کی سنگین خلاف ورزی اور ٹینڈرکے عمل میں ساز باز کی گئی ہے تاکہ پسندیدہ کمپنی کو نوازا جائے،ٹرانسپرنسی ا نٹر نیشنل پاکستان نے وزیر اعظم کے پرنسپل سکریٹری کے ذریعے وزیر اعظم سے رابطہ کرکے انہیں بتایا ہے کہ میسرز رین پاور کو ٹھیکہ دینے سے قومی خزانے کو 91 کروڑ روپے کا نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے اور جبکہ پاکستان کے کویت فنڈ برائے عرب اکنامک ڈویلپمنٹ سے تعلقات خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔
یہ محض چند جھلکیاں ہیں جس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ” زرداری دور میں حکومت اور حکومت کے وزیر اعظم کو کس قدر آزادی کے ساتھ کام کرنے کی سہولت حاصل تھی۔زرداری کے پانچ سالوں میں ہر بات پر از خود نوٹس لیا جانا ،ہر ایر ے غیرے کی جانب سے دائر پٹیشن کو سند قبولیت عطا کرناایسا تھا جیسے معزز سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودہری اور ان کے رفقائے کار کے فرائض منصبی میں شامل ہو۔ اگر کسی بیو روکریٹ نے اپنے تبادلے کو عدالت کے روبرو اٹھا تو اس کے” آنسو معزز ججز نے انصاف کے رومال سے پونچھے” اور اگر کوئی عدالت کا دروازہی کھٹکھٹانے سے غافل ہوا تو عدالت نے از خود نوٹس لیکر حکومت کو ڈی گریڈ کرنے کی کوشش ضرور کی۔۔۔ اخبارات کے تراشے( جنہیں اب عدالت کا پانامہ بنچ وہ ردی کہتا ہے جس میں پکوڑے بکتے ہیں) اٹھا کر دیکھ لیا جائے تو ان سطور کی صداقت اور حقیقت قارئین کے پر واضح ہوجائے گی،حالانکہ اسی بنچ کے اکثر جج صاحبان سابق چیف جسٹس کے ساتھ بیٹھ کر ایسے کیسز سنتے رہے ہیں جو محض اخباری خبروں پر مشتمل ہوا کرتے تھے، وقت وقت کی بات ہے یہی کہا جا سکتا ہے کہ” جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے”
ابھی پاکستانی عوام کے ذہن میں تازہ ہے کہ سابق صدر زرداری نے ذوالفقار علی بھٹو دی گئی پھانسی کی سزاکے خلاف عدالت عظمی میں ایک ریفرنس دائر کیاتھا اسے بھی بغیر نمٹائے عدالت کی الماریوں کے سرد خانوں کی نذر کردیا گیا ہے۔عدالت عظمیٰ کے معزز ججز نے اس پر فیصلہ دینے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی، ججز کو چاہیے تھا کہ اس ریفرنس کو قبول کرتے یا مسترد کرکے ہمیشہ کے لیے اس باب کو بند کردیتے۔ لیکن ججز نے تو ریفرنس دائر کرنے والوں کے وکیل کا لائنسنس ہی معطل کردیا، جو کئی ماہ تک معطل رہا۔
اسی طرح زندگی میں پہلی بار (شائد) کالاکوٹ پہن کر عدالت عظمی کے روبرو پیش ہوکر نواز شریف کا دائر کردہ میمو گیٹ سکینڈل کہاں ہے، اس کا کیا نتیجہ برآمد ہوا؟ عدالت عظمی نے اس پر کیا فیصلہ دیا؟شائد کسی کوبھی اس کی خبر نہ ہو ۔۔۔میمو گیٹ کیس آج اسی مقام پر پڑا ہے جہاں سولہ سترہ سال اصغر خاں کیس پڑا رہا۔۔۔ آصف علی زرداری اور حسین حقانی کو غدار ثابت کرکے انہیں اقتدار کے ایوان سے سیدھے پھانسی گھاٹ تک لیجانے کی خواہش کرنے والے آج میموگیٹ کو یکسر فراموش کرچکے ہیں۔ لیکن پاکستانی قوم کے دل و دماغ میں میموگیٹ پہلے دن کی طرح تازہ ہے، اور وہ اس دن کے انتظار میں ہے جس دن میموگیٹ کے خالقین قانون کی گرفت میں آئیں گے۔ انشا اللہ وہ دن ضرور آئے گا اور محب وطنوں کو غداری کے طوق پہنا کر انہیں پھانسی کے پھندے پر جھولانے والوں کا انجام میں بھی دیکھوں گا اور پورا کل عالم بھی دیکھے گا۔

یہ بھی پڑھئے:  ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے

 

حالیہ بلاگ پوسٹس