حلب میں ترکی، سعودی عرب، قطر اور امریکہ کے گماشتوں کی شکست کے بعد ہائے حلب ہائے حلب کے ماتم کی صدائیں ان کے گھروں سے بلند ہو رہی ہیں جو پاکستان میں اپنے ہم خیال دہشت گرد تنظیموں کے ہاتھوں 80 ہزار مردوزن کی شہادتوں پر "در وٹے” (چپ) رہے۔ یہی حلب تھا جہاں جہادالنکاح کے لئے جہاد اسلامی شام نے پچھلے سال محصور خاندانوں کی 200 سے زیادہ بچیوں کو اغواء کر لیا تھا۔ مگر ہمارے امہ چورن فروشوں کے منہ سے احتجاج کاایک لفظ نہیں نکلا۔ عقل کے ان اندھوں کو شام میں شیعہ ، سنی ، عیسائی اور دیگر طبقات کی آبادیوں کا تناسب معلوم ہی نہیں ۔ ان کا بس ایک ہی بھاڑے کا فرض ہے جو بھی آلِ سعود کی بربریت (مذہبی اور کرائے کے گوریلوں کے ذریعے پھیلائی جانے والی) کے خلاف آواز بلند کرے اس پر ایران نواز اور شیعہ ہونے کا لیبل لگا دو تاکہ جعلی برانڈ کا وہابی فیکٹری کا تیار کیا ہوا شیعہ سنی چورن فروخت ہوتا رہے۔ مگر اس کا کیا کیا جائے کہ ترقی نے دنیا کو جو پر لگائے ہیں اس کی وجہ سے سچ تیسرے قدم پر گھٹنے ٹیکنے کے لئے آن موجود ہوتا ہے۔ آج کا سچ یہ ہے کہ حلب کو شام کی سنی، عیسائی اور دیگر طبقات پر مشتمل فوج نے روس کے تعاون سے آزاد کروایا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ سعودی اسلام کی نظر میں ناقابلِ معافی جرم ہے اس لئے مجرموں کے خلاف امریکہ سے سعودی عرب ، حماس سے سپاہ صحابہ ، جماعتِ اسلامی پاکستان سے ترکی کے خلیفہ اردگان تک سب ایک ہی راگ الاپ رہے ہیں۔ مملکتِ شام کیا ہے؟ وہی ملک جس نے عراق ایران جنگ میں سعودی دباؤ کے باوجود ایران کا ساتھ دیا۔ امریکہ کو ناراض کرکے اڑھائی عشروں تک فلسطینی حماس کے سیاسی دفتر کو دمشق میں کام کرنے دیا (اسی حماس کے سیاسی شعبہ کے سربراہ خالد مشعل کو حلب میں جیش الشام (النصرہ فرنٹ) کی شکست پر بہت دکھ ہے۔ یہی صاحب ایک طویل عرصے تک شامی حکومت کے مہمان کے طور پردمشق کے پوش علاقے میں مقیم رہے) لبنانی حزب اللہ کی سیاسی و عسکری مدد کی۔ اسی شام کی اکثریتی آبادی صوفی سنی عقیدے کی حامل ہے۔ آگے بڑھنے سے قبل ایک سادہ سا سوال ہے۔ کیا بلادِ عرب میں سیاسی کردار اور بالادستی کا حق کسی قرآنی پیغام کی بدولت فقط سعودی عرب کو حاصل ہے؟ فہمیدہ جواب یہ ہے کہ جی نہیں ۔اپنے سیاسی رویوں، پالیسیوں (وہ ملکی ہوں ، علاقائی یا پھر عالمی) کے حوالے سے ممالک آزاد ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ میں امریکی سرپرستی اور اسرائیل تعاون سے سیاسی قیادت و بالادستی کی خواہش میں ایک طرف سعودی عرب ہے تو دوسری طرف شام بھی ایرن اور روس کے تعاون اور چین کی خاموش تائید سے ایسے ہی کردار کا خواہش مند۔
عجیب بات یہ ہے کہ پاک و ہند کے مسلمانوں کے ایک طبقہ کے نزدیک علاقائی بالادستی اور قیادت کی سعودی خواہش تو شرعاََ جائز ہے اور وہ اس کے حق میں دلائل کا انبار ہی نہیں اٹھا رکھتے بلکہ لشکرِ طیبہ والے امیر حمزہ کی طرح حدیثیں بھی گھڑ لیتے ہیں۔ مگر شام یا کسی دوسرے ملک کی ایسی خواہش ارتداد کے مترادف سمجھی جاتی ہے۔ بہار عرب کی آڑ میں لیبیا کو برباد کروانے والوں نے الٹی زقند بھرتے ہوئے جب مصر میں عوام کے منتخب صدر محمد مرسی کی جگہ کمانڈر السیسی کی حکومت کے "حلالے” کو جائز قرار دیا تو پاک وہند کے خلافتیئے اورتکفیریوں نے چپ سادھ لی۔ اسی بہار عرب کی آڑ لے کر شام میں بشارالاسد کو رخصت کرنے کا سامان کیا گیا۔ مقامی حزبِ اختلاف کو ترکی نے منظم کیا۔ سیاسی داؤ ناکام ہوئے تو امریکہ، ترکی، قطر، سعودی عرب اور برطانیہ نے شامی اپوزیشن کو بشار کے خلاف مسلح جدوجہد پرآمادہ کیا اور یوں عراق میں القاعدہ کے تحت کام کرنے والے ایک شامی گروپ کو النصرہ فرنٹ کے نام سے میدان میں اتارا گیا۔ النصرہ فرنٹ وہ مسلح تنظیم ہے جسے فقط ایک ملک قطر سالانہ ڈیڑھ ارب ڈالر کی امداد سرکاری طور پر فراہم کرتا ہے۔ النصرہ فرنٹ، جہاد اسلامی شام اور پھر داعش ۔ ان تینوں کو شام کے میدانِ جنگ میں اتارنے والے کردار دنیا کے سامنے ہیں۔ اس وقت چونکہ ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان ایٹمی معاہدہ نہیں ہوا تھا اس لئے شیعہ سنی واحد چورن بلکہ بلیک مارکیٹ میں خوب فروخت ہوا۔ مگر جوں جوں وقت گزرتا گیا خود شامی عوام پر حقیقت آشکار ہوتی گئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ سرکاری فوج سے بھاگ کر 7 ہزار آزاد شامی آرمی میں شامل ہونے والے 80 فیصد سے زیادہ افسر اور جوان پچھلے ڈیڑھ سال کے دوران سرکاری فوج میں واپس آگئے۔ بشار مخالف عسکری تنظیموں نے جس طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، خاندانِ رسالت مآب ﷺسے تعلق رکھنے والی برگزیدہ شخصیات اور ابنیائے کرام ؑ کے مزارات شہید کرنا شروع کئے تو شامی عوام کو احساس ہوا کہ بشار الاسد کی سیاسی مخالفت کے نام پر شام میں ایک نئے عقیدے کی بالادستی کی راہ ہموار رہی ہے۔ افسوس یہ ہے کہ انبیاء ؑ و صحابہ کے مزارات کی توہین کا مقصد شامی عوام تو سمجھ گئے مگر بھاڑے کے بھونپو اپنا ہی راگ الاپتے رہے۔ دیگر عومل اپنی جگہ ہیں مگر شام کے مختلف طبقات بشار مخالف نظریات کے باوجود اپنے قومی تشخص اور شام کے مسلکاََ صوفی سنی چہرے کی بحالی کی امنگ مسلح جنگجوؤں کی جانب سے مزارات کی توہین اور جنگجوؤں کے قبضے والے علاقوں میں خواتین کے اغواء، نکاح برائے جہاد کے لئے کی جانی والی سختی اور قدیم تاریخی و ثقافتی اثاثوں کی بربادی نے پیدا کی۔ بدلتی ہوئی صورتحال کے تناظر میں روس کا بشار حکومت کے ساتھ کھڑا ہونا بھی ایک وجہ بنا حلب کی واگزاری پر ۔روتے دھوتے تکفیری اور ان کے سہولت کار اس سوال کو نظر انداز کیوں کر دیتے ہیں کہ ممالک اپنی پالیسیاں بنانے میں آزاد ہیں۔ اگر ترکی ،سعودی عرب، قطر، امریکہ و برطانیہ کے تعاون سے شام میں مرضی کی حکومت بنوانے کا حق رکھتے ہیں تو خطے کے دوسرے ممالک بشمول ایران کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے مفادات کو مدِ نظر رکھے۔ کڑوا سچ یہ ہے کہ شام پر بالادستی کی سعودی جنگ دم توڑ رہی ہے۔ حلب میں ملکی و غیر ملکی جنگجوؤں کی شکست سے بشار حکومت کا مورال ہائی ہوا ہے۔ مگر اس سے آگے کا سچ یہ ہے کہ شام کی جنگ خالصتاََ اقتدار کی جنگ تھی اور ہے۔ چند ممالک ایک فریق کے پیچھے کھڑے تھے تو چند دوسرے فریق کے پیچھے۔ ہر دو طرح سے نقصان شام اور اس کے باشندوں کا ہوا۔ مغربی میڈیا اور اس کے ڈالروں پر پلنے والے تجزیہ کاروں کے جھوٹ کا پردہ چاک ہو رہا ہے۔ تکفیریوں کو شام میں ذلت آمیز رسوائی کا سامنا ہے۔ اس جنگ کو شیعہ سنی جنگ بنا کر پیش کرنے والوں کے چہروں پر وقت نے سیاسی مل دی ہے۔ یہ داغ سرف ایکسل سے بھی صاف نہیں ہونے کے۔ البتہ منافقین کی درگت بن رہی ہے۔ حلب نکتہء آغاز ہے۔ ابھی تکفیریوں کی ذلتوں اور شکست کے مزید میدان لگیں گے۔ پاکستان میں امت یا شیعہ سنی چورن فروخت کرنے والوں کی دکانیں بھی زیادہ دیر تک چلنے کی نہیں۔ کاش انہیں سمجھ آجائے کہ طاقت کا کوئی مذہب و مسلک نہیں ہوتا۔ طاقت کی غذا فقط اقتدار ہے۔ وہ چاہے بھائی کی لاش پر دستر خوان لگا کر ہی کیوں نہ حاصل کیا جائے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn