Qalamkar Website Header Image

حساس لوگ مرتے کیوں نہیں؟ عامر حسینی

blood-on-sandبہت حساس موضوع ہے صاحب!
آپ مت لکھئے گا اس پہ 
یہ آصف تھا، زیادہ پڑھا لکھا نہیں ہے،مگر مرا دوست بن گیا ہے۔کامیاب کاروباری ہے۔کتاب پڑھی نہیں جاتی مگر گفتگو سننے کا بہت رسیا ہے۔مرے پاس رات کو اکثر آکر بیٹھتا ہے۔آج میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھی۔چھوٹا بھائی طاہر بہت تھک گیا تھا۔اس نے معذرت کی کہ وہ بچوں کو شہر کی سجاوٹ دکھانے نہیں لیجاسکتا۔مری ناک اور آنکھوں سے پانی جاری تھا۔بخار اور فلو نے توڑ کر رکھ دیا تھا۔میں نے اس حالت میں آصف کو بلایا تو وہ اپنی گاڑی لیکر آگیا۔میں نے اسے تھوڑی دیر ڈرائنگ روم میں بٹھایا اور اسی دوران چکوال میں ہوئے اندوہناک واقعہ کی خبریں آنا شروع ہوگئیں۔میں تھوڑا اور ڈیپریس ہوگیا۔اور میں نے آصف کو تھوڑی دیر رکنے کو کہا اور لیپ ٹاپ کھول کر اس پہ اپنا ردعمل دینے لگا تو آصف نے دیکھ لیا اور اسی دوران یہ جملے کہے کہ حساس موضوع ہے مت لکھئے۔لیکن کیا محسوس کرنے والے اور درد انسانیت رکھنے والے صرف اس وجہ سے لکھنا بند کرسکتے ہیں کہ موضوع حساس ہے۔میں جب بچوں کو شہر کی سجاوٹ دکھاکر واپس آیا تو میں نے سجاد ظہیر کی بیٹی نور سجاد ظہیر کی کتاب "ریت پہ خون ” پڑھنا شروع کردی۔
میں کسی اور کتاب کی تلاش میں گیا تھا وہاں،حسب معمول وہی ہوا،کتاب نہیں ملی،اور یونہی دکان پہ کتابوں کے شیلف دیکھتے ہوئے "ریت پہ خون” کے عنوان سے کتاب پہ نظر پڑ گئی اور میں نے کتاب خرید لی۔کئی دن سے یہ کتاب مری نئی خرید کردہ کتابوں میں پڑی پڑھے جانے کی منتظر تھی ،اس دوران میں نے پاؤلو کوہلو کی کتاب "جاسوسہ” پڑھی، رابن سرکار کی دوزخ نامہ اور بنا پھول کے افسانوں کا مجموعہ اور الیاس کھوری کا شکستہ آئنیہ پڑھا۔لیکن ریت پہ خون نے مجھے اپنے سحر میں ایسا لیا کہ میں شدید بخار، سخت نزلہ اور سینے کی جکڑن کے باوجود اس کتاب میں موجود کہانیوں کو پڑھ لیا۔
"سب سے بڑا” یہ ایک ایسی عورت کی کہانی ہے جو اپنے سسر کی جانب سے زیادتی کا نشانہ بنتی ہے اور جب وہ اس حوالے سے محلے کے مولوی سے فتوی لیتی ہے تو مولوی اپنے بڑے ملّاؤں کے ساتھ ملکر فتوی یہ دیتا ہے کہ زیادتی کا شکار عورت اپنے شوہر پہ حرام ہوگئی اور اب اسے سسر سے نکاح کرنا ہوگا اور اپنے شوہر اول سے پردہ کرنا ہوگا۔یہ اس فتوے کو مانتی نہیں اور سول کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹاتی ہے۔اس کے کیس کی دھوم پورے ہندوستان میں مچتی ہے اور عدالت اس کے حق میں فیصلہ دیتی ہے۔اس دوران این جی اوز سے اس کو کچھ پیسہ ملتا ہے جو اس کے شوہر کے ہاتھ میں آتا ہے اور اس دوران وہ اپنے بریلی کے مولویوں کو دے دلاکر فتوی لے آتا ہے کہ اب تو وہ اپنے شوہر کے پاس بہرحال نہیں رہ سکتی۔شوہر طلاق دے دیتا ہے اور یہ اپنے بچوں سمیت زہر کھالیتی ہے مگر بچے مرجاتے ہیں یہ بچ جاتی ہے اور جیل میں ہوتی ہے جہاں نئی جیلر ایک نئی سائیکو تھراپی کے ساتھ آتی ہے اور سب قیدی عورتوں سے کہتی ہے کہ وہ اپنا سب سے بڑا گناہ بتائیں۔یہ اپنی داستان سناتی ہے کہ کیسے اسے گھر سے درس ملا ہوتا ہے کہ برقعہ اور چاردیواری عورت کی عزت کی سب سے بڑی ضمانت ہیں۔یہ اس پہ عمل کرتی ہے اور چاردیواری میں سسر اس کی عزت لوٹ لیتا ہے۔اور اب جیلر کو سمجھ نہیں آتا کہ اس کا بڑا گناہ کونسا ہے؟ برقعہ اور چار دیواری یا مولوی سے رجوع کرنا یا پھر عدالت جانا یا پھر زھر کھالینا۔
"فرازانہ کے منہ پہ طنزیہ مسکراہٹ آئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے یقین کیا کہ گھر میں عورت کی عزت محفوظ ہوتی ہے۔یقین کیا عورت جو برقعہ پہنتی ہےاسے سب عزت کی نظروں سے دیکھتے ہیں۔زمانہ اس کا ساتھ دیتا ہے۔خود اس کا نگہبان ہوتا ہے۔اس جھوٹ پہ بنا سوچے سمجھے ،بنا جانچے پرکھے یقین کیا،مرا سب سے بڑا گناہ ہے۔” 
"ایک بیوقوف عورت” ہلادینے والی کہانی ہے ایک ایسی خاتون کی جو بہت ذہین ہے۔ماسٹرز کرجاتی ہے اور وہ بھی بائیولوجی میں اور ڈی سی ایس اس کا خواب ہوتا ہے امریکہ سے جو بنا شادی کئے پورا نہیں ہوسکتا تھا۔اتنی پڑھی لکھی لڑکی سے شادی کرنے کا رسک کون لے گا، بس پھر کیسے ایک انتہائی پڑھی لکھی خاتون ایک اوسط درجے کے آدمی کی بیوی بنتی ہے اور کیسے اس کی انا کو تسکین دینے کی خاطر اسے ایک بیوقوف عورت کا روپ دھارن کرنا پڑتا ہے۔یہ کہانی اسی کے گرد گھومتی ہے۔
"ریت پہ خون” ایک لکھت کار ،صحافی لڑکی رابعہ کے ساتھ پیش آنے والے ایک واقعہ ہے جو وہ نکسل باڑی تحریک میں شامل عورتوں پہ ایک فیچر ہندوستان کے شہر کھومٹی میں آئی ہوتی ہے اور پھر ایک ہوٹل میں اسے نئے آئی سی ایس لڑکوں اور لڑکیوں کے ایک ٹولی سے ایک ہوٹل میں پتا چلتا ہے کہ کچھ نکسل باڑیوں کو پکڑا ہے پولیس نے اور وہ ڈی سی کا اجازت نامہ لیکر جب ان سے ملنے جاتی ہے تو پھر اسے ان میں ایک راجھستان کا لڑکا بھی دکھائی دیتا ہے۔یہ لڑکا کیسے نکسل واڑیوں میں جاگھسا تھا۔وہ رابعہ کو اپنی کہانی بتاتا ہے کہ کیسے راجھستان میں ان کا گاؤں ایک نئی نہر نکالے جانے کے لئے مختص جگہ میں آگیا اور پھر یہ پورا گاؤں وہاں سے اٹھ کر ایک جنگل میں بسایا گیا جہاں پینے کے لئے پانی بھی دو کلومیٹر سے لانا پڑتا تھا۔ان سے وعدہ ہوا کہ جب نہر چالو ہوجائے گی تو پانی ان کو ملے گا لیکن ایسا نہ ہوا۔جب ایک چناؤ میں ایک خاتون امیدوار نے ان سے وعدہ کیا کہ جیتنے پہ ان کو پانی دے گی اور جیتنے پہ نہ دیا تو گآؤں والوں نے احتجاج شروع کیا،حکام نے پولیس بلائی اور پھر گولی چلی جس میں اس نوجوان کا باپ مارا گیا۔پنڈت کہتا تھا کہ گولی سے مرنے والے کی آتما کی مکتی پنڈ دان گیا میں کراؤ، یہ نوجوان ماں کے ساتھ ٹرین میں گیا کہ لئے چل پڑا اور اس دوران یہ نکسل واڑیوں سے ٹکراگی
"کس کی موت پہ روئے گی؟ امام حسین کی ؟ یا اس کسان کے لئے سوگ منارہی ہے جو اپنی زمین پہ بہتی نہر سے کچھ بوندیں اپنے کھیت سے مانگنے گیا تھا –جسے اپنی زمین کا بنجر ہوجانا منظور نہیں تھا۔جس نے ہاتھ پھیلائے،بھیک مانگی ،گڑگڑایا۔اور جسے پانی کی جگہ گولی ملی ۔جس کے جسم سے خون بہت کم رسا اور ریتلی زمین نے اسے بہت جلد سوکھ لیا۔جس کا بیٹا ایک ایسی راہ چل پڑا تھا جس سے واپسی کا کوئی اپائے نہیں تھا۔جس کی شہادت کا گواہ اتہاس نہیں رہے گا کیونکہ وہ کسی پیغمبر کا نواسہ نہیں تھا،ایک ادنی سا معمولی کسان تھا۔”
نور ظہیر کی اس کتاب کی ہر ایک کہانی چونکادینے والی اور ہندوستانی سماج کی عکاسی کرتی ہے۔اور ہمیں ہر طرح کے کرداروں سے ملواتی ہیں اگرچہ زیادہ تر کردار مڈل کلاس، لوئر مڈل کلاس اور انتہائی پسے ہوئے ،زات پات، مذہب کی جکڑن اور غیریبی کے مارے ہوئے طبقات کے کرداروں سے ہماری ملاقات ہوتی ہے۔اور اگر ہم ان کہانیوں سے ایک جامع تصویر بنائیں ت ہمیں پتا چلتا ہے کہ ہمارے سماج کو طبقاتی کش مکشن ، زات پات کے تعصبات ، مذہبی گروبندیوں نے کیسے جکڑ رکھا ہے اور اس سماج کے اندر عورتیں ، مرد ، بچے ، بوڑھے سب ایک عذاب میں گرفتار ہیں۔ڈھونگی دانشوروں اور ادیبوں نے معاشرے میں کیا انت اٹھارکھی ہوتی ہے اس کی ایک ہلکی سی جھلک ہمیں "سوبھاوک تھا” "سکھ پانے کی چاہ سوبھاوک تھا ” اور "کیا ایک ڈھونگی کے دو بول سننے کے لئے اس نے بیس سال انتظار کیا؟ کیا یہ بھی سوبھاوک ہے؟ان دو فقروں کے پیچھے چھپی گہرائی جاننے کے لئے آپ کو نور ظہیر کی یہ کہانی پڑھنا پڑھے گی۔
ایک صحافی خاتون جو آٹھ اخبارات بدل چکی ہے لیکن اس کے ایک شاندار فیچر جو اس نے بیس سال کی عمر میں پریم چند پہ لکھا تھا کی وجہ سے ہر مرتبہ پریم چند پہ لکھنے کو کہہ دیا جاتا تھا۔پریم چند کی پیدائش کو 150 سو سال ہونے پہ آئے تو اسے فیچر تیار کرنے کو کہا گیا۔بہت ہی وہ اکتائی ہوئی تھی اور اس شش و پنج میں کہ کیا نیا لکھے پریم چند پہ وہ سڑک پہ چلتی جاتی جاتی تھی جب ایک مین ہول لائن سے نکلنے والا ایک سیور مین پانی کی تلاش میں بںگلوں کی بنی لین کی طرف نکلتا ہے اور اس دوران اسے پتا چل جاتا ہے کہ پریم چند کیوں نہیں مرتا؟ ” پریم چند مرتے کیوں نہیں ” یہ ہے کہانی ٹھاکر کا کنواں آج بھی میٹھے پانی سے لبا لب بھرا ہوا ہے مگر جھوکھو آج بھی پیاس ہے ۔آج بھی گنگا ایک لوٹے پانی کے لئے بھٹک رہی ہے اور پریم چند بھی اسی وجہ سے زندہ ہیں۔اس گندے سے سیور مین کو کوئی بنگلہ والا پینے کا پانی دینے کو تیار نہیں ہوتا اور ایک بنگلے میں جہاں کوئی صاحب ٹی وی انٹرویو دے رہے ہوتے ہیں پلاسٹک کی بوتل پکڑے اس سیور مین کو پورا لیکچر پلاسٹک کی چیزوں کے آلودگی پھیلانے پہ پلاتے ہیں مگر پانی نہیں دیتے۔ گیٹ لاسٹ ۔۔۔۔۔۔

حالیہ بلاگ پوسٹس

ماتم ایک عورت کا (ناول) – تبصرہ

دوستووئیفسکی کے ”جرم و سزا“ نے وحشت ذدہ کر دیا تھا۔ جیل میں ہونے والے مظالم کا پہلا تعارف تو ”زندان کی چیخ“ کے کچھ حصے تھے۔۔ طاہر بن جلون نے

مزید پڑھیں »

آئس کینڈی مین – تقسیم کی ایک الگ کہانی

بپسی سدھوا پاکستانی، پارسی ناول نگار ہیں۔ اِس وقت ان کی عمر اسی سال ہو چکی ہے۔ وہ پاکستان کے ان چند انگریزی ناول نگاروں میں سے ایک ہیں جنہوں

مزید پڑھیں »