Qalamkar Website Header Image

دن وه بچپن کے

Farrukh Abbasہمارا بچپن بھی سب کے بچپن جیسا ہی تھا ہماری بھی ایک اپنی ہی دنیا اپنی دولت اور اپنے ہی اثاثے اپنی ہی آف شور کمپنیز تھیں ہمارے زیر قبضہ سیاہ رنگ کا ایک صندوق ہوا کرتا تھا جو اماں سے خصوصی درخواست کر کے ہم نے اپنے کھلونوں کو سنبھالنے کے واسطے الاٹ کرا رکھا تھا ہمارے چند پرتعیش اثاثوں میں ایک ہیلی کاپٹر تین رنگ برنگی کاریں خاص طور پہ قابل ذکر تھیں جو ہم اکثر اسی صندوق میں بند رکھتے اس کے علاوہ چند سو بنٹے ایک خراب ریڈیو کا چربہ مقناطیس کے چند ٹکڑے ختم شد بیٹریاں ہمارے کھلونوں کا حصہ تھے کچھ کھلونے ایسے بھی ہوتے جو انتہائی پسندیدہ نہ ہونے کے باوجود ہم بار بار خریدتے اور جلد ہی ٹھکانے لگا دیتے ڈرائنگ کیلئے اکثر ہمیں رنگ خریدنے پڑتے یہ کچی پنسل کی طرز کے لمبوترے اور شاپنر سے گھڑ کر استعمال کیئے جاتے تھے ذائقے میں قدرے پھیکے اور پوچا مٹی کے ذائقے سے بہت مماثل ہوتے تھے تاہم انکا ذائقہ کچی پنسل کے سکے کی نسبت قدرے بھلا اور ملائم معلوم ہوتا بچپن میں جب عیدی ملتی تو چند سو کی اس خطیر رقم کو چھپانے کیلئے جگہ کم پڑھ جاتی آجکل تو خیر اتنی رقم سے بمشکل ایک وقت کی روٹی کھاتے ہیں
بچپن میں کبھی کبھار ہی گاڑی پہ بیٹھنے کا موقع ملتا اور ایک دن پہلے ہی خوشی سے نیند اڑ جاتی کہ کل گاڑی پہ بیٹھنا ہے ابتدائی چند منٹ کا سفر بہت مزے دار معلوم ہوتا اور چلتی گاڑی کے ساتھ خود کو ہواوں میں اڑتا محسوس کرتے لیکن چند منٹ کے بعد ہی اکتاہٹ شروع اور سفر کےختم ہونے کا شدت سے انتظار کرنے لگتے ہمارے بچپن اور اب میں ایک واضح فرق یہ بھی ہے کہ بچپن میں بازار سے گزرتے ہوئے ہم خواتین کی بجائے کھلونوں کی اور مٹھائی کی دکانوں کو تاڑا کرتے تھے اور ہماری خواھشات کا کل مرکز سموسے اور گلاب جامن ہوا کرتے تھے بس وہ بچپن کے ہی کرشمے تھے کہ ہر بات رو کر منوا لیا کرتے تھے اب تو ہمیں ہی یر بات ماننی پڑتی ہے اور رونا تو ہمارے لیئے جیسے فعل حرام ہے
گو کہ ابا مزدور تھے لیکن ہمارا بچپن شہزادوں جیسا تھا اور ابا ہمیں بادشاہ ہی نظر آتے تھے لیکن اب ہم فقط ایک مزدور ہیں …….

حالیہ بلاگ پوسٹس