پی پی 78 جھنگ سے انجمن سپاہ صحابہ کے بانی حق نواز جھنگوی کے فورتھ شیڈول میں شامل صاحبزادے مسرور نواز جھنگوی کی کامیابی کے بعد شروع ہونے والی بحث میں ایک نکتہء نظر یہ ہے کہ اگر شدت پسند سیاسی عمل کا حصہ بننا چاہتے ہیں تو راستہ دیجئے، حالات بہتر ہوں گے۔ دوسری رائے وہی ہے کہ قانون اور مسماۃ نیشنل ایکشن پلان سے جس طرح کھلواڑ ہوا وہ عجیب اس لئے نہیں کہ مسلم لیگ (ن) کا ووٹ بنک ہو یا اتحادی و سرپرست سارے انتہا پسندی سے گندھے ہوئے ہیں۔ جھنگ کے ضمنی نتائج کاایک احسان عظیم بہرطور ہے۔ وہ یہ کہ کل تک جو دوست (ان خوش فہمیوں میں ہم بھی شامل ہیں) یہ سمجھتے تھے کہ پورے کا پورا دیوبندی مکتبہ فکر شدت پسندی کا حامی و ناصر نہیں تازہ مناظر دیکھ اور نئے لب و لہجے میں کلام سن کر وہ حیران پریشان ہیں۔ مسرور جھنگوی 5 دسمبر کو جب جے یو آئی (ف) کے امیر مولانا فضل الرحمٰن سے ملاقات کر کے ان کی جماعت میں شامل ہونے کا اعلان کر رہے تھے تو مولانا فضل الرحمٰن کی دائیں جانب سپاہ صحابہ کے سربراہ احمد لدھیانوی جلوہ افروز تھے۔ مسرور جھنگوی کو فضل الرحمٰن کی قیادت میں دینے کے لئے جس وفد نے امیر جے یو آئی (ف) سے ملاقات کی اس میں دیوبندی مدارس کے وفاق سیکرٹری جنرل حنیف جالندھری بھی شامل تھے۔آگے بڑھنے سے قبل ایک سوال مسرور جھنگوی سے بنتا ہے۔ وہ ہمیشہ اپنی تقاریر میں کہتے رہے ہیں کہ مسلمان ہونے کے لئے جس طرح کلمہ طیبہ پڑھنا ضروری ہے اسی طرح سپاہ صحابہ کا رکن بننے کے لئے "کافر کافر شیعہ کافر” کا کلمہ پڑھنا ضڑوری ہے کیونکہ یہی ہمارے ایمان کی نشانی اور غیرت کی علامت ہے۔ سوال یہ ہے کہ جے یو آئی (ف) میں شمولیت کے وقت مولانا فضل الرحمٰن نے ان کا کلمہ پڑھا یا انہوں نے مولانا فضل الرحمٰن کا۔ یا پھر انہوں نے تقیہ کیا؟ ہم آگے بڑھتے ہیں۔ جھنگ کے ضمنی انتخابات اور نتائج کے حوالے سے ہمارے صاحب علم دوست خورشید ندیم نے "جھنگ کے ضمنی انتخابات ” کے عنوان سے 6 دسمبر کو روزنامہ دنیا میں کالم لکھا۔ ان کاکالم اصل میں شدت پسندوں اور قاتلوں کو محفوظ راستہ دلوانے والی اس سوچ سے عبارت ہے جو ہر دیوبندی اور اہلحدیث میں عمومی طور پر موجود ہے۔ سیاسی طور پرمسلم لیگ (ن) جماعت اسلامی وغیرہ اسی فکر کی ترجمانی کرتے ہیں۔ خورشیدندیم صاحب جیسے صاحبِ علم نے نجانے کیسے لکھ دیا کہ "مولانا اعظم طارق کی زندگی میں ہی فیصلہ ہوگیا تھا کہ آئندہ تنظیم کے جلسوں میں شیعوں کی تکفیر کے نعرے نہیں لگائے جائیں گے۔ یہ کہ بعد میں اس پر عمل پیرا ہوا۔ یہاں تک کہ کبھی کسی جلسہ میں ایسا نعرہ لگا بھی تو سٹیج سے سختی منع کردیا گیا۔ احمد لدھیانوی نےاس فیصلے پر سختی سے عمل کروایا۔ انہوں نے یہ بھی لکھا کہ حق نواز جھنگوی کے بیٹے مسرور جھنگوی بھی اب شیعہ تکفیر کے نعروں کی پالسی کے حامی نہیں رہے”افسوس کہ خورشید ندیم نے نسیم حجازی مرحوم کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے وہ کہانی لکھی جس میں سٹوری رتی برابر بھی نہیں۔ جھنگ میں انتخابی مہم کے دوران کیا ہوا سے چھوڑ دیجیئے۔ ابھی پچھلے ماہ سپاہ صحابہ نے اسلام آباد میں ایک جلسہ کیا اس جلسہ میں شیعہ مسلمانوں کی تکفیر پر بنی نظمیں سٹیج سے پڑھی گئیں اور پنڈال شیعوں کے خلاف نعروں سے گونجتا رہا۔ احمد لدھیانوی اس وقت سٹیج پر بیٹھے تھے۔ اس جلسہ کی ریکارڈنگ وزارت داخلہ کے علاوہ ملک کی تمام ایجنسیوں کے پاس موجود ہے اور سوشل میڈیا پر تکفیریت کے حامی گروپس اور پیجز پر بھی۔ سپاہ صحابہ کی بنیاد ہی شیعوں کی تکفیریت پر ہے۔ اگر وہ اپنے اس بنیادی نظریے جسے مسرور جھنگوی انجمن سپاہ صحابہ کا کلمہ کہتے ہیں،سے دستبردار ہو جائے تو احمد لدھیانوی سمیت سارے جانتے ہیں کہ اس کا نتیجہ کیا نکلے گا۔ جہاں تک سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی کے درمیان اختلافات کا تعلق ہے تو یہ اختلافات بہت پہلے ملک اسحٰق کی اسیری کے دنوں میں پیدا ہوئے تھے۔ گو بعد ازاں کچھ "بزرگوں” نے صلح صفائی کروائی اس کے نتیجہ میں لدھیانوی اینڈ کمپنی نے ملک اسحٰق کو جیل سے رہائی پر وصول کیا اور اسے سپاہ صحابہ کا سینئر نائب صدر بھی بنادیا تھا مگر فریقین میں مالی امور پر جو اختلافات تھےوہ اس کے باوجود طے نہ ہوئے اور شمس الرحمان فاروقی (سپاہ صحابہ پنجاب کا صدر) سمیت چند افراد اس تنازع کی بھینٹ چڑھے تھے۔ ملک اسحٰق کا یہ بیان ریکارڈ پر موجود ہے کہ اس کی دوبارہ گرفتاری احمد لدھیانوی اور شہباز شریف کے درمیان سمجھوتے کا حصہ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ملک اسحٰق کی دوبارہ گرفتاری کے بعد اس کے بعض پرجوش ساتھیوں نے اہلسنت والجماعت (جھنگوی گروپ) کے نام سے متوازی تنظیم بھی قائم کی۔ ملک اسحٰق کے بعض ساتھی آج بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ ملک اسحٰق اور غلام رسول شاہ کی پولیس مقابلہ میں ہلاکت وہ قربانی ہے جس کی بنیاد پر لدھیانوی فاروقی اینڈ کمپنی نے کروڑوں روپےاور قیادت محفوظ کر لی۔ مسرور جھنگوی ہمیشہ سے ملک اسحٰق کے اہم ساتھی اور سپاہ صحابہ کے اندر ان کے پرجوش حامی رہے۔ جماعت کے اندر ہمیشہ یہ کہا گیا کہ مسرور نواز جھنگوی جماعت اور لشکرِ جھنگوی کے رابطہ کار ہیں۔ لشکرِ جھنگوی کے اس رابطہ کار کو جھنگ سے پنجاب اسمبلی کا رکن بنوانا اور اب نشست سمیت اسے مولانا فضل الرحمان کی خدمت میں پیش کرنا ایک الگ کہانی ہے جو پھر کسی وقت سہی۔ فی الوقت یہ کہ اس ضمنی انتخابات اور نتائج نے دیوبندی مسلک کے محمود و ایاز کو ایک صف میں لاکھڑا کیا ہے۔ نقاب اتر گئے حلاوت و شرافت کے۔ مولانا فضل الرحمان ہمیشہ یہ کہتے آئے ہیں کہ وہ اہلِ تشیع کے انسانی حقوق کے حامی ہیں۔ سبھی جانتے ہیں کہ تکفیر کے وہ بھی قائل ہیں لیکن ان کی رائے یہ ہے کہ طاقت کے استعمال کی بجائے پارلیمان سے قادیانیوں کی طرح اہلِ تشیع کو اقلیت قرار دلوایا جائے۔ ایسا لگتا ہے کہ مسرور نواز جھنگوی کی جے یو آئی (ف) میں شمولیت کا فیصلہ دیوبندی مسلک کے اجتماعی ضمیر کا فیصلہ ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ مسرور جھنگوی فضل الرحمان کا سیاسی کلمہ پڑھتے ہیں یا فضل الرحمان ان کا سپاہ صحابہ والا کلمہ؟ البتہ میں اپنے صاحبِ علم دوست خورشید ندیم سے یہ ضرور پوچھنا چاہوں گا کہ اگر کوئی ان کی عورتوں کو بس میں شناخت کر کے قتل کرے اور پھر بچوں کو سکول میں مار دے تو کیا ایسے درندوں کو سزا ملنی چاہیے یا محفوظ سیاسی راستہ؟ بلند تر مقاصد کے لئے سماجی رویوں کی تبدیلی کا واحد ذریعہ یہ ہےکہ قاتلوں اور سرپرستوں کو ملکی قانون کے تحت سزا ملے اور تمام مکاتب فکر تکفیر کے فتوے معافی نامے کے اعلان کے ساتھ واپس لیں۔ اس کے بغیر کوئی تبدیلی نہیں آسکتی۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn