ملتان شہر نے مجھے کئی ایسے کرداروں کی رفاقت بخشی جن کو میں اپنی زندگی میں اگر ناگزیر نہ بھی سمجھوں تو ان کرداروں سے رفاقت سے محرومی ایک ایسا نقصان تصور ہوگی جس کا ازالہ کسی صورت ممکن نہیں ہوگا۔
فیصل آباد کے نعت گو شاعر عبدالستار نیازی مرحوم نے ایک نعت لکھی تھی جس کا مطلع ہے
"میں لچپالاں دے لڑ لگیاں، مرے توں غم پرے رہندے
مری آساں امیداں دے ، سدا بوٹے ہرے رہندے”
اور ایک اور شعر مجھے یاد آرہا ہے ،
"لجپال پریت نوں توڑدے نئیں
جیڑھی بانھ پھڑدے فیر چھڈے نئیں”
سچی بات یہ ہے کہ ان کرداروں نے مجھے سرائیکی وسوں کا عاشق بنانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔آج بھی مرے اردو بولنے والے ہندوستانی مہاجر گھر میں سرائیکی زبان سمجھنے والا یا سرائیکی وسیب کی ریت روایت سے بخوبی آشنا واحد فرد میں ہی ہوں اور اس کا کریڈٹ انہی کرداروں کو جاتا ہے۔
ان کرداروں میں سب سے کم عمر اور نسبتا زیادہ نوجوان کردار شکیل احمد کا ہے جس نے بلوچ نسل کشی کا بازار گرم ہونے کے بعد اپنی فیس بک آئی ڈی پہ اپنے نام کے آگے بلوچ کا اضافہ کرلیا ہے۔وہ سرائیکی وسیب سے محبت کرتا ہے اور وہ دوسری مظلوم اقوام سے بھی بے حد محبت کرتا ہے۔ وہ نسلی اعتبار سے بلوچ ہے اور ڈیرہ غازی خان سے تعلق رکھتا ہے اور آج کل ملتان میں انگریزی اخبار روزنامہ ڈان کا سٹاف رپورٹر ہے۔
مجھے ٹھیک سے یاد نہیں ہے کہ ہم پہلی بار کہاں اور کب ملے تھے؟ اس دنیا میں تو شاید ایک عشرے پہلے ملے ہوں لیکن مجھے یوں لگتا ہے کہ پچھلےجنم میں ہم دونوں حلب کے گرد و نواح میں اس بلوچ قبیلے میں جنمے تھے جس نے بنو امیہ سے آل محمد کے خاندانوں کو بچانے کے لیے پہلے مکران کے ساحل پہ ہجرت کی اور پھر گھومتے گھماتے یہاں سندھو وادی میں آگئے اور اس راہ میں پھر کبھی ملتان پہ محمود غزنوی کے قتلام میں قتل ہوجانے والے ان غریب لوگوں میں شامل تھے جنھیں قرامطہ کہہ کر مارا گیا تھا اور پھر اگلے جنم میں وہ بلوچ اور میں ہندوستانی اردو بولنے والے مہاجروں کے اس خاندان میں جنمے جن کے ہاں "مونجھ”اور "برہا” صدیوں سے نسل در نسل گہری جڑیں رکھتی آئی ہیں۔ وہ اس لحاظ سے خوش نصیب ہے کہ اسے اپنی دھرتی سے اکھاڑ کر پھینکا نہیں گیا اور اسے شناخت کے کھو جانے اور ثقافت کے کہیں بہت پیچھے رہ جانے کا صدمہ نہیں سہنا پڑا لیکن مجھے یہ دونوں ورثے میں ملے اور انجذاب پذیری کا عمل ابھی تک مکمل نہیں ہوسکا ہے۔لیکن پچھلے جنم کی رفاقت اور دوستی نے زور مارا اور ہمیں پھر سے اکٹھا کردیا ہے ۔
شکیل ایک درمیانے سے قد کا سانولے رنگ کا اور تھوڑا سا فربہ بدن رکھنے والا جوان ہے۔مجھے اس کی سب سے زیادہ شرارتی سی وہ مسکان بہت پسند ہے جو اکثر گفتگو کے درمیان اس کے ہونٹوں پہ سجی رہتی ہے اور یک لخت وہ بات کرتا کرتا کھلکھلا کر ہنستا ہے اور اس کی آنکھیں اس چس کی چس سے چمکنے لگتی ہیں تو مرا دل بھی خوشی سے بھر جاتا ہے۔آج کل وہ بڑے اہتمام سے سیلون پان چباتا ہے اور اس دوران اس کے جبڑوں کی حرکت اور گفتگو میں لفظوں کو چباکر ادا کرنے سے پیدا ہونے والی بے ساختگی بھی مرا دل لبھاتی ہے۔ وہ ملتان میں ان لوگوں میں سے ایک ہے جنھوں نے مری تحریروں کے اندر چھپی آگ کی تپش کو محسوس کرنے میں کوئی غلطی نہیں کی اور مرے درد کو محسوس کرتے ہوئے مری ڈھارس بندھوانے میں کوئی شرم محسوس نہیں کی۔
بے گانگی، ہجر، برھا، تھگڑی تھگڑی یعنی ریشہ ریشہ ہوکر جینے میں جتنی تکلیف اور درد ہوتا ہے اس میں کمی شکیل جیسے دوستوں کی رفاقت کرتی ہے۔
ملتان میں شکیل اور سہیل جاوید کے ساتھ ملکر ایک تکون ہم نے ترتیب دی اور اس تکون نے کئی جہان تازہ تخلیق کئے ۔
میں یہ تحریر شکیل کے جنم دن پہ رات بارہ بجے کے بعد تاریخ بدلنے پہ لکھنے کا خواہش مند تھا اور میں نے اس حوالے سے اپنے کمرے میں جہاں مرا لیپ ٹاپ پڑا ہے ایک کاغذ بھی چسپاں کیا تھا جس پہ موٹے مارکر سے اس کا جنم دن لکھا ہوا تھا۔لیکن رات عجب حادثہ ہوا۔میں لاہور سے واپس لوٹا تھا اور بہت تھکا ہوا تھا۔لیپ ٹاپ آن کیا اور ایسے ہی کچھ دیر ٹائپ کرتا رہا کہ مری آنکھیں بند ہونے لگ گئیں۔سوچا تھوڑا آرام کرلوں اور پھر تازہ دم ہوکر لکھتا ہوں۔مگر آنکھ ایسی لگی کہ تاریخ بدل گئی ،سورج نکل آیا اور آنکھ تھی کہ نیند کی دیوی سے الگ ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ خیر آنکھ کھلی اور میں فریش ہوا اور ناشتہ کیا۔ایک کام سے باہر نکلا تو ایک دفتر کے سامنے بنے باغیچے میں بیٹھ کر سوچنے لگا کہ کوئی اہم کام تھا جو کرنا بھول گیا ہوں۔ویسے تو منیر نیازی بھی یاد آئے کہ ‘اکثر دیر کردیتا ہوں میں’
پھر فیس بک کھولی تو شکیل بلوچ کا سٹیٹس سامنے تھا جس میں اس نے اپنے جنم دن پہ مبارکباد دینے والوں کا شکریہ ادا کیا ہوا تھا۔ایک بجلی سی چمکی اور مجھے خیال آگیا کہ یہ تھا وہ کام جو آج میں بھول گیا۔ اپنی تھکن اور آنکھ کی لگن دونوں کو کوسنے دینے کے بعد میں اٹھا اور لطیف ٹی سٹال پہ آکر بیٹھ گیا۔یہ ٹی سٹال وہ ٹھکانہ ہے جہاں میں رات کو بیٹھا کرتا ہوں۔آج خلاف معمول آکر بیٹھا تو مالک سٹال سعید کو بھی حیرت ہوئی۔میں نے اس کی حیرت کو باقی رہنے دیا اور یہ چند سطریں قلم بند کرڈالیں۔
شکیل احمد بلوچ کو اس کی مسکان اور چباتے پان کے ساتھ شرارت سے چمکتی آنکھوں کا منظر ذھن میں تازہ کرتے ہوئے جنم دن کی مبارک ہو
شکیل احمد بلوچ نجانے کیوں مجھے کہیں کہیں اپنی حس مزاح کے حوالے سے محمود نظامی لگتا ہے۔کوئی محمود نظامی کا خاکہ کب لکھے گا جب مری بات کی تفہیم اور لوگوں کے لئے آسان ہوجائے گی۔ ویسے اگر ڈاکٹر عباس برمانی یہ کام سرانجام دے ڈالیں تو کیا ہی بات ہوگی۔
شکیل احمد سرائیکی وسیب کے ان گنے چنے چند ایک ایسے صحافیوں میں شامل ہے جس کے ہاں سیاست،تاریخ، ادب اجنبی الفاظ نہیں ہیں اور وہ ان تینوں علوم عالیہ میں’انحراف،بغاوت اور مزاحمت’ کی روایت سے وابستہ ہے۔اس کی بے باکی اور ہمت اس حوالے سے بھی قابل ستائش ہے کہ اس نے کبھی ‘صحافت ‘ کی وادی پرخار میں موقعہ پرستی اور بے ضمیری کو قریب آنے نہیں دیا۔اس نے اپنی پوزیشن کو مال بنانے اور سماجی مرتبہ بلند کرنے کے لیے استعمال نہیں کیا۔ملتان پریس کلب اور ملتان کی صحافتی سیاست میں اس نے نثار عثمانی ، منھاج برنا کی روایات کی پاسداری کی ہے۔
وہ سچا ترقی پسند، روشن خیال صحافی اور قلم کار ہے۔مجھے اس کی دوستی اور رفاقت دونوں پہ فخر ہے۔
شکیل تمہیں جنم دن مبارک ہو۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn