ریڈیو پاکستان ملتان کا قیام تو 1970ء میں عمل میں آیا لیکن ریڈیو ہمارے گھر ایک سال پہلے ہی آگیا تھا ۔1969ء میں میرے داداحج کے لئے سعودی عرب گئے تو واپسی پر وہاں سے ایک ٹرانسسٹر بھی لائے کہ اس زمانے میں ریڈیو ہی جدید الیکٹرانکس آلات میں شمار ہوتا تھا ۔ حاجیوں کے ساتھ ساتھ ریڈیو کا بھی محلے میں والہانہ استقبال ہوا ۔ مجھے یاد ہے کہ محلے کے بعض لوگ ریڈیو دیکھنے کے لئے باقاعدہ ہمارے گھر آئے اور واپسی پر زم زم اور مدینے کی کھجوروں کا تبرک بھی لے کر گئے ۔ریڈیو کو گھر میں بہت اہتمام کے ساتھ رکھا گیا ۔ طویل مشاورت کے بعد اس کے لئے جگہ کا تعین ہوا کہ اسے کس کمرے میں؟ کون سی جگہ؟ کس میز پر رکھا جانا ہے ۔ دادی اماں نے اس کے لئے با قاعدہ ایک غلاف تیار کیا تا کہ یہ’’ حساس مشینری‘‘ گرد و غبا ر سے محفوظ رہے ۔یہ ریڈیو ابتدا میں خبریں سننے کے لئے ہی استعمال ہوتا تھا ۔ خاص طور پر رات آٹھ بجے کا نیوز بلیٹن اور اس کے بعد بی بی سی کی نشریات کہ جنہیں سننے کے لئے کبھی ریڈیو کو گھمانا پڑتا تھا اور کبھی اس کے ساتھ خود گھومنا پڑتا تھا ۔ ایک طویل عرصہ تک گھر میں ریڈیو کا بس یہی مصرف رہا کہ اس کے ذریعے میرے دادا حالاتِ حاضرہ سے با خبر رہتے تھے ۔
پھر ایک روز لال کرتی سے گزرتے ہوئے عیدگاہ کے سامنے زیرِ تعمیر عمارت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے میرے چچا نے بتایا کہ یہ ملتان کا ریڈیو سٹیشن تعمیر ہو رہا ہے ۔مجھے اس وقت یہ شعور ہی نہیں تھا کہ ریڈیو سٹیشن کیا ہوتا ہے کہ میں تو اس وقت تک صرف ایک سٹیشن سے ہی واقف تھا اور وہ تھا ریلوے سٹیشن ۔۔مجھ پر ریلوے سٹیشن اور ریڈیو سٹیشن کا فرق ہی واضح نہیں ہو رہا تھا ۔وہاں تو ٹرین آتی ہے اور ٹرین پر حاجی آتے ہیں یہاں کیا ہو گا ۔ چچا نے مجھے سمجھانے کی بہت کوشش کی لیکن مجھے کچھ سمجھ نہ آیا ۔ بس یہی سمجھ سکا کہ اس کے قیام کے بعد ہم خبریں ’’صاف صاف ‘‘سن سکیں گے ۔کچھ عرصہ کے بعد ہمارے گھر کی چھت سے ایک ٹاور کے آثار دکھائی دینے لگے ۔ معلوم ہوا کہ ریڈیو ملتان تعمیر کے آخری مراحل میں ہے۔ اور پھر 21نومبر 1970ء کو ریڈیو ملتان کی نشریات شروع ہو گئیں ۔ چھاؤنی کی عید گاہ کے سامنے جو وسیع و عریض گراؤنڈ ایک عرصے سے ویران تھا اور جو قیامِ پاکستان سے قبل دسہرہ گراؤنڈ کے نام سے جانا جاتا تھا کہ یہاں ہندوؤں کا مذہبی اجتماع ہوا کرتا تھا اور اس موقع پر ایک بڑا میلہ منعقد ہوتا تھا وہی گراؤنڈ سرائیکی علاقے کے ایک بڑے ثقافتی مرکز میں تبدیل ہو گیا۔ اس علاقے کے ادیبوں، شاعروں ، گلوکاروں ، موسیقاروں کا دیرینہ خواب پورا ہوگیا ۔ ایک ایسا خواب جو وہ برسوں سے دیکھ رہے تھے۔ وہ جن کی کوئی آواز ہی نہیں تھی انہیں آواز مل گئی ۔ آواز ملی تو شناخت بھی مل گئی ۔ ایک نئے ثقافتی منظر نامے کا ظہور ہوا۔لمحہ تو یہ خوشی کا تھا مگر آیا ایسے ماحول میں کہ اس تاریخی لمحے کو جشن کے طور پر نہ منایا جا سکا ۔ ہوا یہ کہ ریڈیو ملتان کے افتتاح کے انتظامات مکمل تھے ، تاریخ طے ہو چکی تھی کہ 14نومبر کو مشرقی پاکستان ایک ہولناک طوفان کی لپیٹ میں آگیا ۔ ایک ایسا طوفان جس میں لاکھوں افراد لقمہ ء اجل بنے ، آبادیاں غرقاب ہو گئیں اور پاکستان سوگ میں ڈوب گیا۔ طوفان کی تباہ کاریاں کئی روز جاری رہیں ۔ریڈیو ملتان کے افتتاح سے ایک روز قبل ملک بھر میں یومِ سوگ منایا گیا ، دعائیہ اجتماعات ہوئے اور قومی پرچم سرنگوں کر دیا گیا۔ ایسے ماحول میں 21نومبر کو اس وقت کے وزیرِ اطلاعات و نشریات نوابزادہ شیر علی خان نے ریڈیو پاکستان ملتان کا ایک سادہ مگر پُر وقار تقریب میں افتتاح کیا۔اس موقع پر سٹیشن کے پہلے ڈائریکٹر شمس الدین بٹ اور ریٖڈیو پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل مفیض الرحمٰن بھی موجود تھے ۔ فیصلہ کیا گیا کہ ریڈیو ملتان سے جو پہلی آواز نشر ہو اس میں مشرقی پاکستان کے مصیبت زدگان کے لئے ہمدردی اور دلجوئی کے جذبات کا اظہار ہونا چاہئے ۔سو ریڈیو ملتان ملک کا پہلا ریڈیو سٹیشن قرار پایا جس کا آغاز ہی تعزیتی پیغام سے ہوا۔اور شاید ایسا اس لئے بھی ہوا کہ اس سٹیشن نے بعد ازاں اس خطے کے دکھوں کو بھی اجاگر کرنا تھا ۔ ان لاکھوں افراد کو حوصلہ دینا تھا اور ان کی دلجوئی کرنا تھی جو صدیوں سے محرومیوں کا شکار تھے ۔
یہ سیاسی گہما گہمی کا دور تھا ۔طویل آمریت کے بعد 7دسمبر کو عام انتخابات ہونے جا رہے تھے ۔ انتخابی مہم عروج پر تھی ۔ اپنے قیام کے ابتدائی دنوں میں ہی ریڈیو ملتان کو الیکشن ٹرانسمیشن کی تیاری کرنا تھی ۔یہ ٹرانسمیشن اور اس کے بعد کے بدلتے ہوئے سیاسی حالات ریڈیو کی فوری مقبولیت کا باعث بنے ۔پھر 1971ء کی جنگ کازمانہ آیا۔’’دھررگڑاانہاں نوں دیوورگڑا‘‘جیسے جنگی ترانے ریڈیو ملتان سے بھی گونجنے لگے۔یہ ترانے اب میرے گھر میں بھی سنے جاتے تھے ۔ صرف یہی ترانے نہیں اتوار کی صبح مجھے بچوں کا پروگرام اور کرکٹ کمنٹری سننے کی بھی اجازت تھی ۔ رات 8بجے کی خبروں سے پانچ منٹ پہلے ریڈیو سے بچوں کے لئے ایک کہانی نشرہوتی تھی جو کبھی عفت ذکی اور کبھی نجمہ لئیق بخاری سناتی تھیں۔ میں وہ کہانی بھی بہت شوق سے سنتا تھا۔اور پھر جب اس کہانی کے بعد خبریں شروع ہوتیں تو میں ریڈیو کے سامنے سے اٹھ جاتا تھا اور میرے دادا وہاں آن بیٹھتے تھے ۔ میں نے اس وقت تو یہ سوچا بھی نہ تھا کہ میں جس نیوز بلیٹن کو آج غیر اہم سمجھ رہا ہوں اسے سننا کبھی میرے فرائض بلکہ معمول کا حصہ بن جائے گا ۔ انہی دنوں ریڈیو میری تلخ یادوں کا حصہ بھی بنا جب ایک شام جنرل نیازی کا یہ بیان نشر ہوا کہ دشمن کوڈھاکہ میں داخل ہونے سے پہلے میری لاش سے گزرنا ہو گا ۔ اور پھر دو روز بعد جب ایک شام میں نے اپنی ماں کو روتے دیکھا تو مجھے معلوم ہوا کہ ریڈیو سے ڈھاکہ پر قبضے کی خبر نشر ہو گئی ہے ۔جنرل نیازی نے ایک شانِ بے نیازی کے ساتھ دشمن کے آگے ہتھیار ڈال دئے تھے ۔ لیکن چھوڑیں اس دکھ بھری کہانی کو رہنے دیں ۔ آگے بڑھتے ہیں اور 1973ء میں چلتے ہیں جب میں پہلی بار بچوں کے پروگرام میں شرکت کے لئے ریڈیو پاکستان ملتان کی عمارت میں داخل ہوا۔ میرے چچا میرے لئے کسی دوست کی معرفت’’ پاس‘‘لے کر آئے تھے کہ ان دنوں بچوں کے پروگرام میں شرکت بھی کوئی آسان نہیں تھی ۔دھڑکتے دل اور حیرت اور خوشی کے ملے جلے جذبات کے ساتھ میں سٹوڈیوز میں داخل ہوا ۔ بھائی جان اور منی باجی جنہیں میں دو تین سال سے باقاعدگی کے ساتھ سن رہا تھا میرے سامنے موجود تھے ۔ بھائی جان تو مجھے یاد ہے سلام ناصر تھے جو کوئٹہ سے تعلق رکھتے تھے اور ایک طویل عرصہ پروڈیوسرکی حیثیت سے ریڈیو ملتان سے منسلک رہے۔ منی باجی کون تھیں یہ مجھے یاد نہیں ۔ ان دنوں ریڈیو سے بچوں کے لئے منور شہزادکا لکھاہوا ایک مقبول ڈرامہ ’’کبن کاکا‘‘نشر ہوتا تھا ۔ اس پروگرام کے دوران جب وہ ڈرامہ نشر ہوا اور اس کے کردار مجھے دکھائی نہ دئے تو مجھے پہلی بار معلوم ہوا کہ ڈرامہ ریکارڈ کیا جاتا ہے ۔ ورنہ تو میں یہی سوچ کر ریڈیو گیا تھا کہ ’’کبن کاکا‘‘ کے تمام کردار میرے سامنے مکالمے ادا کریں گے۔ جانے کون سا طبلہ نواز تھا جس نے اسی پروگرام کے دوران طبلے پر ریل گاڑی چلا کر دکھائی(بلکہ سنائی) تھی ۔ اس مہارت سے طبلہ بجایا کہ ٹرین کی مختلف آوازیں سنائی دیں ۔ ٹرین نے کبھی پٹریاں بدلیں، کبھی دریا سے گزری ، کبھی سرنگ میں داخل ہوئی اور آخر پلیٹ فارم پر آکر بریک لگائی ۔ میرے ذہن سے ریلوے سٹیشن اور ریڈیو سٹیشن والی الجھن دور ہو گئی ۔ ٹرین ریڈیو سٹیشن پر بھی آئی ہاں البتہ اس میں حاجی نہیں آئے تھے ۔
ریڈیو ملتان نے ابتدائی برسوں میں ہی عوام میں مقبولیت حاصل کر لی ۔شمس الدین بٹ کے بعد الیاس عشقی جیسے نامور لکھاری نے اس سٹیشن کی باگ ڈور سنبھالی ۔ خوبصورت آوازیں ، مضبوط سکرپٹ اور پروڈکشن کا اعلیٰ معیار ۔ ریڈیو ملتان سرائیکی خطے کے ہر گلی کوچے ، ہر قصبے اور گاؤں میں سنا جانے لگا ۔ مجھے یاد ہے کہ میں جب اپنے گھر سے ایس پی چوک کے قریب واقع اپنے سکول کی جانب پیدل روانہ ہوتا تو راستے میں ہر دکان یا گھر سے ریڈیو کی آواز سنائی دیتی تھی اور میں 15یا 20منٹ کی اس مسافت کے دوران مسلسل ’’سرودِ سحر‘‘ سنتا جاتا تھا ۔ قمر حسین اور قیصر نقوی کا ایسادلکش اندازکہ آج بھی وہ آواز اور وہ لہجہ سماعت میں محفوظ ہے ۔ ایسی ہی مقبولیت اس زمانے میں ’’جمہور دی آواز‘‘ کی تھی ۔ شمشیر حیدر ہاشمی اور ملک عزیز الرحمٰن سرائیکی خطے میں لاکھوں لوگوں کے دلوں کی دھڑکن بن گئے ۔ ثریا ملتانیکر تو ریڈیو ملتان سے پہلے بھی اپنی صلاحیتوں کا اعتراف کر ا چکی تھیں لیکن کافیوں اور لوک گیتوں کے حوالے سے انہیں دنیا بھر میں جو شہرت ملی وہ ریڈیو ملتان ہی کی مرہونِ منت ہے ۔اور پھر کوٹ ادو سے پٹھانے خان ریڈیو ملتان آئے اور خواجہ فرید کی کافیوں کے ساتھ خود بھی امر ہو گئے ۔ ناہید اختر کے فنی سفر کا آغاز بھی یہیں سے ہوا اور نسیم اختر،سلیم گردیزی ،کوثر ملک ،اعجاز راہی ، نگینہ نرگس ، سجاد رسول اوراے ڈی ساغر کو بھی ریڈیو ملتان نے ہی شناخت دی ۔
ریڈیو ملتان کو ابتدا سے ہی نام ور قلم کاروں کا تعاون حاصل رہا ۔ مسعود اشعر،ڈاکٹر عاصی کرنالی، ڈاکٹر انوار احمد،حسین سحر، اصغر ندیم سید، حفیظ خان ،قاسم سیال، مقبول عباس کاشر، نصرت مند خان ، منور شہزاد، مظہر کلیم کے تحریر کردہ ڈرامے عوام میں بے پناہ مقبول ہوئے۔ڈاکٹر مہر عبدالحق ،حسن رضا گردیزی ، ڈاکٹر عرش صدیقی ، ڈاکٹر اسلم انصاری، ڈاکٹر اے بی اشرف ، اقبال ارشد، ارشدملتانی، حزیں صدیقی،ڈاکٹر بیدل حیدری، ممتاز العیشی، ڈاکٹر محمد امین،پروفیسر شوکت مغل ، پروفیسرانور جمال ، رفعت عباس، ثمر بانو ہاشمی ، نوشابہ نرگس ،رضوانہ تبسم درانی،قمر رضا شہزاد،شاکر حسین شاکر ، وسیم ممتاز ،عباس ملک سمیت اس خطے کے بہت سے قلمکاروں نے اپنی تحریروں اور شاعری کے ذریعے ریڈیو ملتان کے پروگراموں میں حسن پیدا کیا۔
بات بچوں کے اس پروگرام کی ہو رہی تھی جس کی بدولت میں پہلی بار ریڈیو پاکستان ملتان کے سٹوڈیوز میں داخل ہوا ۔ پروگرام کے بھائی جان سلام ناصر نے بار ی باری بچوں سے نظمیں بھی سنیں اور مجھے یاد ہے کہ جب میری باری آئی تو میں نے بھی ایک نظم سنائی جو میں نصاب کی کسی کتاب سے یاد کر کے گیا تھا۔ ’’چودہ اگست آیا ، خوشیاں مناؤ بچو؍اپنے وطن کا پرچم اونچا اٹھاؤ بچو؍خوشیاں ملی تھیں ہم کودلشاد ہم ہوئے تھے؍دلشاد ہم ہوئے تھے ، آزاد ہم ہوئے تھے‘‘ابھی نظم کے چند اشعار باقی تھے کہ بھائی جان نے ’’شاباش ۔۔ بہت اچھا‘‘کہہ کر مجھے خاموش کرا دیا ۔سب بچے تالیاں بجانے لگے ۔پہلی بار میری آواز ہوا کے دوش پر سامعین تک پہنچی۔ پھر ایک طویل عرصہ کے بعد 1981ء میں مجھے ریڈیو سٹیشن جانے کا موقع ملا۔پروگرام تھا’’ جواں ہر دم رواں‘‘اور میں شاکر حسین شاکر کے ہمراہ سول لائنزکالج کی نمائندگی کے لئے یہاں آیا تھا ۔ سرفراز خان اس پروگرام کے پروڈیوسر تھے ۔اسی پروگرام میں ہماری اظہر سلیم مجوکہ کے ساتھ پہلی بار ملاقات ہوئی جو زکریا یونیورسٹی کی نمائندگی کے لئے آئے تھے اور اسی پروگرام میں ناہیدنانو قریشی ہمیں پہلی بار ملی تھیں جو اس زمانے میں شعر کہتی تھیں اور افسانے لکھتی تھیں ۔یہی وہ پروگرام تھا جس کا احوال میں نے پہلے بھی کسی مضمون میں تحریر کیا ہے کہ اس کی ریکارڈنگ محض ایک لفظ کی وجہ سے کم و بیش دو گھنٹے تعطل کا شکار رہی کہ مجوکہ لفظ ’’شاہین ‘‘کی درست ادائیگی نہ کر پا رہے تھے اور پروفیسر عاصی کرنالی کا اصرار تھا کہ جب تک تلفظ درست نہ ہو گا ریکارڈنگ شروع نہ ہو گی۔ پہلے ہی پروگرام میں اندازہ ہو گیا کہ ریڈیو میں لفظوں کی صحت کا کس قدر خیال رکھا جاتا ہے۔لیکن یہ تو اس زمانے کی بات ہے جب ریڈیو تلفظ اور اخبارات املا کے حوالے سے سند کا درجہ رکھتے تھے کہ ان اداروں کے ساتھ وابستہ افراد غالب کے طرفدار نہ بھی ہوں تو کم از کم سخن فہم ضرور ہوتے تھے ۔روزنامہ’’ امروز‘‘سے اگر اقبال ساغر صدیقی ، ولی محمد واجد، مرزا ابنِ حنیف، حنیف چودھری ،سید سلطان احمد، نوشابہ نرگس ، شبیر حسن اختراور مظہر عارف جیسے نامور لکھاری وابستہ تھے تو ریڈیو پاکستان ملتان میں انور معین زبیری ، قمر لکھنوی ، اختر جعفری ، اسلام شاہ ، صادق قمر ، علی تنہااور سرفراز قریشی جیسی شخصیات لفظوں کی حرمت کی پاسداری کرتی تھیں ۔ریڈیو ملتان بھرپور سرگرمیوں کا مرکز تھا ۔ پروڈیوسروں کے کمروں میں ڈاک کے انبار ، فلمی گیتوں کی فرمائشیں ،سکرپٹ کی تیاری ، سٹوڈیوز میں ریہرسل جاری اور فیتے والی ٹیپ لے کر تیزی کے ساتھ ایک کمرے سے دوسرے اور پھرسٹوڈیوز کی جانب بھاگتے دوڑتے پروڈیوسرز۔
1981ء سے اب تک کبھی تعطل اور کبھی تسلسل کے ساتھ ریڈیو ملتان کے ساتھ ہماری وابستگی برقرار ہے ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بہت سی تبدیلیاں آئیں ۔شمع ایک سے دوسری نسل کو منتقل ہوئی ۔ وہ نوجوان جو 1980ء کے عشرے میں جونیئرپروڈیوسروں کی حیثیت سے ریڈیو کے ساتھ وابستہ ہوئے تھے آج انتظامی عہدوں پر موجود ہیں اور اسی طرح ان کے بعد آنے والے تیزی سے ترقی کی منازل طے کر رہے ہیں کہ کل کو یہ باگ ڈور ان کے ہاتھ آنی ہے۔ آج ریڈیو ملتان جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہو چکا ہے ۔فیتے والی ٹیپ اور تھالی والے ریکارڈ کی جگہ کمپیوٹر کی ڈسک نے لی ۔ڈاک کے انبار لائیو ٹیلی فون کالز کی بھر مارمیں تبدیل ہوئے ۔میزبان ہوسٹ اور ڈی جے کہلائے ،اور تواور سامعین کرام بھی اب ڈئیر لسنرز بن چکے ہیں ۔ سوشل میڈیا اور ٹی وی چینلز کی بھر مار کے باوجود ریڈیو نے اپنی بقا کی جنگ بہت خوبصورتی سے لڑی ۔جس عمارت میں ریڈیو ملتان کی میڈیم ویو نشریات کا آغاز ہوا تھا وہاں اب بیک وقت ریڈیو کے تین چینلز اپنی نشریات دے رہے ہیں ۔ اور وہ ریڈیو جو کبھی حساس مشینری سمجھا جاتا تھا اور جسے گرد وغبار سے محفوظ رکھنے کے لئے غلاف تیار کیا جاتا تھا اب موبائل فون کی صورت ہر شخص کی جیب میں موجود ہے ۔لوگ ہر لمحہ اور ہر پل باخبر رہتے ہیں ۔بی بی سی کی تو اب کسی کو ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn