آنسو بہاتی مدہم سسکیوں کی آواز نے مجھے چونکا دیا ذرا سا غور کیاتو ایک لڑکی بیٹھی اپنی قسمت پہ آٹھ آٹھ آنسو بہا رہی تھی۔وہ اپنے نصیب پے شکوہ کناں تھی۔اور کیوں نہ ہوتی،آخر اس کا قصور ہی کیا تھا،یہی کہ وہ ایک لڑکی ہے؟؟؟آپ سوچ رہے ہوں گے کہ آخر صرف لڑکی ہونا کیسے کسی کا قصور ہو سکتا یا آخر صرف اس بات پہ کوئی کیونکر اپنی قسمت پہ رو سکتا کہ وہ لڑکی ہے؟؟ مجھے بھی آپ کی طرح بے حد تعجب ہوا تھا ،لیکن میں آپکو بتاؤں یہ راز کی بات کیا ہو سکتی؟؟؟ یہ راز اس بے بس وجود نے یوں بیاں کیا کہ میں نے اس سے پوچھا کیوں اپنے قیمتی موتی ضائع کر رہی ہو؟؟ تمھیں کیا غم ہے؟؟؟تو وہ بولی اپنی قسمت پہ خدا سے شکوے کر رہی ہوں کہ اس نے مجھے لڑکی کیوں بنایا اگر لڑکی بنا یا تو اس بے حس ، لالچی اور خود غرض معاشرے کو ہدایت کیوں نہ دی؟؟؟میں بے قصور ہوتے ہوئے بھی خود کو اپنے ماں باپ کا سب سے بڑا مجرم سمجھتی ہوں ۔ان کے کندھوں پہ ایک بوجھ ہوں جو کسی طور ہلکا ہونے میں نہیں آرہا۔بالوں میں اترتی چاندنی میرے خوابوں کو حقیقت کا آئینہ دکھا رہی ہے۔میں لڑکی ہوں اسی لیے ماں باپ کا بوجھ بھی نہیں بٹا سکتی کہ معاشرے کی غیرت کو یہ بھی گوارا نہ ہوگا کہ لڑکی گھر سے باہر محنت مزدوری کے لیے نکلے۔کیوں کہ میں غریب ماں باپ کی بیٹی ہوں ۔اگر امیر ماں باپ کی بیٹی ہوتی تو ماڈرن اِزم کے نام پہ کھلے عام آزادانہ نوکری کرتی۔غریب ہونا میرے لیے سب سے بڑا طعنہ بن گیا ہے۔میرے ارمانوں کے دیئے بجھتے جا رہے ہیں۔میری خواہشات دم توڑتی جا رہی ہیں ۔میں بے بس اور مجبور ہوں ۔احساسِ جرم میں ماں باپ کا سامنا کرنے سے بھی کتراتی ہوں کہ مجھے دیکھ دیکھ کے انکی راتوں کی نیندیں رت جگوں میں بدل گئی ہیں ۔جب لڑکے والے دیکھنے آتے ہیں تو مجھ سے زیادہ ان کی آنکھیں ان بے رنگ وروغن دیواروں کو کھوجتی ہیں۔اس میں رکھے ہوئے بوسیدہ فرنیچر کوحقارت سے دیکھتے ہوئے انکی نظریں میرے والدین سے سوال کرتی ہیں کہ کیونکر بیاہنا چاہتے ہو اپنی بیٹی کو جب کچھ دے نہیں سکتے ؟؟اور کچھ تو سب لحاظ بالائے طاق رکھ کے برائے راست سوال داغ دیتے ہیں کہ جہیز میں کیا کیا دیں گے؟؟؟ میرا باپ بغلیں جھانکے لگتا ہے۔ماں منہ چھپائے نم آواز میں بولتی ہے جو ہم سے بن پڑا ہم اپنی بیٹی کو دیں گے۔اس پہ نحوست بھری آواز آتی ہے وہ تو ہمیں نظر آ ہی رہا ہے کہ تم کیا دے سکتے ہو۔ہمیں اپنے بیٹے کے لیے جہیز میں گاڑی چاہیے،دے سکتے ہو تو ٹھیک ورنہ کسی اپنے جیسے فقیروں کو دے دو اپنی کنگلی بیٹی کا ہاتھ۔اس کے بعد کئی دنوں تک گھر میں شادیء مرگ کی کیفیت چھائی رہتی۔اتنی لمبی بات کرنے کے بعد اس نے آہ بھری تو مجھے لگا میں کسی ٹرانس سے باہر آگئی ہوں ۔جیسے مجھے کسی نے اندر سے جھنجھوڑ کے رکھ دیا ہو۔میں نے اپنی فیملی میں اتنی جہالت نہیں دیکھی شاید مجھے اس لیے اندازہ نہیں ہو پایا آج سے پہلے کہ کتابوں میں لکھی تصوراتی کہانیاں درحقیقت ہمارے معاشرے کی ہی عکاسی کرتی ہیں ۔ انہیں محض کہانی سمجھ کہ ہم لوگ بھول جاتے ہیں ان کہانیوں کے کردار ہمارے ارد گرد ہی موجود ہوتے ہیں ۔بس انہیں منظرِعام پہ لانے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ماں باپ کے لیے آج کے دور میں بیٹی کے والدین ہوناواقعی جرم بن چکا ہے۔بیٹی ماں باپ کے لیے بوجھ ہے لیکن یہ بوجھ بنایا کس نے ہے؟؟؟؟کون ہے اس کا ذمہ دار؟؟؟ہم نے ،میں نے ، آپ نے ،ہم سب نے مل کر ہمارے معاشرے نے ہم نے خود ایک انتہائی سادہ سے کام کو بے حد پیچیدہ کر دیا ہے۔ہم نے اپنے آسان سے دین کو اس قدر مشکل بنا لیا ہے کہ ہم زندگی کے ہر معاملات میں الجھ کے رہ گئے ہیں ۔ہم نے اپنی دینی تعلیمات کو خیرباد کہہ دیا ہے۔کہاں ہیں وہ اسلام کی شاندار مثالیں ،وہ شادیا ں ،جن میں جہیز کے نام پر ایک مٹی کا پیالہ اور ایک جائے نماز دیا گیا تھا۔وہ بارات جس کی تواضع دودھ اور کھجوروں سے کی گئی۔کیا ہم ان ہستیوں سے افضل ہیں کہ ہمیں لاکھوں کا جہیز چاہیے؟؟؟اپنی تواضع مرغن سے نہ کروائیں تو ہماری شان میں کوئی گستاخی ہو جائے گی کیا؟؟؟کیوں ہے ایسا؟؟؟؟بیٹی تو رحمت ہوتی ہے ۔پھر اس معاشرے نے اس رحمت کو زحمت میں کیوں بدل دیا ہے؟؟مجھے گیارہویں جماعت کی انگریزی کی کتاب میں پڑھی ہوئی ایک کہانی یاد آگئی جس میں ایک غریب امام مسجد بھی اپنی بیٹیوں کی شادی کے لیے اسی طرح پریشان ہوتاہے اور بے بسی کی حالت میں خدا سے کہتا ہے کہ اے اللہ بیٹیاں تیری بے بس مخلوق ہیں۔ مجھے اس بات کی گہرائی کا آج علم ہوا کہ کس طرح بیٹیاں اور ان کے والدین کو معاشرہ بے بس کر دیتا ہے۔مجھے ایک دوست نے کہا آپ رائیٹر ہیں آپ اس حوالے سے زمانے کی سوچ کو تبدیل کر سکتی ہیں ۔لیکن مجھے بتائیں کہ میں زمانے کو گھول کے پلا دوں؟؟؟ کیسے اس جاہل زمانے کو اس کی جہالت سے نکالوں جسے نکالنے کے لیے خدا نے آدم علیہ سلام سے لے کر نبی پاکﷺ کے زمانے تک نبیوں کا ایک سلسلہ چلائے رکھا۔کس لیے؟؟؟ اسی لیے کہ ہم انسان دنیا میں محبت بھائی چارے،دکھ سکھ کی مثالیں قائم کریں۔یا اس لیے کہ ہم دوسروں کے لیے درد کا ذریعہ بن جائیں؟؟؟اتنی تعلیمات لیکن پھر بھی اس زمانے کی جہالت میں کوئی کمی نہیں آئی بلکہ وہ دن بہ دن زیادہ سے زیادہ ہوتی چلی جا رہی ہے او ر بے لگام گھوڑے کی طرح سر پٹ دوڑتی چلی جا رہی ہے اپنے راستے میں آنے والی ہر چیز کو اپنے پیروں تلے بڑی بے دردی سے کچلتی جارہی ہے۔آج میں دیکھتی ہوں کہ والدین کس طرح پریشان ہوتے ہیں اپنی بیٹیوں کے اچھے رشتوں کی تلاش میں اور انہیں ڈھیر سارے جہیز کے ساتھ بیاہنے کی فکر میں مٹی کے ساتھ خود مٹی ہوجاتے ہیں ۔اور اس لڑکی کے احساسات کا اندازہ کوئی دوسرا کس طرح لگا سکتا ہے جو آئے دن خود پر جبر کر کے ماں باپ کی خاطر سج سنور کے کانپتے ہاتھوں میں چائے کی ٹرے پکڑے ہوئے ان لوگوں کے سامنے جاتی ہے جنہیں کبھی تو لڑکی کا قدچھوٹا لگے گا،کبھی آنکھوں کا رنگ پسند نہیں آئے گا،کبھی لڑکی چال میں مورجیسی بات نہیں ہو گی تو کہیں بال کالی گھٹاؤں جیسے نہیں ہوں گے ،کہیں لڑکی میں سب کچھ ٹھیک ہو گا تو اس کا سب سے بڑا جرم سامنے آجائے گا،غربت۔ یہ لوگ جو اتنی ساری خوبیاں تلاش کرتے ہیںیہ شاید خود بیٹیوں والے نہیں یا پھر وہ اپنے بیٹے کے لیے لڑکی دیکھتے وقت یہ بھول جاتے ہیں کہ ہماری بیٹی کو بھی خدا نخواستہ ان مراحل سے گزرنا پڑا تو اس کے بھی احساسات مجروح ہوں گے۔روز جینا روزمرنا شاید اسی کو کہتے ہیں۔میں کیسے اس زمانے کے سامنے ان معصوموں کے سینے چیر کے ان کے سلگتے ہوئے دل نکال کے رکھ دوں ؟؟؟مجھ میں اور آپ میں کوئی فرق نہیں ،محض اتنا فرق ہے کہ میں جو دیکھتی ہوں دل کی آنکھ سے دیکھتی ہوں،اس زمانے کو ٹھیک کرنے کی طاقت میرے ناتواں کندھوں میں نہیں میں اپنا وہ درد اس قلم کے ذریعے کاغذ پر منتقل کر دیتی ہوں،وہ درد جو میں اس معاشرے کی بے حسی کی صورت میں دیکھتی ہوں ،جس میں روز مجبوروں کی مجبوریوں کا خون ہوتا ہے۔کہتے ہیں قلم میں بہت طاقت ہوتی ہے۔لیکن کیا قلم کسی بیٹی کے بالوں میں اترتی چاندنی کو روک سکتا ہے؟ْ؟؟کیا کسی بے درد کے دل میں درد جگا سکتا ہے؟؟؟کیا باپ کی کا بوجھ ہلکا کر سکتا ہے؟؟کسی ماں کے رت جگوں کو میٹھی نیند دے سکتا ہے؟؟ْ؟کہتے ہیں قلم نے بڑے بڑے انقلاب کیے ہیں مجھے بھی انقلاب کی امید ہے ۔ وہ انقلاب کب آئے گا؟؟؟اس انقلاب سے میری التجا ء ہے کہ جلد آجائے ،اس سے پہلے کہ اللہ اس دنیا کو دی ہوئی مہلت کو ختم کر دے اور خواہشیں حسرتوں میں بدل جائیں۔باغوں میں پھولوں کو کھلنے کی تمنا ہی دم توڑ دے۔اس انتظار کو ختم کر دو اور اس دنیا کے گلشن میں لگی خدا کی اس ننھی ننھی کلیوں کو اپنی کھلنے دو۔تاکہ ان کے مالیوں کو اپنی محنت کا پھل نکلتا ہوا دیکھ کے میٹھی نیند آئے۔اور کوئی لڑکی اس احساسِ جرم میں مبتلا نہ ہو کہ مجھے خدا نے لڑکی کیوں بنایا۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn