خلیجی ملکوں میں رہنے والے میرے دوست بتاتے ہیں کہ اُردو اور عربی میں ایسے بہت سے مشترک الفاظ موجود ہیں جو بولنے، لکھنے اور پڑھنے میں تو ایک جیسے ہیں لیکن اُن کا مطلب اور مفہوم دونوں زبانوں میں بالکل مختلف ہے۔ کچھ الفاظ تو قابلِ اعتراض حد تک مختلف مفہوم رکھتے ہیں۔
میرا ایک دوست سعودی عرب میں مقیم ہے۔ جب نیا نیا وہاں گیا تھا تو ایک روز دفتر میں ایک سعودی اُسکے کفیل سے ملنے آیا۔ کفیل تو موجود نہیں تھا لہذا دوست نے کہا کہ آپ اپنا نام بتا دیجے میں پیغام دے دوں گا۔ سعودی نے انگریزی میں کہا کہ مائی نیم از بندر۔ یہ سن کر میرا دوست بے اختیار ہنس پڑا کہ شاید یہ مذاق کر رہا ہے۔ جس پر سعودی نے ہنس کر کہا کہ یہ عربی والا بندر ہے، اُردو والا نہیں۔
ہمارے ہاں کسی کو حرامی کہہ دیں تو نوبت ہاتھا پائی سے لیکر قتل تک پہنچ سکتی ہے۔ عرب میں چوری کرنے والے کو، زیادہ دام بتانے والے کو یا چھوٹی موٹی ہیرا پھیری سے لیکر بڑا ہاتھ مارنے والے تک کو حرامی کہا جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ دبئی میں نئے نئے آنے والے ایک خان صاحب نے کسی مصری کو مار مار کر دنبہ بنا دیا تھا کیونکہ اُس نے خان صاحب کو حرامی کہہ دیا تھا، عربی والا۔
اُردو میں مذاق کرنا مطلب مزاح کرنا، عربی میں مذاق یعنی ذائقہ۔ کتنا فرق ہے، دیکھا آپ نے؟
میرا ایک دوست بتاتا ہے کہ جب وہ نیا نیا کویت گیا تو ایک بار دفتر میں ایک عربی آیا اور سلام کے بعد اُس سے عربی میں پوچھا، انت مسئول؟ یعنی یہاں کے ذمہ دار یا رسپانسبل تم ہو؟ دوست سمجھا یہ پوچھ رہا ہے کہ تم مسلمان ہو؟ لہذا فورا الحمد للہ کہہ کر جواب دیا کہ یس آئی ایم مسلم۔
پنجابی دوست عموما ق اور ک کا فرق نہیں کرتے اور اکثر دونوں کا فرق سمجھانے کیلئے قینچی والا کاف اور کُتے والا کاف کہہ کر بات سمجھا دیتے ہیں۔ لیکن عربی میں معاملہ کافی نازک صورتحال اختیار کرسکتا ہے۔ جیسے کہ ایک صاحب نے فرطِ جذبات میں ایک سعودی کو کہہ دیا کہ انت کلبی، کہنا یقینا انت قلبی چاہتے تھے یعنی تم میرے دل ہو۔ البتہ سعودی یہ سمجھا کہ جناب فرما رہے ہیں کہ تم میرے کُتے ہو، جس پر ظاہر ہے سعودی نے اُنکے ساتھ کُتے والی کی، جو کہ عموما کفیل وہاں کیا کرتے ہیں۔ ۔ کاش سعودی کو اُردو معلوم ہوتی تو کم از کم یہ صاحب اُسے یہی سمجھا دیتے کہ یہ کلب قینچی والے کاف سے شروع ہوتا ہے، کُتے والے کاف سے نہیں۔
آخری مثال انتہائی خطرناک ہے۔ اصل واقعے اور مثال کی بجائے ایک فرضی مثال بتاونگا۔ ایک پاکستانی نئے نئے قطر گئے۔ انگریزی بس واجبی سی جانتے تھے اور عربی تو بالکل نہیں آتی تھی۔ پہلے دن ایک عربی سے ملاقات ہوئی تو روایتی عرب پرستی سے متاثر ہوکر عرب سے بات کرنا چاہی۔ سلام کے بعد کہا یا شیخ آئی لائیک یو ویری مچ، یو پیپل آر ویری نیک۔ موصوف کو نیک کی انگریزی نہیں آتی تھی، سوچا اُردو والا ہی فٹ کردیں۔ بس اِسکے بعد عربی نے بہت نیکی کے ساتھ اُن کی تواضع کی۔
یہ اتنی ساری مثالیں دینے کی ضرورت یوں پیش آئی کہ ضروری نہیں کہ جسے ہم اُردو میں قطری شہزادے کا تحفہ سمجھ رہے ہیں، وہ عربی میں بھی تحفہ ہی ہو۔ یاد رکھیں، سرزمینِ عرب سے ہمیں چندہ ملتا ہے، خیرات ملتی ہے یا فنڈنگ ملتی ہے۔ البتہ یہ ضرور ممکن ہے کہ میاں صاحب کو شاید کسی نیکی کا انعام یا تحفہ مل گیا ہو۔ (نیکی اُردو والی ہے)۔
نوٹ: یہ ساری مثالیں ادھر اُدھر سے سنی سنائی ہیں، کسی قسم کی مماثلت محض اتفاقی ہوگی۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn