Qalamkar Website Header Image

ڈان لیکس کا ایک اور پہلو – انور عباس انور

Anwar Abbas Anwar newاکتوبر6, 2016 کا سورج اپنے ساتھ ایک طوفان لیے طلوع ہوا، ڈان پاکستان کے چند ایک معتبر اور مستند سمجھے جانے والے اخبارات میں شمار ہوتا ہے،اس میں شائع ہونے والی خبروں کو سچ تسلیم کیا جاتا ہے اور اس میں چھپنے والے تجزئیوں ، کالموں کو اہم تصور کیا جاتا ہے، اس اخبار کی پیشانی کے ساتھ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی تصویر لگائی جاتی ہے اور عوام کو بتایا جاتا ہے کہ اس اخبار کے بانی قائد اعظم محمد علی جناح ہیں۔
ڈان نے قومی سلامتی کے لیے منعقدہ ایک ہائی پروفائل اجلاس کی خصوصی خبر صفحہ اول پرشائع کی جسے سرل المیڈا نے فائل کیا تھا، اخبار کی انتظامیہ خصوصا ایڈیٹر نے خبر کی اہمیت کے اعتبار سے اسلام آباد میں متعدد ذمہ داروں سے رابطہ کیا اور خبر کی صداقت پر ان کی رائے معلوم کرنے کے بعد اسے شامل اشاعت کرلیا گیا۔6 اکتوبر کو خبر کی اشاعت کے ساتھ ہی ہاٹ لائینیں متحرک ہوئیں، کسی نے کسی سے باز پرس کی تو کسی نے وضاختیں پیش کیں اور کسی نے خبر سے لاعلم ہونے کا کہہ کر خود کو محفوظ بنانے کی کوشش کی۔ ڈان کے صفحہ اول پر شائع ہونے والی اس خبر نے قوم ،ملک اور ملک و قوم کے نگہبانوں میں تشویش اور اضطراب کی لہر دوڑا دی، سب کا یک آواز ہوکر کہنا تھا کہ قومی سلامتی سے کھیلنے کی کوشش اور سازش کی گئی ہے۔
وفاقی وزارت دخلہ نے خبر کے متاثرین کے احتجاج پر سرل المیڈا کے بیرون ملک سفر پر پابندی کا حکم نامہ جاری کیا اس موقعہ پر وزیر داخلہ چودہری نثار علی خان نے قوم کو مژدہ سنایا کہ دو روز میں اس خبر کی تحقیقات کے لیے کمیٹی تشکیل دیدی جائے گی، لیکن کئی دو روز گزر گئے۔ متاثرین مطمئن نہ ہوئے اور حکومت کے ذمہ داروں نے بھی اس پر خاموشی سادھ لی ۔ لیکن اس خبر کے متاثرین چپ رہنے کو ملک و قوم اور خود کے لیے زہر قاتل قرار دئیے ہوئے تھی اس لیے وہ خاموش رہنے کو ملک و قوم اور قومی سلامتی پر وار کرنے سے تعبیر کر رہی تھی۔
ہفتوں بعد وزیر اعظم ہاؤس کی جانب سے اپنے اپنی جان سے زیادہ رائیونڈ ( شریف خاندان کے) وفادار وزیر اطلاعات و نشریات سینٹر پرویز رشید کو ان کے عہدے سے ہٹا ئے جانے کا اعلان ہوا، جس میں بتایا گیا اور بعد میں چودہری نثار علی نے بھی کہا کہ پرویز رشید کو اس لیے الگ کیا گیا ہے کہ وہ لیک ہونے والی ، جھوٹی خبر کے افشاء اور اسے شائع ہونے سے کروانے میں ناکام رہے،۔
میں قومی سلامتی سے متعلق اس خبر کے ایک اور پہلو سے دیکھتا ہوں، ڈان کی انتظامیہ جس نے اسلام آباد سے حکومتی عہدیداران سے تو خبر کی سچائی معلوم کرنے کی کوشش تو کی جو یقیننا صحافت اور صحافی کی ضرورت اور ذمہ داری تھی، لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ڈان کے رپورٹر سرل المیڈا اور ایڈیٹر کی جانب سے اس خبر کے دوسرے فریق پاک فوج کے کسی ذمہ دار سے حقیقت دریافت کرنے کی کوشش کرنے کی ضرورت محسوس کی؟ نہیں کی تو کیوں نہیں کی گئی؟ اس حوالے سے ڈان کی انتظامیہ کیوں غفلت کا شکار ہوئی، فوج کا شعبہ تعلقات عامہ اسی مرض کی دوا ہے۔
میرے دوست ندیم سعید جو خود بھی ڈان سے وابستہ رہ چکے ہیں اور آجکل اقوام متحدہ کے ادارے سے منسلک ہیں نے ایک بہت اہم بات کی طرف اشارہ کیا ہے میں تو اسے پڑھ کر ششدر رہ گیا ہوں، ندیم سعید لکھتا ہے کہ”پاکستان کے سب سے معتبر مانے جانے والے اخبار ڈان میں 10 نومبر 2001 کو اسامہ بن لادن کا ایک مبینہ انٹرویو چھپتا ہے جو اس کے کسی رپورٹر نے نہیں کیا بلکہ ایک ایسے صحافی نے کیا ہے جو ڈان سے منسلک ہی نہیں تھا، اس انٹرویو میں اسامہ بن لادن دعوی کرتا ہے کہ اس کے پاس نیو کلئیر اور کیمیائی ہتھیار ہیں جوامریکا کے خلاف استعمال کیے جا سکتے ہیں”۔
بس پھر کیا تھا امریکا نے افغانستان پر بارود کی بارش کردی اور اپنی افواج وہاں بھیج کر افغانستان کو کھنڈرات میں تبدیل کردیا، جنگ حامد میر کا کیا ہوا اسامہ بن لادن کا انٹرویو روزنامہ ڈان نے کیسے شائع کیا؟ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی اخبار نے کسی دوسرے اخبار کے رپورٹر کا کیا ہوا انٹرویو یا معمول کی خبر شائع کی ہو اور وہ بھی صفحہ اول پر ہیڈ لائن کے طور پر۔۔۔ اسامہ بن لادن کے اس انٹرویو کی ڈان میں اشاعت سے عیاں ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ ایک سازش تھی، اس انٹرویو کو جنگ میں شامل اشاعت نہ کرنا اس سازش کو ثابت کرتا ہے۔ کہیں قومی سلامتی کے منافی خبر بھی ایسی ہی سازش کا حصہ نہ ہو۔سرل المیڈا کی قومی سلامتی کے منافی خبر کی اس حوالے سے بھی تحقیقات ہونا بھی لازمی ہے، اور اس امر کا بھی جائزہ لیا جانا چاہیے کہ سرل المیڈا اور اس کے بگ باس یعنی ایڈیٹرز نے پاکستان کی قومی سلامتی کے ذمہ دار ادارے سے خبر بریک کرنے سے قبل تصدیق کرنا کیوں ضروری خیال نہیں کیا جب کہ انہوں نے حکومتی ذرائع سے رابطہ کیا۔ پاک فوج سے خبر کی صحت سے متعلق معلوم نہ کرنا سازش ہونے کے خدشات کو تقیت دیتا ہے۔شکریہ ندیم سعید کہ آپ نے اس قدر اہم پوائنٹ کی نشاندہی کی۔ اور میرے جیسے صحافت کے طالب علموں کی راہنمائی کی کہ سازشی عناصر سے ہوشیار و خبردار کیسے رہا جائے۔ پندرہ سولہ سال قبل حامد میر کا کیا ہوا اسامہ بن لادن کا انٹرویو ڈان کی بجائے روزنامہ جنگ میں شائع کیا جاتا تو شائد ڈان سے زیادہ لوگ اس سے مستفیض ہوتے۔سرل المیڈا سے خبر بریک کروا کر قومی سلامتی کے اداروں اور سول حکومت کے درمیان موجود اختلافات کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے ماسٹر سٹروک لگایا گیا۔ اس ماسٹر سٹروک لگانے کا سکرپٹ کس نے اور کہاں لکھا اس کی بھی تحقیقات ہونی چاہئیں۔

حالیہ بلاگ پوسٹس