پنجابی کے نامور شاعر احمد راہی نے 1968ء میں کہا تھا
جدوں تیری دنیا توں پیار ٹر جائے گا
دس فیر دنیا تے کی رہ جائے گا
جدوں کوئی پیار دیاں قسماں نہ کھائے گا
دَس فیر دنیا تے کی رہ جائے
تینوں جے سی پیار دے جنازے چنگے لگدے
پیار والا بت ساڑ دیندوں وچ اگرے
جدوں پیار سڑ کے سواہ ہو جائے گا
دَس فیر دنیا تے کی رہ جائے گا
لُٹ لیندے ویری ایتھے پھلاں دیاں لالیاں
جوڑے کھول روندیاں نے سوہے جوڑے والیاں
جدوں پیار ظلماں دی سولی چڑھ جائے گا
دَس فیر دنیا تے کی رہ جائے گا
بچپن سے لے کر اب تک یہ گیت درجنوں بار سنا ہر مرتبہ اس گیت نے نیا لطف دیا۔ مَیں گزشتہ پندرہ برسوں سے ایف۔ایم93 پر پروگرام کر رہا ہوں، جب بھی کسی سننے والے نے اِس گیت کی فرمائش کی تو مَیں نے فوراً ان کی فرمائش پوری کی۔ احمد راہی کا لکھا ہوا یہ گیت مجھے بھی بہت پسند ہے۔ گزشتہ ہفتے یہ گیت گنگناتے ہوئے اخبار کا مطالعہ کر رہا تھا کہ اچانگ مَیں نے گنگنانا بند کیا کہ میری نظر ایک ایسی خبر پر پڑی جس میں احمد راہی کی بیوہ کی کسمپرسی کا تذکرہ تھا کہ ’’وہ آج کل کے لاہور کے خیراتی ہسپتال میں داخل ہیں جہاں پر ان کی تیمارداری کرنے والا کوئی نہ ہے اور وہ بے بسی سے اپنے بچوں کی راہ تکتی رہتی ہیں۔ ماضی کے مقبول ترین اور صدارتی ایوارڈ یافتہ شاعر احمد راہی کی بیوہ حکومتی امداد کی منتظر ہے وغیرہ وغیرہ۔‘‘ مَیں نے یہ خبر پڑھنے کے بعد اکادمی ادبیات پاکستان لاہور آفس کے انچارج برادرم عاصم بٹ سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا احمد راہی کے دو بچے ہیں اور حکومت پاکستان و حکومت پنجاب کے علاوہ اکادمی ادبیات پاکستان کی طرف سے احمد راہی کی بیوہ کو مستقل امداد دی جا رہی ہے۔ ماضی قریب میں احمد راہی کے اہلِ خانہ کو دس لاکھ روپے بھی دیئے گئے جو ان کے بیٹے کی بری عادت کی نذر ہو گئے۔ احمد راہی کی بیوہ ایک مرتبہ پھر حکومتی توجہ کی منتظر ہے کہ نومبر احمد راہی کی سالگرہ کا مہینہ ہے اسی لیے آج کچھ باتیں احمد راہی کی راہِ حیات کے متعلق ہوں گی۔ 12 نومبر 1923ء کو پیدا ہونے والے احمد راہی کا اصل نام خورشید احمد تھا۔ خاندان میں ان سے پہلے ان کے ماموں ماسٹر صادق امرتسری شاعری کر رہے تھے۔ 1952ء میں ان کا مشہورِ زمانہ پنجابی شعری مجموعہ ’’ترنجن‘‘ منظرِ عام پر آیا۔ اُن کے پہلے شعری مجموعے ترنجن کے بارے میں کرشن چندر نے ایک خط میں لکھا ’’جس طرح آپ کی کتاب ہمارے پاس پہنچ گئی مَیں نے سمجھا جیسے پورا پنجاب چل کر میرے پاس آ گیا ہے۔ کہیں سرسوں کا ساگ ہنس رہا ہے، کہیں صحن میں چرخا گھوں گھوں کر رہا ہے تو کہیں کوئی کِکلی ناچ ناچ رہا ہے۔‘‘ دوسرا شعری مجموعہ ’’رُت آئے رُت جائے‘‘ 1993ء میں احمد سلیم نے فرنٹیئر پوسٹ پبلی کیشنز لاہور کے تحت شائع کرایا۔ ترنجن کا انتساب امرتا پریتم جبکہ رُت آئے رُت جائے کا انتساب تنویر نقوی کے نام کیا۔
اے حمید نے احمد راہی کے بارے میں اپنے خاکے میں لکھا ’’احمد راہی کے گھر مَیں اور اقبال کوثر اکثر جایا کرتے (یاد رہے یہ وہی اقبال کوثر ہے جس کایہ شعر زبان زدِ عام ہوا)
جس طرح لوگ خسارے میں بہت سوچتے ہیں
آج کل ہم ترے بارے میں بہت سوچتے ہیں
راہی کے دیوان خانے کے اوپر ایک شہ نشین ہوا کرتی تھی جس کی چھوٹی سی کھڑکی گلی میں کھلتی تھی۔ اس شہ نشین میں ہم کھڑے نہیں ہو سکتے جھک کر چلتے تھے۔ یہاں ایک دری بچھی رہتی، اس دری پر بیٹھ کر ہم تینوں دوست دنیا جہان کی باتیں کرتے۔ سامنے والے گھر میں ایک ہندو لڑکی رہتی تھی احمد راہی کا اس سے عشق چل رہا تھا۔ کسی وقت وہ اٹھ کر کھڑکی کا پٹ کھول کر سامنے والے مکان کے آنگن میں دیکھتا اور ساتھ ساتھ کمنٹری کرتا جاتا۔
’’وہ آ رہتی ہے، وہ آ گئی ہے تار پر گیلے کپڑے ڈال رہی ہے اس نے سفید ساڑھی پہنی ہے۔‘‘
اقبال کوثر تنگ آ کر کسی وقت اسے پنجابی میں گالی دیتا اور کہتا ’’وہ آ رہی ہے وہ جا رہی ہے تے سانوں کیہ۔ اَسی کیہ کریئے؟‘‘
احمد راہی بھی اسے جواب میں موٹی سی گاڑی دے کر کہتا ’’تم بھی کسی سے کر سکتے ہو تو عشق کرو نہیں تو تمہاری۔۔۔۔۔۔‘‘
سعادت حسن منٹو نے احمد راہی کے متعلق لکھا ’’ترنجن کا نام سنتے ہی میرے ذہن میں ایک ایسی جگہ کا تصور ابھر آتا ہے جسے مَیں نے آج تک دیکھا نہیں ہے اور اس کے باوجود جب بھی کوئی ’ترنجن‘ کا ذکر کرتا ہے تو مَیں ایک عجیب سی مسرت محسوس کرتا ہوں۔ مجھے لگتا ہے جیسے مَیں ایک لڑکی ہوں جو اپنی سکھیوں کے ہمراہ چرخا کات رہی ہے اسے آپ پنجاب کے دیہات کی فضا کا جادو کہہ لیں یا اسے کوئی اور نام دے لیں۔ میرے یار احمد راہی نے ایک کتاب چھپوائی ہے جس کا نام ’’ترنجن‘‘ رکھا ہے۔ پنجابی شاعری مجموعے کا اس سے اعلیٰ نام کیا ہو سکتا ہے۔ اس مجموعے میں دمڑی کے سکے سے لے کر لاکھوں کے کاروبار کا ذکر ہے۔ لونگ کے لشکارے سے لے کر ان بجلیوں کی کہانی بیان کی گئی ہے جو ہل چلاتے جاٹوں کو اپنے ہل روکنے کی بجائے انہیں اور زیادہ محنت کرنے پر اکساتی ہیں۔ احمد راہی نے شاعری کی چھاتی پر جنگلی کبوتروں کے گھونسلے نہیں بنائے اس نے ان گھونسلوں کا تذکرہ کیا ہے جن میں غریب بستے ہیں۔ یہ گھونسلے خوبصورت گول مٹول اور پھڑکنے والے نہیں مگر ایمان کی بات ہے کہ احمد راہی کی زبان سے ان کا ذکر سن کر ایک بار تو کلیجہ ہِل جاتا ہے۔‘‘
جن دنوں احمد راہی کا دوسرا شعری مجموعہ ’’رُت آئے رُت جائے‘‘ احمد سلیم نے شائع کیا تو انہی دنوں فرنٹیئر پوسٹ لاہور کے دفتر میں ان سے پہلی ملاقات ہوئی۔ احمد سلیم نے میرا اُن سے تعارف کرایا اور بتایا کہ میرا تعلق ملتان سے ہے تو انہوں نے اپنے ملتان کے دوستوں کا تذکرہ کیا۔ باتوں باتوں میں ان سے پوچھ لیا کہ ترنجن کے بعد دوسرے مجموعۂ کلام میں اتنی دیر کیوں؟ کہنے لگے اس کا جواب مَیں پہلے بھی دے چکا ہوں کہ ’’ہم لوگ جتنا کاغذ اب تک ضائع کر چکے ہیں کیا وہ کافی نہیں؟‘‘
انہوں نے یہ بات 1994ء میں کہی جو آج کے ادبی حالات کی عکاس ہے کہ اب جس طرح کی کتب شائع ہو رہی ہیں ان میں پڑھنے کے لیے مواد کم ہوتا ہے۔ ادیب شاعر اب کتاب کی آرائش و زیبائش پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ احمد راہی نے ترنجن کے ذریعے پنجابی شاعری کا ایک نیا روپ متعارف کرایا۔ اسی طرح ان کے پنجابی فلمی گیت آج بھی زبان زدِ عام ہیں۔ مثال کے طور پر یہ گیت دیکھیں:
میری چنی دیاں ریشمی تنداں
وے مَیں گھٹ گھٹ دینی آں گنڈھاں
۔۔۔*۔۔۔
کوئی نواں لارا لا کے مینوں رول جا
جھوٹھیا وے اِک جھوٹ ہور بول جا
۔۔۔*۔۔۔
آندا تیرے لئی ریشمی رومال
تے اُتے تیرا ناں کڈھیا
ایک مرتبہ اظہر جاوید بتا رہے تھے کہ مَیں نے جب پہلی مرتبہ احمد راہی کا لکھا ہوا کلام سنا تو مَیں ان کی تلاش میں نکل پڑا کہ ان کے ایک گیت نے مجھے نہ دنیا کا چھوڑا نہ دین کا۔ کونسا گیت؟ مَیں نے اظہر جاوید سے پوچھا۔ کہنے لگے
رب ہووے تے میل کرا دے
تے تیرا میرا رب کوئی نہ
ڈب جان نہ نیرا وچ یاداں
ایس ڈروں مَیں روئی نہ
اظہر جاوید اپنے رسالے ’’تخلیق‘‘ میں ان کی شاعری بڑے اہتمام سے شائع کرتے کہ وہ ان کے پسندیدہ شاعر تھے۔ احمد راہی کی فلمی شاعری اور ’’ترنجن‘‘ نے پنجاب ادب کو نئی جہت دی۔ مثال کے طور پر جب انہوں نے فلم ہیر رانجھا کے لیے بنیادی دوگانا لکھنا تھا تو وہ مکھڑے سے مطمئن نہیں ہو رہے تھے۔ ہیر کے منہ سے رانجھے کے لیے انہوں نے ’’ونجھلی والڑیا‘‘ کے بول کہلوائے مگر اس سطح کے بول رانجھے کے لیے ان کے ذہن میں نہیں آ رہے تھے۔ اسی پریشانی کے عالم میں ایک دن ہیر رانجھا فلم کے سیٹ پر آئے وہاں پر انہوں نے فلم سٹار فردوس کو آتے دیکھا تو اس کے چہرے پر نظر پڑتے ہی انہیں اپنے مسئلے کا حل مصرعہ مکمل ہونے کی صورت میں مِل گیا۔ اب مکمل مصرعہ انہوں نے یوں کہا:
’’ونجھلی والڑیاں ۔ نی نینا والڑیے‘‘
وے توں تاں مولئی اے مٹیار
احمد راہی جس طرح کی عشقیہ شاعری کرتے تھے یقیناًان کی اہلیہ کو بڑی خوشی ہوتی ہو گی کہ ان کے پیار کے لکھے ہوئے گیت زمانے کے لبوں پر ہوتے تھے۔ آج احمد راہی کی بیوہ کی حالت ان گیتوں کے پس منظر میں دیکھتا ہوں تو میرا خیال ہے وہ اپنی کسمپرسی کو دیکھ کر یہ ضرور کہہ رہی ہوں گی:
جدوں تیری دنیا توں پیار ٹر جائے گا
دس فیر دنیا تے کی رہ جائے گا
واقعی جب دنیا سے کسی سے پیار کرنے والا اُٹھ جاتا ہے تو حالات وہی ہو جاتے ہیں جس کا اظہار احمد راہی نے 1968ء میں یہی گیت لکھ کر کیا تھا۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn