آج اسلم کی آنکھ دیر سے کُھلی۔وہ جلدی جلدی تیار ہوااور بس اسٹاپ کی طرف دوڑ لگادی۔ اُس نے سوچا کہ اگر بس کا انتظار کیا تو مزید دیر ہو جائے گی اس لئے رکشہ کر لیا جائے ،یہی سوچ کر وہ سامنے سے آتے رکشے میں بیٹھ گیا۔ موسم بھیگا بھیگا تھا ،ہلکی ہلکی پُھوار پڑ رہی تھی۔ گولیمار چورنگی پر تعمیرِ انڈرپاس کی وجہ سے ٹریفک کا انتہائی رش تھا۔ رکشے والے نے ناظم آباد کی گلیوں میں رکشہ دوڑا دیا تاکہ منزل تک جلد پہنچا جا سکے ۔ سفر جاری تھا کہ یک دم اُس نے رکشہ روکا اور خود نیچے اُتر گیا۔ اُس نے ادھر اُدھر سے کچھ اینٹیں جمع کیں، درختوں کی ٹہنیاں اُٹھائیں اور کُھلے مین ہول کے ارد گرد رکھنے لگا۔ اسلم کو آفس سے دیر ہو رہی تھی ۔اس نے جھلا کے رکشے والے کو آواز دی لیکن وہ اپنے کام میں مگن رہا۔مین ہول کو اچھی طرح ڈھانپ کر اور ٹہنیوں سے نشانی لگا کر وہ رکشے میں آن بیٹھا۔ ادھر اسلم رکشے میں تپا بیٹھا تھا بولا! ارے بھائی تم اکیلے اس معاشرے کا مزاج نہیں بدل سکتے۔ یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہواہے کہاں تک سُدھارو گے؟ روز کوئی نہ کوئی چیز بگڑ جاتی ہے۔ رکشے والے نے مُڑ کر اُس کی طرف دیکھا اور مسُکرا کر بولا! بھائی میں کسی معاشرے کو نہیں جانتا۔ میرا تو ایک ہی بچہ تھا جو کُھلے مین ہول میں گِر کر مر گیا تھا۔ اُس کی یاد ہر پل تڑپاتی تھی جس کی وجہ سے میں مہینوں سو نہیں سکا۔ مجھے اُس تکلیف کا اندازہ ہے اس لئے چاہتا ہوں کسی اور کا بچہ مین ہول میں گِر کر جان نہ دے اور کوئی دوسرا اس کربناک اذیت سے نہ گزرے، بس اسی لئے جہاں ایسے بنا ڈھکن کے گٹر دیکھتا ہوں، اُس پر نشانی لگا دیتا ہوں اور ویسے بھی بارش کا موسم ہے ۔۔۔۔ اللہ رحم کرے ۔۔۔۔۔ یہ کہتے ہوئے رکشے والے کی آنکھیں بھیگ چُکی تھی ادھر اسلم، آفس سے دیر ہونے کی پریشانی سے نجات پا چُکا تھا۔ اب اُس کی نظریں بھی کُھلے مین ہول تلاش کر رہی تھیں۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn