پاکستان میں شیعہ ٹارگٹ کلنگ اپنی بدمست رفتار سے جاری ہے۔ حکومت کے دعوے اور ریاست کی بڑھکیں سب ہوا ہوئی ہیں۔ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ ان دعوؤں اور بڑھکوں کی اوقات آندھی سے اٹھی دھول جیسی بھی نہیں۔ شیعہ ٹارگٹ کلنگ کے حوالے سے ہمیں دو باتیں بہت اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہیں۔ اولاََ یہ کہ 1980 ءکی دہائی کی فوجی حکومت ، جس کے سربراہ جنرل ضیا ء الحق تھے، نے اپنے سواد اور اقتدار کی طوالت کے لئے انجمن سپاہ صحابہ کے نام سے ایک فرقہ پرست تنظیم بنوائی ۔ اس کے خدوخال واضح کرنے اور کارکنوں کو تربیت دلوانے کے لئے ہماری ایک طاقتورریاستی ایجنسی نے افغان جہادی کیمپوں کا سہارا لیا۔ انجمن سپاہ صحابہ کی کوکھ سے ہی لشکرِ جھنگوی، جند اللہ، لشکر جھنگوی العالمی نے جنم لیا۔ ثانیاََ یہ کہ اس وقت پاکستان کے وفاق اور پنجاب و بلوچستان میں برسرِ اقتدارمسلم لیگ (ن) روحانی اور فکری طور پر جنرل ضیاء الحق کی وارث ہے۔ سو انہی کی شیعہ دشمن پالیسیاں مسلم لیگ (ن) کی سیاست اور حکمرانی کا اصل چہرہ ہیں۔ 2008 ء اور 2013ء کے عام انتخابات کے دوران تحریکِ طالبان، لشکرِ جھنگوی، جند اللہ اور ان جیسی دوسری دہشت گرد تنظیمیں اور ان کے فکری مائی باپ کا درجہ رکھنے والی سپاہ صحابہ مسلم لیگ (ن) کی اتحادی رہیں۔ پنجاب کے وزیرِ قانون رانا ثناء اللہ کا شمار لشکرِ جھنگوی کے سرپرستوں میں ہوتا ہے۔ اسی طرح ہم اگر وفاقی وزیرِ داخلہ چوہدری نثار عی خان کے سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی کی طرف ذہنی جھکاؤ کو دیکھیں تو عام آدمی یقیناََ حیران ہو گا لیکن مجھے کوئی حیرانی نہیں۔ میں ذاتی طور پر اس امر سے آگاہ ہوں کہ چوہدری نثار علی خان کے خاندان کا نصف حصہ شیعہ شناخت کا حامل ہے۔ چوہدری نثار علی کے دادا دو بھائی تھے۔ ان کے دادا کے دوسرے بھائی نے تقسیم ہند کے کچھ عرصہ بعد مکتبِ امامیہ میں شمولیت اختیار کی۔ اپنے خاندان کے اندر موجود شیعہ مسلم رشتہ داروں کی مخالفت میں ہی چوہدری نثار علی خان 1980ء کی دہائی میں سیاست میں آنے کے بعد سے ہی اپنے آبائی علاقے دھمیال میں سپاہ صحابہ کی سرپرستی کرتے آرہے ہیں۔ مکتبِ امامیہ سے تعلق رکھنے والے ان کے کزن چوہدری کامران علی خان پیپلز پارٹی کی طرف سے پنجاب اسمبلی کے رکن بھی رہے۔ اس تذکرہ کا مقصد فقط اتنا ہے کہ وفاقی وزیرِ داخلہ کی شیعہ مخالفت ذہنی رو کو سمجھا جا سکے۔
ہم اگر پچھلے تیس سالوں کی سیاسی تاریخ اور شیعہ ٹارگٹ کلنگ کے واقعات پرایک نگاہ ڈالیں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ انجمن سپاہ صحابہ کے ساتھ سیاسی اشتراک کرنے والوں میں مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی، جنرل مشرف، تینوں نے اپنے اپنے وقت پر اس جماعت سے تعاون حاصل کیا اور اپنے اپنے دور میں (ماسوائے زرداری دور کے) انجمن سپاہ صحابہ کی دہشت گردی کی طرف سے آنکھیں بند کئے رکھیں۔ 2008ءسے سپاہ صحابہ، لشکرِ جھنگوی اور مسلم لیگ (ن)کے درمیان تعاون و اتحاد سعودی شاہی خاندان کی منشا کے مطابق ہے۔ گو مسلم لیگ کے بعض رہنما اپنے موجودہ دور میں لشکرِ جھنگوی کے بعض افراد کی پولیس مقابلوں میں مارے جانے کی کہانی سنا کر داد چاہتے ہیں لیکن وہ بھول جاتے ہیں کہ ملک اسحٰق اور غلام رسول شاہ کی پولیس مقابلے میں ہلاکت شام میں گرفتار ہونے والے لشکرِ جھنگوی کے نائب امیر امجد فاروق معاویہ کی گرفتاری اور اس کے انکشافات کا نتیجہ تھی۔ ان انکشافات سے شام کے آرمی چیف نے باضابطہ طور پر پاکستان کے آرمی چیف کو آگاہ کیا تھا۔ مسلم لیگ (ن) نے مظفر گڑھ سے تعلق رکھنے والے عباد ڈوگر کو 2013ء کےانتخابات میں اپنا امیدوار بنایا۔ عباد ڈوگر لشکر ِ جھنگوی کا سابق کمانڈر ہے۔ اسی طرح گجرات سے مسلم لیگ (ن) کاایم این اے چوہدری عابد رضا بھی لشکرِ جھنگوی کے سابق کمانڈر ہے۔ اس کے خلاف 6 افراد کے قتل کے ایک مقدمہ کو حال ہی میں سپریم کورٹ نے ری اوپن کرنے کا حکم دیا ہے۔جبکہ چودھری عابد جنرل پرویز مشرف پر حملے کا بھی ملزم ہے۔ اس مقدمہ میں سے اسے سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے مشرف دشمنی میں بری کروایا تھا۔ اس مقدمہ قتل میں مدعی پارٹی پر وزیرِ اعلیٰ شہباز شریف نے دباؤ ڈال کر صلح کروائی تھی جس کا سپریم کورٹ نے نوٹس لیا۔ یہ دو مثالیں محض حوالے کے لئے ہیں ورنہ 2013ء کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) نے سپاہ صحابہ کے ووٹ حاصل کرنے کے لئے اس جماعت کے پنجاب بھر میں 23 افراد کو اکاموڈیٹ کیا۔ رانا مشہود جو کہ پنجاب کے وزیرِ تعلیم ہیں ماضی میں سپاہ صحابہ اور لشکرِ جھنگوی کے لئے لاہور سے فنڈ ریزنگ کرنے والوں میں شامل تھے۔ خانیوال سے مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی چودھری افتخار نذیر سپاہ صحابہ کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر خادم حسین ڈھلوں کے گاڈ فادر ہی نہیں بلکہ سپاہ صحابہ کو لاکھوں روپے سالانہ باقاعدہ چندہ دیتے ہیں۔مسلم لیگی رہنماؤں کی انفرادی طور پر سپاہ صحابہ کی سرپرستی و مالی معاونت کسی سے پوشیدہ نہیں۔ خود صوبائی حکومت کی ایما پر پنجاب میں سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی کے خلاف اقدامات نہیں کیے گئے۔ ان حالات میں اگر آئے دن شیعہ ٹارگٹ کلنگ ہوتی ہے اور حکومت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ حکومت ہویا ریاستی اشرافیہ (فوج) کسی کو بھی اپنے لاڈلوں کی سرگرمیوں پر تکلیف اس لئے نہیں ہوتی کہ یہ مسلمہ لاڈلے دوسرے محاذوں پر ریاست کے لئے خدمات سرانجام دیتے ہیں۔ یکم نومبر کی شام واہ کینٹ میں لشکرِ جھنگوی کے درندوں کے ہاتھوں شہید ہونے والے امام بارگاہ قصرِ شبیرؑ کے ٹرسٹی سید رضا جعفری ایک صاحبِ علم اور مرنجا مرنج شخصیت تھے۔ چند سال قبل ان کے بہنوئی کو بھی لشکرِ جھنگوی کے درندوں نے شہید کیا تھا۔ رضا جعفری راقم کی اہلیہ کے عزیزبھی تھے اورہمارے محبت کرنے والے دوست بھی۔ ان کے سفاکانہ قتل پر واہ کینٹ کے علمی و مذہبی حلقوں میں دکھ کی لہر دوڑ گئی۔ یہاں اس امر کا اظہار ضروری ہے کہ پنجاب کے وزیرِ قانون نے آئی جی پنجاب کو باقاعدہ حکم دے رکھا ہے کہ پنجاب میں ہونے والی شیعہ ٹارگٹ کلنگ کے مقدمات مدعیوں کی بجائے پولیس کی طرف سے درج کیے جائیں اور ایف آئی آر کے اندراج کے وقت قتل کو مشکوک بنا دیا جائے۔ مسلم لیگ (ن) کی شیعہ دشمن پالیسیوں اور شیعہ ٹارگٹ کلنگ پر سیاست چمکاتے شیعہ لیڈروں ہر دو سے نجات کی واحد صورت یہ ہے کہ شیعہ مسلمانوں کے اندر سے ایک باشعور سیاسی قیادت ابھر کر سامنے آئے اور ملت کی صحیح سمت میں رہنمائی کرے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn