Qalamkar Website Header Image

شربت گُلہ، تیسری دنیا کی مونا لیزا کی کہانی۔ نور درویش

عالمی شہرت یافتہ فوٹو گرافر Steve McCurry نے سنہ 1984 میں پاکستان میں ناصر باغ نامی افغان پناہ گزین کیمپ میں ایک لڑکی کی تصویر بنائی تھی۔ یہ تصویر نیشنل جیوگرافک میگزین کے سرورق پر شائع ہوئی تھی اور Steve McCurry کے کیرئیر کی سب سے بہترین بلکہ ماسٹر پیس قرار دی گئی ۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اُس کے نام کے ساتھ یہ تصویر لازم و ملزوم سمجھی جاتی ہے۔ دنیا بھر میں Steve McCurry کی تصاویر کی جتنی نمائشیں منعقد ہوتی ہیں، اُن میں دیکھنے والوں کی سب سے زیادہ دلچسپی اِسی تصویر میں نطر آتی ہے اور یہ مشاہدہ میں نے خود ایک بار کیا۔

اِس تصویر کو تیسری دُنیا کی مونا لیزا کہا گیا جسکی وجہ لڑکی کے چہرے کے تاثرات اور انتہائی منفرد آنکھیں ہیں جن میں خوف کا اثرات نمایاں ہیں۔

اِس لڑکی کا نام شربت گُلہ ہے جو افغان جنگ کے دوران پاکستان میں ناصر باغ کیمپ میں مقیم تھی۔ اِسکے والدین وہیں افغانستان میں دورانِ جنگ چل بسے تھے۔ کہتے ہیں کہ Steve McCurry نے سنہ 1984 میں یہ تصویر لینے کے بعد اِس لڑکی کو دوبارہ ڈھونڈنے کی بہت کوشش کی لیکن کامیابی نہ ملی۔ اپنی ٹیم کو بہت بار پاکستان اور افغانستان بھیجا لیکن اِس لڑکی کا سراغ نہ مل سکا۔  پھر بلاآخر سال ۲۰۰۲ میں اُسے یہ لڑکی دوبارہ مل گئی۔ زمانے اور زندگی کی سختیوں نے چہرے کے خد و خال بدل دئے تھے۔ آنکھوں میں موجود خوف کی جگہ اب دکھ حسرت اور یاس نے لی تھی۔ اُس وقت پہلی بار اِس لڑکی کا نام معلوم ہوا۔

تیسری دنیا کی مونا لیزا کا سفر صرف 2002 تک محدود نہیں۔ چند روز قبل tempاُسے پشاور میں جعلی پاکستانی شناختی کارڈ بنوانے کے جرم میں گرفتار کر لیا گیا تھا، غالبا اُس نے ضمانت کی درخواست دائر کردی ہے۔ گویا اطالوی مصور کی تخلیق مونا لیزا کی وجہ شہرت اُسکی پراسرار مسکراہٹ ہے اور Steve McCurry کی دریافت تیسری دنیا کی مونا لیزا یعنی شربت گُلہ کی خصوصیت اُسکی وحشت زدہ آنکھیں اور جعلی پاکستانی شناختی کارڈ ہے۔

یہ بھی پڑھئے:  آدھا معافی نامہ اور پورا شکوہ - حیدر جاوید سید/ فقیر راحموں

افغان جہاد کے متبرک کارناموں کے قصیدے، سویت یونین کی گرم پانیوں تک پیش قدمی کو روکنے کے ولولہ انگیز واقعات اور مردِ مومن کی جذباتی تقاریر کے اقتباسات سنانے والے دوست شاید ہی کبھی اِس جانب متوجہ ہوں کہ تیسری دنیا کی مونا لیزاوں کا المیہ کیا رہا۔ کاش سوچ سکیں کہ جنگوں اور ہجرتوں کا خمیازہ اگر کوئی سب سے زیادہ بھگتتا ہے تو وہ عورتیں اور بچے ہیں۔

مجھے یقین ہے کہ 1984 میں شربت گُلہ کی آنکھوں میں جو خوف تھا، ویسا ہی خوف فٹبال سٹیڈیم طالبان کے ہاتھوں سر پر گولی مار کر قتل کی جانے والی افغان عورت کی آنکھوں میں  ہوگا، بس فرق یہ ہے کہ اُس نے برقعہ پہن رکھا تھا۔

مردِ مومن نے فرمایا تھا کہ اگر افغان مجاہد ناکام ہوگئے تو آگ ہمارے گھر تک بھی پہنچے گی، اس لئے اور کچھ نہیں کر سکتے تو اُنکے لئے دعا ہی کریں۔ پھر یوں ہوا کہ افغان مجاہدین (بشمول ہمارے مجاہدین) جنگ جیت گئے، لیکن آگ تو ہمارے گھر پھر بھی پہنچ گئی اور ایسا پہنچی اب تک بھجنے کا نام نہیں لیتی۔ جس گرم پانی تک سویت یونین کو روکنا فرض تھا، آج چین کو وہاں تک پہنچانا واجب ہے۔ 

افغانستان کی شربت گُلہ عرف تیسری دنیا کی مونا لیزا، پاکستانی جعلی شناختی کارڈ بناتی گرفتار ہوگئی، سوات کی گُل مکئی طالبان کے ہاتھوں سر میں گولی کھا کر ملک چھوڑ گئی۔ آپ چاہیں تو تیسری دنیا کی مونا لیزاوں کی اِس فہرست میں کراچی میں آنکھوں کے سامنے اپنے باپ کو کھونے والی محضر زہراء کو بھی شامل کرلیں،  پشاور میں بچوں کے تابوتوں پر بین کرتی ماوں کو بھی اور کوئٹہ میں جنازوں کے سرہانے بیٹھی ہزارہ شیعہ عورتوں کو بھی۔ فہرست بہت لمبی ہے، ورنہ مزید آپشنز دے دیتا۔

یہ بھی پڑھئے:  کچھ تصویریں۔۔۔

جس روز اِس افغان عورت کی گرفتاری کی خبر پڑھی تھی، اُسی روز سوچا تھا کہ اِس بارے میں کچھ لکھنے کی کوشش کرونگا لیکن کیا کروں یہاں کراچی میں پاکستانی شیعہ عورتوں کی مجلس عزا میں اُن دہشتگردوں نے دھاوا بول دیا جنکے ہمخیالوں کے ساتھ ہماری سرکار کی بہت گاڑھی چھنتی ہے اورجنکی کامیابی کی دعائیں مانگنے کی تلقین مردِ مومن کرتے تھے۔  اِس حملے میں ایک عورت کا شوہر اور تین بیٹے اُسکے سامنے قتل ہوگئے، غالبا ایک عورت بھی جان سے چلی گئی۔ 

Steve McCurry یا اُس جیسا کوئی فوٹو گرافر ہوتا تو اُس سے کہتا کہ کبھی دوبارہ پاکستان آو، یہاں تیسری دنیا کی بہت سے مونا لیزائیں مل جائینگی، آنکھوں میں شربت گُلہ سے زیادہ خوف، یاس اور کرب سمیٹے ہوئے۔ 

 

 
 

حالیہ بلاگ پوسٹس