Qalamkar Website Header Image

انسانیت کی موت – عادل باجوہ

لاکھ کوششوں کے باوجود میں خود کو کوئٹہ میں ہونے والی شہادتوں کے کرب سے نہیں نکال پا رہا۔۔۔ شہادتیں اور بھی سنی ہیں مگر پتہ نہیں کیوں ان بے گناہ جانوں کے کرب نے مجھے جھنجوڑ کے رکھ دیا ہے۔۔۔شاید اس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ میرا خود کا بھائی پولیس میں ہے اور میں بھی ایک ہوسٹل میں رہتا ہوں تو وہ دونوں صورتوں کا علم ہے جو ان بیچاروں کو درپیش تھیں۔۔۔ وہ پولیس والے بھی تھے اور گھروں سے دور ہوسٹل میں بھی۔۔۔ میں بارہا سوچ چکا ہوں کہ کیا بیتی ہو گی ان شہیدوں پر اور کیا بیت رہی ہو گی انکے گھر والوں پر۔۔۔
کتنے خوش ہوں گے پاسنگ آوٹ کے بعد۔۔۔۔سپاہی بن کر کیسا محسوس کر رہے ہوں گے۔۔۔۔ باپ کتنا پر امید ہو گا کہ اب گھر کے خرچے سنبھالے گا آ کے۔۔۔۔ ماں بہو کے خواب دیکھ رہی ہو گی اور بہن بھائی اسے وردی میں دیکھنے کے لیے بے تاب ہوں گے۔۔۔۔ کچھ کی منگیتریں شادی کے دن گننے لگ گئی ہوں گی تو کچھ کی بیویاں ان کی واپسی کے لیے سج سنور رہی ہوں گی۔۔۔
مگر لال رنگ بیویوں کی بجائے ان سپاہیوں نے خود پہ سجھا لیا۔۔۔
اور جب ان کی شہادت کی طرف دماغ جاتا ہے تو آنکھوں کے آگے دردناک منظر آجاتا ہے کہ کیسے وہ نہتے جان بچانے کے لیے ادھر ادھربھاگے ہوں گے۔۔۔۔ کوئی دروازے کی اوٹ میں چھپا ہو گا تو کوئی دیوار کے پیچھے۔۔۔۔ کسی نے اپنے جگری یار کا سینہ چھلنی ہوتے دیکھا ہوگا تو کوئی اپنے رومیٹ کی لاش گرتے دیکھ کر زندہ لاش بن گیا ہوگا۔۔۔۔
آہ۔۔۔۔۔۔ قیامت کا سنتے رہے ہوں گے لیکن دیکھی اس وقت ہوگی
اور جب خدا کے خضور پہنچے ہوں گے تو اپنے ماں باپ کے خواب ٹوٹنے، بیویوں کے سہاگ اجڑنے اور بہن بھائیوں کے کلیجے پھٹنے کا گلہ تو کیا ہو گا۔۔۔۔ شکایت تو لگائی ہو گی۔۔۔۔ مگر وہ شکایت کس کے نام ہو گی؟ مذہبی شدت پسند مولویوں کے خلاف؟ ریاست کے خلاف یا پھر نام نہاد جہادیوں کے نام یا پھر ہم سب کی بے حسی کے خلاف کہ ہم کس طرح ان کی شہادتوں کو بھول کر سارا دن شیخ رشید اور چائے والے کے تذکروں میں مصروف ہیں؟
دعا کرو ان کی شکایت پر نوٹس نا لیا جائے ورنہ یہ بے حسی ہماری زندگیوں میں بھر دی جائے گی اور ہم اس قدر بے حس ہو جائیں گے کہ سامنے سگے بھائی کا یا پھر باپ کا لاشہ پڑا ہو گا اور ہماری آنکھوں میں نمی نہیں اترے گی اور یہ انسانیت کی موت ہو گی۔

حالیہ بلاگ پوسٹس