Qalamkar Website Header Image

تھوڑا سا مسکراؤ – زری اشرف

childrenخوشی،اطمینان اور بےفکری کی زندہ و تابندہ مثال ہیں یہ بچے ۔برانڈز کی دنیا سے کوسوں دور یہ بچیاں اپنی ہی دنیا میں مگن ہیں نہ یہ انٹر نیٹ کے جھنجھٹ میں پڑی ہیں اور نہ کوئی دنیا کا فیشن جانتی ہیں۔ آزاد فضاؤں کی کھلتی کلیوں کے چہرے پر حقیقی مسکراہٹ نہ صرف دیکھی جا سکتی ہے بلکہ لمحہ بھر کر خود کو بھی اس منظر کا حصہ محسوس کریں تو سب غم غلط ہو جائیں۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا خوشیاں پیسوں سے خریدی جا سکتی ہیں ؟تو جواب ہو گا کہ نہیں اور اس کی زندہ و جاوید مثال ہیں ہمارے لٹیرے حکمرانوں کے بھوکے بچے۔ ذرا سی توجہ کیجئے گا کہ آپ نے آخری بار کس حکمران کے کون سے بچے کے چہرے پر حقیقی مسکراہٹ دیکھی تھی ( طنزیہ یا زبردستی کی بات نہیں کر رہی ) ایک طرف اگر غریب سہولتوں کو ترس رہے ہیں تو دوسری طرف اشرافیہ کے بچے زمانے بھر کی دولت سے خوشیاں خریدنے کے درپے ہیں اور اس معاملے میں جیت غریب کی دور بستیوں میں بسنے والے ان من کے موجی بچوں کی ہی ہوتی ہے ۔ایسے علاقوں میں جہاں خود بھی روٹی کے لالے پڑے ہوتے ہیں کم از کم بستی کا کوئی بندہ بھوکا نہیں سوتا یا تو وہ خود محنت مزدوری سے انتظام کرتا ہے یا کوئی ہمسایہ اس کی مدد کرتا ہے۔
جب کہ شہروں کے باسیوں کو تو پڑوس والے گھر کسی کے انتقال تک کا علم تک نہیں ہوتا ۔جیسے جیسے پیسہ آتا ہے بے حسی بڑھتی اور انسانیت گھٹتی جاتی ہے۔کہاں وہ کھلی اور آزاد ہوائیں جہاں بسنے والوں کے دل بھی کھلے اور دماغ میں فتور بھی کم بھرا ہوتا ہے اور کہاں بڑے بڑے گھروں میں بسنے والے چھوٹے دل کے لوگ کہ بچارے دروازے پہ آئے فقیر کو بھی دس روپے دینے سے پہلے بیس دفعہ سوچتے ہیں کہ یہ اس کا حق دار ہے بھی یا نہیں۔

یہ بھی پڑھئے:  پتلی گلی سے پہلے

اور اگر ان امیر زادوں کی مزید بدتمیزیوں کا مظاہرہ دیکھنا ہو تو ملاحظہ فرمایئے اگر ان کی گاڑی کسی ریڑھی والے سے ٹکرا جائے تو بیچ سڑک اپنی خاندانی تربیت کا عملی مظاہرہ نہ صرف غلیظ گالیوں کی صورت میں کرتے ہیں بلکہ معاوضہ بھی وصول کرتے ہیں۔
آپ کسی دیہات میں چلے جائیں انجان لوگ بھی کھانے پینے کا انتظام لازمی کردیں گے جبکہ شہر کے بڑے سے بڑے ہوٹل یاکسی گھر سے مفت کھانا کھانے کا آپ سوچ بھی نہیں سکتے۔
ہم نے سہولیات کے چکر میں روایات اور خوشیاں کہیں کونے کھدرے میں ہی لگا دی ہیں۔
سوچنا تو بنتا ہے نا کہ آخری بار بھر پور قہقہہ کب لگایا تھا ۔بلاوجہ کب مسکرائے تھے۔بہت سے لوگوں کے پاس شائد اس بات کا جواب بھی نہ ہو۔
اور ہاں اس تصویر میں غربت ڈھونڈنے والے میرے پاس آ کر اپنے حصے کی لعنت وصول کر سکتے ہیں۔

حالیہ بلاگ پوسٹس