Qalamkar Website Header Image

سرائیکی وسیب، ایک حقیقت ۔ منیر بھٹہ

کرہ ارض پر سیدنا آدمؑ اور سیدہ حواؑ کی توبہ10محرم الحرام کو قبول کرنے کے بعد اللہ رب العزت نے انہیں کثرتِ اولاد سے نوازاتو زمین پر ’’ہابیل اور قابیل‘‘ کے عظیم سانحہ کے بعد روئے زمین پر اولاد آدمؑ ایک دوسرے سے ہر وقت جھگڑتے رہتے تھے ۔ان حالات میں سیدنا آدمؑ نے اللہ رب العزت سے نصف شب کو دعا کی کہ اے اللہ! انہیں پیار و محبت سے زمین میں قیام کرنے کی توفیق دے۔ مالکِ کائنات نے اپنے پہلے بندے اور نبیؑ کو وحی بھیجی کہ اے ! آدمؑ توغم نہ کر جب یہ صبح بیدار ہوں گے تو پھر کبھی بھی آپس میں نہیں لڑیں گے! ۔جب صبح کو اولادِ آدم بیدار ہوئی تو سیدنا آدمؑ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ سب کے سب پرامن اور پیارو محبت کے ساتھ مختلف گروہوں اور الگ الگ خاندانوں کی صورت میں روزمرہ زندگی کے معاملات میں مصروف عمل تھے۔ چونکہ ربِ کائنات نے’’ زمین پر پہلے فساد کا علاج ’’لسانیت‘‘ کے ذریعے حل کیا تھا‘‘ جب مالکِ کائنات نے خود اپنی مخلوق کو ’’لسانیت‘‘کے نام پر تقسیم کرکے اولادِ آدمؑ کو زمین پر رہنے کا سلیقہ سکھا دیا تو ہم کون ہوتے ہیں کہ ایک دوسرے پر قوم کو زبان کے نام پر تقسیم کرنے کا ’’فتویٰ‘‘ صادر کرنے والے؟ تقسیم کا یہ سلسلہ رکا نہیں بلکہ طوفانِ نوحؑ کے بعد آدمِ ثانیؑ کے چار بیٹوں ’’حام ٗسام ٗ کنعان اور یافث‘‘ کے ذریعے کرہ ارض کے چاروں برِاعظموں میں مختلف اقوام کو آباد کروایا۔ میں’’زبان‘‘ کی تقسیم در تقسیم کا سلسلہ رکا نہیں کہ آج برِاعظم امریکہ ،ٗافریقہ اور ایشیاء کے ساتھ ساتھ برِصغیر میں بھی کتنی زبانیں رائج ہیں؟
انسانی معاشروں کی تربیت و اصلاح کیلئے جب اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرامؑ کو دنیا میں معبوث فرمایا تو انہیں آسمانی صحائف اور کتابیں بھی اُن ہی رائج کردہ مختلف ’’زبانوں‘‘ میں’’قرآن باللسان‘‘کے مانند نازل کیں تاکہ مخلوق ،احکامِ الٰہی آسانی سے سمجھ سکے ۔سیدنا موسیٰ ؑ کی تورات (آرامی۔Aramaic)ٗسیدنا داؤد ؑ کی زبور(قبطی۔Coptic) ٗسیدنا عیسیٰ ؑ کی انجیل(عبرانی۔Hebrew) اورنبی آخرالزماںﷺ پرقران مجید(عربی) میں نازل فرمائیں ۔
Aramaic اور Coptic امتزاج سے عربی نے جنم لیا اور یہ سیدنا اسماعیل ؑ کی اولاد کی زبان بن گئی ۔
جب مالک کائنات نے نظامِ ہستی چلانے کیلئے مختلف ’’زبانوں‘‘ کو رائج کرکے ’’لسانیت‘‘ کو تقویت دی تو ہمیں نظامِ قدرت کی کرشمہ سازی پر اعتراض ہرگز نہیں کرنا چاہئیے۔ یہ اعتراض کر کے ،کہیں ہم سب’’توہینِ مالکِ کائنات‘‘ کے مرتکب تو نہیں ہورہے ہیں؟
دینِ اسلام میں حسب نسب ظاہر کرناپر کہیں بھی ممنوع نہیں۔ جیسا کہ سیدنا سلمان فارسیؓ ٗ ،سیدناصہیب رومیؓ اور سیدنا بلال حبشیؓ سمیت سب کے سب صحابہ کرام اپنے قبائل اور حسب نسب کے ساتھ نامِ گرامی لکھتے رہے تھے۔ امام بخاریؒ سے سیدنا عبدالقادر جیلانیؒ تک تمام بزرگانِ دین نے آج تک کسی کی زبان ٗ رنگ و نسل اور حسب نسب پر اعتراض نہیں کیابلکہ یہ سب، ایک دوسرے کے احترام کوایمان کا حصہ سمجھتے تھے کجا کہ تنقید و توہین روا رکھتے۔

یہ بھی پڑھئے:  جو اماں ملے تو کہاں ملے

آجکل ،لفظ’’لسانیت‘‘ ایک گالی کی مانند لکھا اور پڑھا جارہا ہے جو کہ سراسر غلط بلکہ ’’توہینِ ربِ کعبہ‘‘ کے زمرے میں آرہا ہے۔ ان ناسمجھ ’’مخلوق زادوں‘‘ کی عقل سلیم پر ماتم کرنے کو دل چاہتا ہے جو ایسا سمجھتے ہیں۔
دنیا کے ہر خطے میں ہجرت کا عمل جاری و ساری رہتا ہے۔ تاریخ اسلام میں ایک ہجرت مکہ سے مدینہ تک اور دوسری ہجرت بھارت سے پاکستان تک کی گئی تھی ٗ مکہ سے ہجرت کرنے والوں نے بھی شہادتوں یا مال و زر کی قربانیوں کا کبھی تذکرہ نہیں کیا۔ دینِ اسلام کے نام پر ہجرت کرنے اور احسان جتلانے کا ذکر تاریخ کے اوراق میں کہیں نہیں ملتا جبکہ بھارت سے ہجرت کرنے والوں کی نسلیں،بے جا احساس تخافر سے لبریز ،مملکتِ پاکستان میں صدیوں سے آباد زمین داروں کو احسان جتلانے سے بازنہیں آتے جبکہ انہیں ہجرت کے بعد سچے جھوٹے کلیموں کی مد میں ہندؤں کی چھوڑی ہوئی جائیدادیں اور رقبے مالکانہ حقوق کے ساتھ الاٹ بھی ہوئے تھے اور یہ قیامِ پاکستان سے امروز تک مقامی وصوبائی اسمبلیوں اور قومی سطح کی حکومتوں کا مسلسل حصہ بھی بنتے آرہے ہیں۔
سرائیکی وسیب کی پسماندگی اور تعمیر و ترقی اور حقوق کیلئے فیڈریشن آف پاکستان کے تحت اکائی کی صورت میں بات کرنا ’’لسانیت‘‘ کے کس قاعدہ اور قانون کے خلاف مرتکب ہورہا ہے ۔خدا راہ!مملکتِ خداداد پر رحم کھائیں اور بے مقصد اور انتشار پسندی پر مبنی ’’کالم ‘‘ دوسروں سے لکھوانے والے ’’Paid-Men‘‘کو ہوش کے ناخن لینے چاہیں کہ نواب مظفر خان شہید سدوزئی کے خلاف سازش اور رنجیت سنگھ کی دلالی کرنے والا ’’عبدالصمد خان بادوزئی‘‘ بننے سے بہتر ہے کہ وہ ’’Son of soil‘‘ ہونے کا ثبوت دیں اور اپنی آنکھوں پر رکھی ’’لسانیت‘‘ کے خلاف نفرت کی عینک ہمیشہ کیلئے اتار پھینکیں ۔ایسا کرنے کے لئے 9اکتوبر2016ء کو ’’خبریں‘‘ میں شائع رانا محبوب اختر کا کالم ’’شناخت ٗ وسیب اور اسلم جاوید‘‘ باربار پڑھ کر اپنے اوپر دم کریں تاکہ سرائیکی وسیب کے بارے میں گھٹن اور غلط سوچ کا تدارک ہوسکے اور پھر کوئی بھی انتشار پسندی پر مبنی کالم نگاری نہ کرسکے اگر پھر بھی افاقہ نہ ہوتو رانا محبوب اختر کے ’’دست نمو‘‘ پر بیعت کرکے سرائیکی وسیب کے حقیقی ’’سرائیکالوجیسٹ‘‘ ہونے کا ثبوت دیں اور ربِ کائنات کی تخلیقِ ’’لسانیت‘‘ کی توہین کرنے پر توبہ کریں۔

حالیہ بلاگ پوسٹس